Thursday, May 12, 2016

 

ویلنگٹن











ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اسی

مئی آٹھ، دو ہزار سولہ

ویلنگٹن


صبح الارم سے آنکھ کھلی ہے۔ دیوار کے دوسری طرف شہر چلنا شروع ہوگیا ہے۔ کل رات روتوروا سے ویلنگٹن پہنچنے پہ گاڑی باہر روڈ پہ کھڑی کی تھی۔ ہوٹل کی پارکنگ بہت گراں تھی جب کہ باہر سڑک پہ صبح نو بجے تک گاڑی مفت کھڑی کی جاسکتی ہے۔ الارم سے سویرے اس نیت سے اٹھے ہیں کہ معمولات نمٹا کر ہوٹل کا کمرہ چھوڑ دیں اور نو بجے سے پہلے گاڑی اپنی جگہ سے ہٹا لیں۔ روتوروا سے ویلنگٹن آتے ہوئے راستے کی خوبی یہ تھی کہ ہم نے ایک پہاڑی سلسلہ پار کیا۔ اس پہاڑی سلسلے کے اونچے مقامات پہ خوب برف پڑی ہوئی تھی۔ اور یوں ہم نے جولائی میں برف میں کھیلنے کا شوق پورا کیا۔ کل رات جب سامان کمرے میں چھوڑنے کے بعد رات کے کھانے کی تلاش میں نکلے تو مرکز شہر کی بیشتر دکانوں کو بند پایا۔ سرد راتیں لوگوں کی جان ذرا جلدی نکال لیا کرتی ہیں۔ مگر ایک سڑک چھوڑ کر ہم نے ایک فوڈ کورٹ کھلا دیکھا۔ اس فوڈکورٹ میں ہرطرح کے بین القوامی کھانے دستیاب تھے۔ ہم اپنے جسم میں دال اور مرغ سالن کی کمی محسوس کررہے تھے اس لیے یہی کھانا کھایا۔

شام کی ڈائری
ویلنگٹن کو اپنے تے پاپا عجائب گھر پہ ناز ہے۔ تے پاپا میں ایک نمائش سے دوسری نمائش جاتے اندازہ ہوا کہ اب مغرب کے ہر بڑے شہر میں طبیعی تاریخ عجائب گھر [نیشنل ہسٹری میوزیم] کے ذریعےلوگوں کو اس دنیا کی تاریخ کے بارے میں جو کچھ بتایا جاتا ہے اس کا محور تین اہم سائنسی تھیوری ہیں: بگ بینگ تھیوری، پلیٹ ٹیکٹانوکس، اور ارتقا۔ بگ بینگ تھیوری کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ ہم کائنات کی موجودگی کے بارے میں ماضی میں کس قدر پیچھے جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ پلیٹ ٹیکٹانوکس کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ زمین پہ مختلف براعظم کس طرح اپنی موجودہ جگہ پہنچے ہیں اور آئندہ کیا ہونے کا امکان ہے۔ اور ارتقا کی تھیوری کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ ہرقسم کے جاندار کس طرح وقت کے ساتھ اپنی ہئیت تبدیل کرتے ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟ : بگ بینگ تھیوری، پلیٹ ٹیکٹانوکس، اور ارتقا کے بارے میں نہ بتایا جائے تو لوگوں کو ان کے اطراف کی دنیا کے بارے میں کیسے سمجھایا جائے؟ صرف سائنس ہی تو انسان کے بنیادی سوالات کا مدلل جواب دیتی ہے۔ اعتقادات بھی ہمارے بنیادی سوالات کے جوابات دیتے ہیں مگر آپ کو ان جوابات پہ سوال کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ اعتقاد کے دیے جوابات کو اپنے ایمان کا جز مان کر اسے من و عن قبول کرنا ضروری ہے۔ جب کہ سائنس میں زیادہ کسر نفسی ہے۔ سائنسداں شواہد آپ کے سامنے رکھ کر اپنی تھیوری بیان کرتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ ان شواہد کی بنیاد پہ ہم تو یہ سمجھے ہیں، اگر آپ کو کچھ اور سمجھ میں آرہا ہے تو وہ بیان کیجیے، شاید وہ سچ ہو۔
تے پاپا عجائب گھر میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ اچانک ہرجگہ سے زور زور الارم کی آواز آنے لگی۔ خطرے کی گھنٹیاں حاضرین کو مطلع کررہی تھیں کہ عجائب گھر کے کسی حصے میں آگ لگ گئی ہے۔ لوگ بہت اطمینان سے قطار در قطار سیڑھیوں کی طرف بڑھنا شروع ہوئے اور سیڑھیوں کے ذریعے نچلی منزل پہ پہنچ کر عمارت سے باہر آگئے۔ عمارت سے باہر نکل کر ہم نے جھانک تاک کی کہ کہیں سے دھواں اٹھتا نظر آئے مگر ہمیں  آگ کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ گھنٹیوں کے شور سے کچھ دیر پہلے ہم نے یونیفارم پہنے ایسے لوگوں کو دیکھا تھا جو کسی ٹھیکے دار کے کارندے معلوم دیتے تھے۔ ہمیں خیال ہوا کہ ان ملازمین نے عمارت کا فائر الارم نظام چیک کرنے کے دوران کسی غلط جگہ ہاتھ مار دیا اور یوں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔ یہ بھی ممکن تھا کہ یہ پورا عمل ایک مشق کا حصہ تھا اور ہم نہ جانتے ہوئے اس مشق میں شامل ہوگئے تھے۔ ہم کافی دیر باہر کھڑے رہے اور جب انتظامیہ کی طرف سے اندر جانے کا اشارہ ملا تو کافی وقت گزر چکا تھا۔ وہ عجائب گھر اس قدر عمدہ تھا کہ اگر ہم اس وقت اندر جاتے تو پھر عجائب گھر کا وقت ختم ہونے تک وہاں سے باہر نہ نکلتے۔ جب کہ ہمیں رات ویلنگٹن اور آک لینڈ کے راستے میں تورنگا نامی قصبے میں بسر کرنا تھی۔ ویلنگٹن خوب صورت تھا، ویلنگٹن مسافر نواز تھا، مگر ہمیں اب ویلنگٹن کو الوداع کہنا تھا۔


Labels: , ,


Comments:
Very interesting to read, keep it up.
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?