Thursday, June 02, 2016

 

ضد آرکٹک مرکز، پوناکائیکی










ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو تراسی

مئی اٹھائیس، دو ہزار سولہ

ضد آرکٹک مرکز، پوناکائیکی

 
میں ایک جانور پیدا ہوا تھا۔ اپنی پیدائش کے وقت میں بظاہر انسان کا بچہ تھا مگر میرے اندر جو واحد جبلت موجود تھی وہ حیوانی تھی۔ لکھنا پڑھنا تو بہت دور کی بات ہے مجھے اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنے کی بھی تمیز نہیں تھی۔ میری سب سے قوی خواہش اپنی بقا سے متعلق تھی۔ اگر میری پیدائش کے بعد صرف اور صرف میری غذا کا انتظام کیا جاتا، مجھے زندہ رکھنے کے علاوہ میرے لیے کسی قسم کی تربیت کا اہتمام نہ کیا جاتا تو میں بلوغت پہ بظاہر پورے قد کا انسان نظر آتا مگر اندر سے نرا جانور ہی  رہ جاتا۔ وہ جانور جو کسی طرح بھی چھین جھپٹ کر اپنی غذا کا انتظام کرتا ہے اور اپنی نسل آگے بڑھانے کی ترکیب کرتا ہے۔ مگر شکر ہے ایسا نہ ہوا۔ پیدائش کے بعد مجھے مستقل تعلیم دی گئی۔ پہلے والدین اور خاندان والوں کی طرف سے، اور پھر مدارس میں۔ شہروں میں پیدا ہونے والے بہت سے بچوں کی طرح میں بھی خوش قسمت تھا کہ میرے آس پاس کے ماحول میں جدید دنیا کی وہ چیزیں قابل دسترس تھیں جن کو برتنے کا طریقہ میں اپنے ماحول سے سیکھ سکتا تھا۔ غرض کہ پچھلے آٹھ دس ہزار سالوں میں انسان نے تمدنی ارتقا کی جو منازل طے کی ہیں، مجھے عمر کے پہلے دس پندرہ سالوں میں اس تہذیب کے چیدہ چیدہ نکات سمجھا دیے گئے۔ لکھنا، پڑھنا، انسان کے تہذیبی ارتقا کی وہ منزل جو انسان نے کئی ہزار سالوں میں طے کی تھی، وہ ٹیکنالوجی جو محض پانچ ہزار سال پرانی ہے، مجھے عمر کے پہلے چھ برس میں وہ ٹیکنالوجی سکھا دی گئی اور میں لکھنے پڑھنے کے قابل ہوگیا۔ اسی طرح مجھے سمجھا دیا گیا کہ میں اپنی بنیادی ضروریات یعنی کھانا، پینا، سر چھپانا، اور نسل آگے بڑھانا، ایک انسانی معاشرے میں رہتے ہوئے کس طرح معاشرے کے قوانین کے حساب سے پوری کرسکتا ہوں۔ یعنی، اپنی جان سلامت رکھنے کے لیے غذا حاصل کرنا میری بنیادی ضرورت ہے مگر میں کسی دوسرے انسان کا کھانا چرا کر اپنی یہ ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ اگر میں اپنی مرضی سے انسان کے ایک گروہ کے درمیان رہ رہا ہوں تو مجھے ان قوانین کی پاسداری کرنی ہوگی جو اس گروہ نے مل جل کر وضع کیے ہیں۔
اور انسان کا تہذیبی ارتقا کسی مقام پہ رکا نہیں ہے۔ نہ یا ارتقا ایک ہزار چار سو سال پہلے مکہ مدینہ میں رکا تھا، نہ آج رکا ہے، اور نہ آج سے ایک ہزار چار سو سال بعد رکے گا۔ ہم منصف معاشرے کی جستجو میں مستقل اپنی سمت بدل رہے ہیں اور انسانی معاشروں کو تمام لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ بہتر بناتے جارہے ہیں۔ ایسے میں اگر کچھ لوگ ماضی کی اقدار کے حساب سے جینا چاہیں، اور ساتھ یہ چاہیں کہ تمام لوگ ان کے فرسودہ، بدبودار طریقے سے چلیں تو یقینا ان لوگوں کو تاسف کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ جانور سے انسان بننے کے عمل میں یہ لوگ یقینا کچھ پیچھے رہ گئے ہیں۔ نہ جانے یورپی نو وارد نیوزی لینڈ پہنچنے پہ وہاں کے ادھ ننگے باسیوں کو ایسی نظروں سے دیکھتے تھے یا نہیں، ہم یقینا اسلامی نظریاتی کونسل کے نام نہاد علما کو تاسف کی اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ وہ حیوان نما انسان ہیں جو عورت کو اسی طرح کے کمتر مقام پہ رکھنا چاہتے ہیں جس مقام پہ وہ ایک ہزار چار سو سال پہلے تھی۔ یہ لوگ عورت کو مرد کی جائیداد سمجھتے ہیں کہ جس طرح ایک مرد اپنی بھیڑ بکریوں کو چھڑی سے ہانک سکتا ہے اسی طرح مرد کو اپنی بیوی کی پٹائی کا حق بھی ہونا چاہیے۔
زمین کے دونوں قطبین پہ برف جمی ہوئی ہے۔ مگر شمالی قطب اور جنوبی قطب کے درمیان بڑا فرق یہ ہے کہ شمالی قطب پہ جمی برف سمندر کا پانی ہے جب کہ جنوبی قطب پہ جمی برف کے نیچے زمین ہے۔ یعنی اگر آپ قطب شمالی پہ برف کھودیں تو بہت گہرائی میں آپ کو پانی ملے گا اور پھر اس سمندر کی تہہ میں خشکی ملے گی، جب کہ قطب جنوبی پہ برف کھودنے پہ آپ فورا زمین تک پہنچ جائیں گے۔ اسی وجہ سے قطب جنوبی کے برفانی علاقے کو ضد آرکٹک براعظم کہا جاتا ہے۔
کرائسٹ چرچ قطب جنوبی سے قریب ترین بڑا شہر ہے۔ اسی لیے ضد آرکٹک جانے والے مہم جو کرائسٹ چرچ میں رکتے ہیں اور وہاں سے کمک ساتھ لے کر آگے قطب جنوبی کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ ضد آرکٹک جانے والے یہ لوگ کرائسٹ چرچ میں ضد آرکٹک مرکز [اینٹ آرکٹک سینٹر] نامی جگہ پہ قیام کرتے ہیں جہاں ان کی خاص تربیت ہوتی ہے۔ کرائسٹ چرچ نے اس مرکز سے سیاحتی آمدنی حاصل کرنے کا موقع پیدا کرلیا ہے۔ سیاح اس مرکز میں جا کر دیکھ سکتے ہیں کہ ضد آرکٹک جانے والے مہم جو ضد آرکٹک کی ظالم سردی سے مقابلہ کرنے کی تیاری کس طرح کرتے ہیں۔ ہم ضد آرکٹک مرکز میں مختلف معلوماتی کتبوں کو پڑھ کر قطب جنوبی مہمات کی تاریخ کے بارے میں جانتے رہے۔
کرائسٹ چرچ دیکھنے کے بعد اب ہم مزید جنوب کی طرف جارہے تھے اور کرائسٹ چرچ سے پوناکائیکی کے راستے میں ہمیں برف پوش پہاڑ سر کرنے تھے۔ گاڑی کرائسٹ چرچ سے نکلی تو ہم بہت دور تک ہموار زمین پہ چلتے رہے، وہاں کھیت کھلیان تھے اور کھیتوں کے ساتھ درخت لگے تھے۔ پھر ہم پہاڑوں میں پہنچ گئے۔ وہاں اونچے مقامات پہ خوب برف نظر آئی۔ مغربی ساحل پہ پہنچنے سے پہلے گاڑی پہاڑوں سے نیچے اترنا شروع ہوگئی۔ جنوبی جزیرے کے مغربی ساحل کا نقشہ یہ تھا کہ اکثر جگہ پہاڑ سمندر تک چلے آتے تھے۔ ہم اسی اونچے نیچے راستے پہ چلتے ہوئے پوناکائیکی تک پہنچے۔
پوناکائیکی پہنچتے پہنچتے سہ پہر ہوگئی تھی مگر ہم پوناکائیکی کے مشہور پارک کی سیاحت اگلے دن کے لیے نہیں اٹھا رکھنا چاہتے تھے۔ ہم نے سامان ہوٹل کے کمرے میں ڈھیر کیا اور فورا پاپاروا نیشنل پارک پہنچ گئے۔ یہ پارک اپنی پرت در پرت پین کیک چٹانوں کے لیے مشہور ہے۔ یہ چٹانیں بننے میں پچیس کروڑ سال لگے ہیں۔
اگر انسان کو اپنی مختصر زندگی کی کم حیثیت کا ادراک کرنا ہو تو تاریخ پڑھے، اگر وقت کی وسعت کا اس سے بہتر اندازہ کرنا ہو تو ارضیات پڑھے، اور اگر وقت کے بے کراں سمندر میں اپنی ذرہ برابر زندگی کا صحیح مذاق اڑانا چاہے تو فلکیات پڑھے۔
ہم پاپاروا نیشنل پارک کی تہہ در تہہ چٹانوں کو دیکھتے جاتے تھے اور وقت کی ہیبت سے ہول کھاتے جاتے تھے۔


Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?