Thursday, March 31, 2016

 

سائوتھ ویسٹ راکس کا قید خانہ، پورٹ اسٹیفنس





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چوہتر

مارچ چھبیس، دو ہزار سولہ

سائوتھ ویسٹ راکس کا قید خانہ، پورٹ اسٹیفنس
 

سائوتھ ویسٹ راکس کا قید خانہ ایک اہم تاریخی مقام ہے۔ یہ قیدخانہ بالکل سمندر کے ساتھ ہے اور اس محل وقوع کی خاص اہمیت ہے۔ جب آسٹریلیا میں یورپی نووار رفتہ رفتہ بسنا شروع ہوئے تو ساری سرگرمی اس بڑے جزیرے کے ساحل پہ تھی۔ ایک اہم بستی برسبین تھی اور دوسرا اہم شہر سڈنی۔ انگریز بحری جہازوں سے ان دو بستیوں کے درمیان سفر کرتے تھے۔  جہاز سمندر سے ڈر کر خشکی کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ برسبین سے سڈنی جاتے ہوئے قریبا نصف راستے میں سائوتھ ویسٹ راکس پڑتا تھا اور بس یہی اس جگہ کی اہمیت تھی۔ برسبین سے سڈنی کا سفر لمبا تھا اس لیے نصف سفر طے کرنے کے بعد جہاز سائوتھ ویسٹ راکس میں ٹہر جاتے اور تازہ پانی اور دوسری کمک حاصل کرتے۔  مگر اس جگہ کو بندرگاہ بنانے کے لیے یہاں موج شکن [بریک واٹر] کی تعمیر ضروری تھی اور اس تعمیر کے لیے مزدور چاہیے تھے۔
مغربی ممالک کے تمام سیاحتی مقامات کی طرح سائوتھ ویسٹ راکس کے قیدخانے کے اندر اور باہر طرح طرح کے معلوماتی سائن لگے ہیں۔ مگر قید خانے کے باہر لگے سائن سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارویں صدی کے آخر میں سائوتھ ویسٹ راکس کا موج شکن بنانے کے لیے قیدیوں کو استعمال کیا گیا تھا مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ قیدی کہاں سے آئے تھے۔ شاید یہ بات بتانے میں آسٹریلیا کی شرم پوشیدہ ہو۔ یہ قیدی یقینا انگلستان سے لائے گئے ہوں گے اور موجودہ دور کے بہت سے آسٹریلوی ان ہی پرانے قیدیوں کی نسل سے ہیں۔ ہیں۔ وقت گزرا اور جہازرانی نے ترقی کی۔ جہاز سائوتھ ویسٹ راکس پہ کم رکنے لگے اور موج شکن پہ کام کی ضرورت بھی نہ رہی۔ قید خانہ ویران ہوگیا۔  مگر پھر چند سالوں بعد پہلی جنگ عظیم کے موقع پہ پتھروں کی یہ عمارت ایک دفعہ پھر کام آئی۔ امریکہ کی طرح آسٹریلیا میں بھی المانیہ سے نقل مکانی کر کے آئے ہوئے لوگ آباد تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، اور بالخصوص پرل ہاربر پہ جاپانی حملے کے بعد، امریکہ نے اپنے جاپانی شہریوں کو شک کی نظر سے دیکھا کہ امریکہ اور جاپان کی جنگ میں کہیں یہ جاپانی امریکی، دل میں جاپان کے لیے ہمدردی نہ رکھتے ہوں اور امریکہ کے اندر رہتے ہوئے کسی طرح جاپان کی معاونت نہ کریں۔ اس شک میں ان جاپانی امریکیوں کو خاص کیمپوں میں ڈالا گیا۔ ہم جنوبی ایشیا کے لوگ اس طرح کے قومی شک سے بخوبی واقف ہیں۔ سنہ سینتالیس میں مذہب کے نام پہ ہونے والی تقسیم کے بعد جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممالک میں جنگ اور کھیلوں کے مقابلوں کے دوران اقلیتی مذاہب کے لوگوں کو شک کی نیت سے دیکھا جاتا ہے۔
امریکہ اپنے جرمن باشندوں کے ساتھ یہ کام بڑے پیمانے پہ نہ کرپایا کیونکہ جرمن امریکی جاپانی امریکیوں کے مقابلے میں زیادہ بڑی تعداد میں تھے۔ آسٹریلیا میں معاملہ کچھ اور تھا۔ وہاں جاپانی تو نام کو نہ تھے مگر المانوی تھے اور تعداد میں بہت زیادہ نہ تھے۔ آسٹریلیا نے اپنے ان جرمن باشندوں کو شک کی نظر سے دیکھا۔ پہلی جنگ عظیم  کے دوران آسٹریلیا میں جن مختلف جگہوں پہ ان جرمن نژاد لوگوں کو قید میں رکھا گیا ان میں سے ایک سائوتھ ویسٹ راکس کا قید خانہ [ٹرائل بے گال] بھی تھا۔
برسبین سے سڈنی جاتے ہوئے ہمارا اگلا قیام پورٹ اسٹیفنس میں تھا۔ پورٹ اسٹیفنس دراصل بہت سے ساحلی قصبوں کا مجموعہ ہے جہاں سیاح ہفتوں گزار دیتے ہیں۔ اس جگہ کی اچھائی یہ ہے کہ یہاں تفریح کے لیے کئی دلکش ساحل سمندر تو ہیں ہی، ساتھ یہاں ایک نیشنل پارک بھی ہے۔ ہم توماری نیشنل پاک کی چوٹی سر کرنے کے لیے نکلے تو اس دوپہر سردیوں کا سورج اپنی تونائی کھو چکا تھا۔ چوٹی کا راستہ چوبی سیڑھیوں سے طے کیا جاسکتا تھا۔ ہم کچھ کچھ فاصلے پہ رک کر اپنی سانس درست کرتے رہے اور آدھے گھنٹے سے کچھ اوپر وقت میں چوٹی تک پہنچ گئے۔ اس بلند جگہ سے آپ دور دور تک نیلسن بے اور اطراف کا معائنہ کرسکتے تھے۔ ہم اس اونچائی سے سمندر میں دوڑتی کشتیوں کو دیکھ سکتے تھے جن کے ناخدا سیاحوں کو وہیل دکھانے کے لالچ میں کھلے سمندر میں لے گئے تھے۔
ہم چوٹی سے نیچے اترے تو اشاروں کی مدد سے نیشنل پارک میں اس جگہ پہنچے جہاں دوسری جنگ عظیم میں آسٹریلیا کے دفاع کے لیے توپیں نصب کی گئیں تھیں۔ وہ توپیں جاپانی جنگی بحری جہازوں کے انتظار میں رہیں مگر جاپان نے کبھی وہاں حملہ نہیں کیا اور سائوتھ ویسٹ راکس میں موجود توپچی گولہ باری کی زحمت سے بچ گئے۔

