Thursday, March 17, 2016

 

گولڈ کوسٹ، بائرن بے





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو بہتر

مارچ تیرہ، دو ہزار سولہ

گولڈ کوسٹ، بائرن بے


ہم برسبین میں جس ہوٹل میں ٹہرے تھے وہاں کمرے کے کرائے میں ناشتہ شامل تھا۔ ناشتے میں ہماری ایک اور دلچسپی یہ تھی کہ ناشتے کے کمرے میں ہوٹل میں ٹہرنے والے دوسرے مہمان نظر آ جاتے تھے۔ برسبین میں تین دن کے قیام کے دوران اسی ناشتے کے کمرے میں ہمیں وہ رنگ والا ملا جو ہوٹل کی دیواریں رنگ کرنے کا کام کررہا تھا۔ وہ تقریبا اسی وقت ناشتہ کرنے آتا تھا جب ہم وہاں پہنچتے تھے۔ اس کی عمر غالبا ساٹھ کے لگ بھگ رہی ہوگی۔ اس کی رنگ کی چھینٹوں سے بھری ڈنگری دور سے اس کے پیشے کا اعلان کرتی تھی۔ وہ رنگ والا بہت باتونی تھا۔  اس نے ہمیں بتایا کہ وہ نیوزی لینڈ کا رہنے والا تھا۔ کئی دہائیوں پہلے وہ کام کے سلسلے میں آسٹریلیا آیا اور پھر یہیں کا ہورہا۔ اس کا ایک لڑکا امریکہ میں رہتا تھا جہاں وہ فوجی تھا۔
اس رنگ والے کی باتوں سے ایک دفعہ پھر اندازہ ہوا کہ دنیا بھر میں لوگ امریکہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے خوش ہوتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ امریکہ نیوزی لینڈ کے قریب سمندر میں ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کررہا تھا۔ اس پہ نیوزی لینڈ نے امریکہ کو دھمکی دی کہ اگر امریکہ نے وہ تجربات بند نہ کیے تو نیوزی لینڈ کرائسٹ چرچ سے ضدآرکٹک [اینٹ آرکٹکا] جانے والی کمک بند کردے گا۔ واضح رہے کہ کرائسٹ چرچ جنوبی قطب کے قریب سب سے بڑا شہر ہے اور اسی وجہ سے مختلف ملکوں کے جو تحقیقاتی اسٹیشن ضد آرکٹک پہ واقع ہیں ان کے لیے جانے والی کمک کرائسٹ چرچ ہی سے گزرتی ہے۔ رنگ والے کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ کی اس دھمکی کے بعد امریکہ اپنے ارادوں سے باز آیا۔
دیکھا کس طرح چھوٹے سے نیوزی لینڈ نے امریکہ جسی بڑی طاقت کو سیدھا کردیا؟
اس نے فخر سے کہا۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ موجودہ ملکہ برطانیہ کا باپ جارج ششم جب اسکول میں پڑھتا تھا تو دوسرے بچے اس کو خوب تنگ کرتے تھے اور اکثر جارج کی پٹائی بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک استاد نے ان شرارتی بچوں سے پوچھا کہ آخر وہ جارج کو اتنا تنگ کیوں کرتے ہیں۔ ایک بچے کا جواب تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ لڑکا شاہی خاندان سے ہے اور ایک دن بڑا ہوکر بادشاہ بنے گا۔ جب ایسا ہوا تو ہم یہ کہہ سکیں گے ہم بہت پہلے اسی بادشاہ کی خوب پٹائی کرتے تھے۔
وہیں ناشتے کے کمرے میں ہمیں ایک جوان جوڑا نظر آیا۔ لڑکی امریکی لہجے میں بول رہی تھی جب کہ نوجوان کا انگریزی لہجہ غالبا جنوبی افریقہ کا تھا۔ کیا وہ دونوں طویل فاصلے کے مسافر تھے جو کسی منزل پہ ایک دوسرے سے ملے اور اب ساتھ سفر کررہے تھے؟
