Thursday, May 05, 2016

 

روتوروا











ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اناسی

مئی ایک، دو ہزار سولہ

روتوروا

 
اگر آپ نیوزی لینڈ کے قصبے روتوروا میں چہل قدمی کرتے ہوئے مستقل گٹر کی بو کی شکایت کریں تو سمجھ جائیں کہ آپ نے روتوروا کے بارے میں سطحئی طور پہ پڑھا ہے اور آپ گٹر کی بو کا روتوروا کی شہرت سے تعلق نہیں جوڑ پارہے ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ تھا۔

کاپ ثورن ہوٹل مرکز شہر سے میل بھر کے فاصلے پہ تھا۔ ہم ہوٹل کے کمرے میں سامان دھرنے کے بعد پیدل مرکز کی طرف چلے جارہے تھے اور مسقل حیران تھے کہ نیوزی لینڈ جیسے ترقی یافتہ ملک میں روڈ کے ساتھ چلتے ہمیں گٹر کی بو کیوں سونگھنے کو مل رہی تھی۔

ہمارا تعلق جس جگہ سے ہے وہاں برسوں کی خراب حکمرانی پورے طمطراق سے آپ کے حواس پہ حملہ آور ہوتی ہے۔ آپ قیادت کی نااہلی کے نتائج دیکھ سکتے ہیں، سن سکتے ہیں، سونگھ سکتے ہیں، چکھ سکتے ہیں، اور چھو سکتے ہیں۔ جگہ جگہ پھیلا کچرا اور ہرجگہ سے اٹھتی گٹر کی بو آپ کے حواس خمسہ پہ اسی حملے کے دو انداز ہیں۔  نیوزی لینڈ کے اس قصبے میں کچرے کے ڈھیر تو نہیں تھے مگر گٹر کی بو بہت تیز تھی۔ ہم مستقل ناک پہ رومال رکھے چل ہے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہاں ٹہلتے ہوئے دوسرے لوگ اس بو کا ذرا برا نہیں منا رہے تھے۔
ہم اس بو سے اس وقت تک پریشان رہے جب تک اپنے ذہن میں اچانک نمودار ہونے والے ایک خیال سے روتوروا کے گندھک کے چشموں کا تعلق اس بو سے نہ جوڑ پائے۔ یہ بات سمجھ میں آنے پہ ہم نے فورا رومال ناک سے ہٹا لیا۔ قدرتی ہائڈروجن سلفائڈ زندہ باد، انسانی ہائڈروجن سلفائڈ نامنظور۔

وطن میں جگہ جگہ اٹھنے والی گٹر کی بو کا سوچ کر ہمیں خیال آیا کہ کس طرح ان انتہائی کارآمد لوگوں کو جو وطن میں کوڑے اور گند کے اس ناقص نظام کو کسی نہ کسی چلا رہے ہوتے ہیں، حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صفائی کرنے والے وہ لوگ اسی کام کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور وہ یہ کام بہت شوق سے کرتے ہیں۔

نیوزی لینڈ آنے والے یورپی نوواردوں نے مقامی لوگوں کو بہت بعد میں انسان کے خانے میں ڈالا تھا۔ مائوری کو انسان سمجھنے کے بعد ہی ان کی زبان کو اہمیت دی گئی اور نئے آنے والوں کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ مائوری جن ناموں سے اس جزیرے کے مقامات کو جانتے ہیں، ان ناموں کو یورپی ناموں سے بدلنا ضروری نہیں ہے۔  اسی وجہ سے نیوزی لینڈ میں آپ کو ساحلی شہروں کے نام انگریزوں کے رکھے ہوئے ملیں گے جب کہ آپ اندرون قصبوں کے نام مقامی پائیں گے۔ روتوروا بھی ایسا ہی ایک مقامی نام ہے۔

روتوروا کے آس پاس جگہ جگہ گرم پانی کے چشمے ہیں۔ بعض چشموں سے پانی دھیرے دھیرے نکلتا نظر آتا ہے جب کہ دوسرے پوری طاقت سے گرم پانی کو فضا میں اچھالتے ہیں۔
دور دور تک پھیلی ہریالی جس میں سرخس [فرن] کی فراوانی اور پھر اس ہرے کینوس پہ جگہ جگہ بھاپ اڑاتے پانی کے گرم چشمے نہایت دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔

کاپ ثورن ہوٹل کے استقبالیہ پہ موجود ایک مینیجر مشرقی پنجاب سے تعلق رکھتا تھا مگر وہ پنجابی بول نہیں سکتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ بہت چھوٹی عمر میں والدین کے ہمراہ نیوزی لینڈ آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ چند ماہ میں پہلی بار چھٹیاں منانے مشرقی پنجاب جا رہا تھا۔

