Thursday, March 03, 2016

 

لائٹننگ رج سے گونڈروونڈی








ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو ستر

فروری ستائیس، دو ہزار سولہ

لائٹننگ رج سے گونڈروونڈی


لائٹننگ رج سےبرسبین جاتے ہوئے گونڈروونڈی میں ٹہرنا ضروری تو نہ تھا مگر کیونکہ گورنڈروونڈی قریبا نصف راہ میں پڑتا تھا اس لیے ہم وہاں ٹہر گئے۔ گو کہ گونڈروونڈی کو اپنے آپ پہ بے حد مان ہے اور اس چھوٹے سے قصبے کا خیال ہے کہ آپ وہاں کئی دن قیام کرسکتے ہیں مگر گونڈروونڈی میں ہمارے قیام کا مقصد وہاں صرف رات گزارنا تھا۔

آسٹریلیا میں یورپی نوواردوں کے آنے کے فورا بعد بستیوں کے نام نئے آنے والوں کی ترجیحات کے حساب سے رکھے گئے۔ پھر بہت بعد میں آسٹریلیا کے مقامی لوگوں کو بھی انسان کے خانے میں ڈالا گیا اور انہیں بھی پوچھا جانے لگا۔ اس وجہ سے اب آسٹریلیا میں ہائی وے پہ چلتے ہوئے آپ کو قصبوں کے جو نام نظر آتے ہیں ان میں فورسٹ ہل کے ساتھ واگا واگا بھی ملتا ہے۔ گونڈروونڈی بھی ایسا ہی ایک نام ہے۔

گونڈروونڈی میں خاص بات یہ ہوئی کہ اس سفر میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ہم ہوٹل پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہمارے نام کی ریزرویشن وہاں موجود نہ تھی۔ اس ہوٹل کا مالک لوکس ایڈورڈز نامی شخص تھا۔ لوکس نے ہمیں بتایا کہ دیروز اس نے ہمارا رات گئے تک انتظار کیا تھا۔ دراصل غلطی ہماری تھی۔ ہم نے نہ جانے کس خیال میں گونڈروونڈی میں جس روز کی بکنگ کرائی، اس کے ایک دن بعد وہاں پہنچے۔ کوئی اور ہوتا تو باآسانی ہماری غلطی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سے ایک اور دن کا کرایہ اینٹھ سکتا تھا۔ مگر لوکس اچھا آدمی تھا۔ اس نے کہا کہ وہ کل کی بات بھلا کر آج ہمیں کمرہ دے دے گا؛ کرایہ ہم پہلے ہی ادا کرچکے تھے۔ ہم نے لوکس کا بہت شکریہ ادا کیا اور سے ادھر ادھر کی باتیں کرنا شروع کردیں۔ ہم نے جلد ہی جان لیا کہ لوکس کے اندر دراصل ایک آرٹسٹ چھپا ہوا ہے۔ آرٹسٹ تو شاید ہر انسان کے اندر ہوتا ہے مگر دنیا کے زیادہ تر لوگ اپنے اندر کے آرٹسٹ کا گلا گھونٹ کرایک میکانیکی زندگی گزارنے پہ قانع ہوجاتے ہیں۔ لوکس لکھتا ہے اور لکھنا چاہتا ہے۔ اور لوکس کو لکھنا آتا ہے۔

امریکہ کے مقابلے میں آسٹریلیا میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے بیرون ملک سفر کیا ہے اور وہ دنیا سے کافی اچھی طرح واقف ہیں۔ قریبا چھ سال پہلے لوکس اپنی دوست کے ساتھ موٹرسائیکل پہ آسٹریلیا سے نکلا تھا۔ جہاز سے ان دونوں کی موٹرسائیکل پاپوانیوگنی پہنچائی گئیں۔ وہ ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے جاتے انڈونیشیا سے ہوتے ہوئے ملائیشیا پہنچ گئے۔ وہ موٹرسائیکل پہ ملائیشیا سے آگے جانے کا ارادہ رکھتے تھے مگر اس سفر میں ایک جگہ انہیں ایک امیر ملائیشیائی آدمی مل گیا۔ اس شخص نے لوکس کو بتایا کہ وہ کاروباری سلسلے میں ملائیشیا سے باہر جارہا تھا؛ اگر لوکس اور اس کی دوست چاہے تو وہ دونوں اس شخص کے ملک سے باہر رہنے کے دوران اس کے گھر میں رہ سکتے تھے۔ گھر اچھی جگہ پہ تھا اور بہت بڑا تھا۔ کچھ سوچ بچار کے بعد لوکس اور اس کی دوست یہ بات مان گئے۔ پھر اگلے تین سال لوکس ملائیشیا ہی میں رہتا رہا۔  اس نے وہاں کام بھی ڈھونڈ لیا۔ وہ دونوں کچھ کچھ عرصے بعد ملائیشیا میں قیام کی مدت بڑھانے کے لیے ملائیشیا سے نکل کر کبھی تھائی لینڈ اور کبھی سنگا پور چلے جاتے اور پھر نئے ویزے پہ ملائیشیا آکر دوبارہ کام کرنا شروع کردیتے۔ اس طرح انہیں مغربی دنیا سے باہر ایک ملک کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ملائیشیا میں بہت عرصہ رہنے کے بعد یہ لوگ واپس آسٹریلیا پلٹ آئے۔

