Thursday, April 07, 2016

 

پورٹ اسٹیفنس میں دو ولندیزی لڑکیاں





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو پچھتر

اپریل تین، دو ہزار سولہ

پورٹ اسٹیفنس میں دو ولندیزی لڑکیاں


دنیا سے گزر جانے والے لوگوں سے طرح طرح کے فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اگر وہ آنجہانی پسندیدہ تھے تو ان کےنام پہ سڑکوں کے نام رکھے جاسکتے ہیں اور قصبے ان کے نام سے منسوب کیے جاسکتے ہیں۔ آسٹریلیا کی تاریخ میں اسٹیفنس اور نیلسن صاحبان بھی ایسے ہی پسندیدہ لوگ تھے جن کے نام پہ پورٹ اسٹیفنس اور نیلسن بے آباد ہیں۔ نیلسن بے میں ہمارا قیام ایڈمرل نیلسن موٹر ان میں تھا۔ یہ ہوٹل مرکز شہر سے کچھ فاصلے پہ تھا۔ ہمیں ہوٹل سے پیدل چل کر مرکز شہر جانا اچھا لگتا تھا۔ ایک دن ہم نیلسن بے کے چھوٹے سےمرکز شہر میں ٹہل رہے تھے کہ غیرمانوس انگریزی لہجے میں کسی نے ایکسکیوز می کہا۔ ہم نے پلٹ کر دیکھا تو دو جواں سال لڑکیوں کو وہاں موجود پایا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ کچھ دیر پہلے ہی بلو مائونٹین سے نیلسن بے پہنچی تھیں۔ نیلسن بے میں ان کے پاس ایک ہوٹل کی ریزرویشن تھی مگر انہیں اپنے پاس موجود نقشے میں اس ہوٹل کا سراغ نہیں مل رہا تھا۔ ہم نے ان کی بات غور سے سنی مگر پھر ان کی مدد سے معذرت کر لی کہ ہم نیلسن بے میں خود نووارد تھے۔ کچھ آگے گئے تو خیال آیا کہ جس ہوٹل کا نام یہ دو لڑکیاں بتارہی تھیں وہ نام ہم نے اپنے ہوٹل کے قریب کہیں لکھا دیکھا تھا۔ مرکز شہر میں ایک چکر لگا کر واپس پلٹے تو وہ دونوں لڑکیاں ابھی تک وہاں حیران پریشان کھڑی تھیں۔ ہم نے ان سے بات کی اور کہا کہ ہمیں سو فی صد یقین تو نہیں ہے مگر ہمیں خیال ہے کہ وہ جس ہوٹل کا نام بتا رہی ہیں اسے ہم نے دیکھا ہے اور غالبا وہ ہمارے ہوٹل کے قریب ہے۔ اگر وہ ہمارے اس کچے پکے خیال پہ اعتماد کریں تو ہم ان کی راہ نمائی کرسکتے ہیں۔ اس بات پہ وہ ہمارے ساتھ چل پڑیں۔ وہ دونوں لڑکیاں ولندیزی تھیں۔ آسٹریلیا آنے سے پہلے ان کا سفر کا واحد تجربہ یہ تھا کہ وہ اسکول کے ایک گروپ کے ساتھ ہسپانیہ گئیں تھیں۔ انہوں نے حال میں بارہ جماعتیں پاس کی تھیں اور اب وہ اپنے آپ کو زیادہ دور کے سفر کے لیے تیار سمجھتی تھیں۔
ہم مرکز شہر سے باہر آئے تو سڑک کے ساتھ لگے بجلی کے کھمبوں کے درمیان فاصلہ بڑھنے کے ساتھ اندھیرا بڑھ گیا۔ ان لڑکیوں کے پاس ایک سیاحتی کتاب تھی۔ وہ مستقل اس سیاحتی کتاب میں موجود نقشے کا مقابلہ سڑک پہ لگے سائن کے ساتھ کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے اپنے سیل فون کی روشنی تیز کردی۔ وہ دونوں آپس میں ولندیزی میں باتیں کرتے ہوئے سیل فون کی روشنی میں نقشہ دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھیں۔ ہمارا خیال تھا کہ مرکز شہر سے نکل کر بڑی سڑک پہ اگر دائیں طرف جائیں تو ایک وسیع رقبے پہ پھیلی سرکاری عمارت کے سامنے سے جانے والی سڑک پہ وہ ہوٹل آجائے گا جہاں ان لڑکیوں کی ریزرویشن تھی۔ ہم سب بڑی سڑک پہ بہت دور تک چلتے رہے مگر ہمیں وہ سرکاری عمارت نظر نہ آئی جس کے سامنے سے بائیں طرف مڑ کر مذکورہ ہوٹل تک پہنچنا تھا۔ ہم نے ہار مان لی اور ان سے معافی چاہی کہ ہمارا اندازہ غلط ثابت ہوا تھا۔ ہم سب واپس مرکز شہر کی سمت پلٹ گئے۔ کچھ ہی آگے ایک ہوٹل نظر آیا۔ یہ دونوں لڑکیاں اس وقت تک تھک چکی تھیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ریزرویشن والے ہوٹل کو بھلا کر سامنے نظر آنے والے ہوٹل میں کمرہ تلاش کریں گی۔ انہیں کمرہ حاصل کرنے کی جلدی تھی کیونکہ ان کے والدین اولاند میں ان کے فون کا انتظار کررہے تھے۔
ان کو رخصت کرنے کے بعد ہم ان کم سن مگر دبنگ لڑکیوں کے سفر کے تجربے کے متعلق سوچتے رہے کہ یہ لڑکیاں صرف مغربی ممالک ہی میں اس طرح آزادی سے دو کی زنانہ ٹولی میں سفر کرسکتی ہیں۔ کسی ترقی پذیر ملک میں سفر کے دوران ان کی جان و عصمت کی حفاظت کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔
اگر کسی ایسے عورت دشمن ترقی پذیر ملک کے لوگوں کو کہا جائے کہ وہ تہذیب یافتہ نہیں ہیں تو وہ اس بات کا بہت برا مناتے ہیں۔ مگر آخر انہیں بدتہذیب کیوں نہ کہا جائے؟ جو معاشرے قانون کی حکمرانی قائم نہ کرسکیں وہ یقینا غیرتہذیب یافتہ ہیں۔ جن معاشروں میں عورت کو مرد کے برابر انسان نہ سمجھا جائے وہ یقینا غیرتہذیب یافتہ ہیں۔ جس سماج میں عورت مستقل خوفزدہ رہے وہ یقینا غیرتہذیب یافتہ ہے۔ یہ سچ بات کہنا ضروری ہے کیونکہ اس سچے اعتراف کے بعد ہی تو ہم سدھار کی راہ پہ چل سکتے ہیں۔




Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?