جس دن ہمیں برسبین چھوڑ کر بائرن بے جانا تھا اس صبح ہم نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر ایک عجیب تماشہ دیکھا۔ ہمارے ہوٹل میں ایک جوڑا ٹہرا تھا جس کی ہوٹل کے باہر کھڑی لدی پھندی گاڑی ہمیں اپنے کمرے سے نظر آتی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ وہ عورت پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ اس کی کوئی خاص چیز گم ہوگئی تھی۔ آدمی خفت سے گاڑی کا سامان ادھر سے ادھر کررہا تھا۔ وہ غالبا گم ہوجانے والی چیز کو تلاش کررہا تھا، یا کم از کم اپنی ساتھی کو دکھانا چاہتا تھا کہ وہ پوری دیانتداری سے گم شدہ چیز کو تلاش کررہا تھا۔ اس جوڑے کے پاس بے انتہا سامان تھا۔ اس سامان میں ایک جنریٹر بھی شامل تھا۔ ان کی پوری تیاری معلوم دیتی تھی کہ اگر انہیں کسی بیاباں میں خیمہ بھی لگانا پڑے تو انہیں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔ ہم کھڑکی سے اس کاروائی کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ بہت تلاش کے باوجود اس سارے سامان میں وہ چیز نہ ملی جس کے گم ہونے پہ وہ عورت آزردہ تھی۔ مجھے خیال ہوا کہ کبھی میں بھی ایسا ہی تھا۔ اپنی چیزوں کو بہت سنبھال کر رکھتا تھا اور کبھی کوئی چیز گم ہوجائے تو اس گم شدگی کا بہت دیر تک غم مناتا تھا۔ مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ میں بدل گیا۔ مجھے گمشدہ چیز پہ انا للہ کہہ کر آگے بڑھنا آگیا۔ اپنی اوقات سمجھ میں آگئی کہ اس کھربوں سال پرانی کائنات میں جس میں مجھے آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں، میں کیا اور میری ملکیت کیا۔
برسبین سے نکل کر ہم بائرن بے کی طرف چلے تو خیال ہوا کہ گولڈ کوسٹ نامی معروف ساحلی قصبے سے ہوتے ہوئے چلیں۔ ہم ساحل کے ساتھ چلے جارہے تھے۔ اس شاہراہ پہ کچھ کچھ فاصلے پہ چھوٹے چھوٹے قصبے پڑتے تھے جن کی رونق چھٹیاں منانے والوں کے دم سے تھی۔ میامی نامی ایک قصبہ بھی اسی راستے میں پڑا۔ امریکی شہروں کے ناموں والے اورقصبے بھی نظر آئے۔ اسی راستے میں وقفے وقفے سے انڈین ریستوراں بھی نظر آرہے تھے۔ دنیا کے مستقبل کا نقشہ واضح تھا۔ ایسی جدید بستیاں جن میں بھانت بھانت کےلوگ رہ رہے ہوں گے اور جہاں چینی، ہندی، اور دیگر انواع و اقسام کے کھانے باآسانی ملیں گے۔
بائرن بے میں ہمارا قیام ڈسکوری ہالی ڈے پارک میں تھا۔ وسیع علاقے پہ پھیلا چھوٹے چھوٹے کیبنوں کا وہ پارک قصبے سے پہلے پڑتا تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو زورداربارش میں ڈسکور ہالی ڈے پارک میں داخلی راستے کو نہ پہچان پائے اور آگے قصبے تک چلے گئے۔ جی پی ایس نے ناراضگی ظاہر کی تو واپس پلٹے اور ونڈ شیلڈ پہ تیزی سے شڑاپ شڑاپ کرتے وائپر کے پار جھانکتے ہوئے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر پارک میں داخلے کی جگہ تلاش کرتے رہے۔ اب کی بار ہمیں وہ راستہ مل گیا۔


Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?