لوکس نے مجھے بتایا کہ وہ لکھنا چاہتا ہے مگر اسے لکھنے کے لیے بہت کم وقت ملتا ہے۔
’’میں آسٹریلیا واپس پہنچ کرکوئی کاروبار کرنا چاہتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ ہوٹل کا کام آسان ہوگا۔ اور کام کے دوران مجھے لکھنے کا موقع مل جائے گا۔  اسی خیال سے میں نے یہ ہوٹل خرید لیا۔ مگر ہوٹل چلانا آسان کام نہیں ہے۔ میرے دن کا بڑا حصہ ہوٹل کے انتظامات میں نکل جاتا ہے۔

میرا خیال تھا کہ اکثر لکھنے والے اپنے آپ کو ایک چیلنج دیتے ہیں کہ انہیں اتنا وقت لکھنے میں ضرور لگانا ہے۔ بعض لکھنے والے وقت کے بجائے الفاظ کی تعداد سے اپنے آپ کو پابند کرتے ہیں۔ سلمان رشدی نے کہیں لکھا تھا کہ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ روز پانچ ہزار الفاظ تحریر کرے۔ شاید لوکس کو بھی ایسا کرنا ہوگا۔

لوکس نے مجھے اپنے قیام ملائیشیا کا ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ ایک دن ان دونوں کو معلوم ہوا کہ انہیں ایک ایسی دعوت میں شریک ہونا تھا جس میں ملک کے بہت امیر اور بااثر لوگ موجود ہوں گے۔ ان دونوں نے گھبرا کر اپنے پاس موجود کپڑوں کا جائزہ لیا۔ ان کے پاس ایسے کوئی بھی کپڑے نہیں تھے جنہیں پہن کر ایسی پرتکلف دعوت میں شرکت کی جاسکے۔ اس کے باوجود ان کے پاس جو کچھ تھا انہوں نے اس ہی میں سب سے بہتر کا انتخاب کر کے، اسے پہن کر اس دعوت میں شرکت کی۔

اس وقت تک ہمیں باتیں کرتے بہت دیر ہوچکی تھی۔ باہر گاڑی میں بیٹھے لوگوں نے بے صبری میں گاڑی کا ہارن بجانا شروع کردیا تھا۔ میں لوکس سے اجازت لے کر باہر آگیا۔ مگر میں ملائیشیا کی اس دعوت کے بارے میں سوچتا رہا۔ اپنے کپڑوں کے بارے میں لوکس کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ پچھلی کئی صدیوں سے دنیا میں جاری یورپی تسلط کی وجہ سے یورپ سے تعلق رکھنے والا کوئی اول جلول بھی یورپ سے باہر قابل عزت سمجھا جاتا ہے۔ لوکس سفید فام ہے اور انگریزی اس کی زبان ہے۔ شاید اپنی کسرنفسی میں وہ اس طاقت کو نہ تو پہچانتا ہے اور نہ ہی اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ 
انگریزی کی طاقت تو ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے پاکستان کا مولوی شلوار قمیض پہن کر قرآن کی تفسیر بیان کرتا تھا۔ آج اس شلوار قمیض والے مولوی کو کم لوگ گھانس ڈالتے ہیں۔ آج اس مولوی کا زور چلتا ہے جو سوٹ پہن کر انگریزی میں سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان کرسکے۔

गूँदुरवून्दी  
(ऑस्ट्रेलिया  का सफरनामा )


Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?