کاپ ثورن ہوٹل میں امریکی بچوں کا ایک بڑا گروپ ٹہرا ہوا تھا۔ وہ سب غالبا نویں دسویں کے طلبا تھے؛ وہ اکثر ہوٹل کی لابی میں بیٹھے نظر آتے تھے، شاید اس وجہ سے کہ لابی میں انٹرنیٹ کا استعمال مفت تھا۔ ان طلبا کے ساتھ دو اساتذہ بھی تھے۔

ہوٹل کے سوئمنگ پول میں گرم پانی کسی قدرتی چشمے سے حاصل کیا جاتا تھا۔ سوئمنگ پول کے استعمال کے بعد استقبالیہ سے اضافی تولیے مانگنا ان طلبا کا خاص مشغلہ تھا۔ استقبالیہ اضافی تولیے دینے میں تردد کرتا مگر یہ طلبا ثابت قدمی سے وہاں کھڑے رتے اور تولیہ حاضل کر کے ہی استقبالیہ کی جان چھوڑتے۔

اس روز میں ہوٹل کی لابی میں بیٹھا انٹرنیٹ استعمال کررہا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ وہاں بیٹھے طلبا میں سے ایک لڑکے کی طبیعت خراب تھی۔ ایک استانی لڑکے کے پاس بیٹھی تھی اور یہ طے پارہا تھا کہ لڑکے کو کب ڈاکٹر کو دکھایا جائے۔ اتنے میں ایک کھلبلی مچی۔ میں نے اس طرف دیکھا تو نظر آیا کہ بیمار لڑکا الٹیاں کررہا تھا۔ اس کی اول واردات تو سامنے میز پہ پھیلی نظر آرہی تھی مگر پھر برابر بیٹھی استانی نے سرعت سے میز پہ پڑا ایک خالی گلاس سامنے کردیا تھا اور لڑکے نے اپنے بقیہ پیٹ کو اس گلاس میں خالی کیا تھا۔ استانی لڑکے کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیر رہی تھی اور لگتا تھا کہ لڑکے کا پیٹ اب مکمل طور پہ صاف ہوچکا تھا۔

استقالیہ پہ موجود مینیجر یہ ساری کاروائی دیکھ رہا تھا۔ لابی اور اطراف کی صفائی دو آدمیوں کے ذمے تھی، ایک سفید فام تھا اور دوسرا دیسی۔ اس وقت دیسی اہلکار وہاں موجود تھا۔ مینیجر نے اہلکار کو اشارہ کیا کہ وہ لابی میں پھیلائی جانے والی گندگی کو صاف کرے۔ دیسی اہلکار ایک بالٹی اور کوچی لے کر فورا جائے واردات پہ پہنچ گیا۔ اس نے میز پہ پھیلی گندگی کو کاغذ سے صاف کیا اور پھر فرش پہ پھیلی گندگی کو کوچی سے اٹھایا۔ یہ صفائی کرنے کے بعد وہ اہلکار بالٹی، کوچی، اور گندگی سے بھرا گلاس لے کر روانہ ہوگیا۔

کچھ دیر بعد مجھے اس دیسی اہلکار کی سفید فام اہکار سے گفتگو سننے کو ملی۔ طلبا میرے دائیں جانب تھے جب کہ یہ اہلکار میرے بائیں طرف غلام گردش میں باتیں کررہے تھے۔ سفید فام اہکار نے دیسی اہلکار سے کہانی کا اول حصہ سنا جس سے وہ واقف نہ تھا۔ پھر یہ شخص دیسی اہکار پہ ناراض ہونے لگا کہ اس نے میز اور فرش کی صفائی کے دوران دستانے کیوں استعمال نہیں کیے۔ جب کہ دیسی اہلکار کا کہنا تھا کہ اس نے دستانے پہننے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ شاید وہ سفید فام اہل کار دیسی اہل کار کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہا تھا کہ دوسروں کی گندگی صاف کرنے کے دوران یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ گندگی طوعا و کرہا صاف کی جارہی ہے اور اس صفائی میں صفائی کرنے والے کو ذرا مزا نہیں آرہا ہے۔ اپنے انداز سے اس احساس کی وضاحت نہ کرنا نقصان کا سودا ثابت ہوسکتا ہے خاص طور پہ اس صورت میں جب معاملہ کرنے والے یہ دو لوگ نسلی طور پہ بالکل جدا ہوں۔



Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?