Labels: , , , ,


Thursday, March 24, 2016

 

بائرن بے سے سائوتھ ویسٹ راکس












ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو تہتر

مارچ انیس، دو ہزار سولہ

بائرن بے سے سائوتھ ویسٹ راکس


بائرن بے کا سب سے دیدنی مقام  اس ساحلی قصبے کا لائٹ ہائوس ہے۔ اب دنیا میں بحری جہازوں کو خشکی سے باخبر رکھنے کے لیے لائٹ ہائوس کی اتنی ضرورت نہیں رہی جتنی پرانے وقتوں میں تھی ورنہ کچھ عرصہ پہلے تک فعال لائٹ ہائوس جگہ جگہ نظر آتے تھے۔ یوں تو اکا دکا لائٹ ہائوس اس وقت بھی استعمال ہوتے تھے جب سمندر میں صرف بادبانی کشتیاں چلتی تھیں مگر اٹھاورویں صدی میں بھاپ کے انجن کی ایجاد کے بعد بحری سفر اور تجارت نے اچانک دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی۔ بادبان سے چلنے والے  جہاز بہت بڑے نہیں ہوسکتے تھے۔ مگر بھاپ انجن نے صورتحال یکسر تبدیل کردی۔ بھاپ انجن کے زور سے چلنے والے جہاز ناپ میں بہت بڑے ہوسکتے تھے، وزن میں زیادہ ہوسکتے تھے، اور رفتار میں تیز ہوسکتے تھے۔ ایسے جہازوں کو ساحل پہ موجود چٹانوں سے ٹکرانے سے روکنے کے لیے یورپی طاقتوں نے دنیا بھی میں اپنے اپنے زیر اثر علاقوں میں لائوٹ ہائوس کھڑے کیے۔

ہم بائرن بے کے لائٹ ہائوس کو دیکھنے کے لیے وہاں پہنچے تو بارش تیز ہوگئی۔ ہمارے پاس چھتری نہیں تھی۔ تھوڑی دیر گاڑی میں بیٹھ کر بارش رکنے کا انتظار کیا۔ کچھ دیر بعد بارش کے زور میں کمی آئی تو ہم لائوٹ ہائوس کی طرف چل دیے۔ بائرن بے کا ایک صدی سے اوپر پرانا لائٹ ہائوس اب تک فعال ہے۔ ہم اس لائٹ ہائوس کی چمک دمک سے بہت متاثر ہوئے۔ سفید رنگ کا ٹاور جس کے رنگ میں کہیں کوئی کمی نظر نہیں آتی تھی اور اطراف کا علاقہ بھی بہت صاف ستھرا تھا۔ لائٹ ہائوس کی ایسی اچھی دیکھ بھال کا تعلق یقینا لائٹ ہائوس کے اپنے اصل مقصد سے نہ تھا، بلکہ یہ سب کچھ وہاں آنے والے سیاحوں کو خوش کرنے کے لیے تھا۔

اگلی صبح ڈسکوری ہالی ڈے پارک میں آنکھ کچھ اس طرح کھلی کہ ایک خوش الحان پرندہ ہمارے کیبن کے باہر درخت کی ایک شاخ پہ آ کر بیٹھ گیا اور اپنی مادہ کو خوش کرنے کے لیے کچھ کچھ وقفے سے آواز نکالنے لگا۔ اس پرندے کو نہ جانے اپنی مادہ کی قربت حاصل ہوئی یا نہیں مگر وہ ہمیں بستر سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔ ہم اتنی صبح اٹھنے پہ بہت زیادہ خوش نہ تھے کیونکہ گزری رات سیاحوں کا ایک گروہ بہت دیر تک گپیں لگاتا رہا تھا اور ان کے بلند آواز ٹھٹھوں نے ہمیں دیر تک بیدار رکھا تھا۔

ہم برسبین سے جنوب کی طرف چلتے ہوئے سڈنی کی جانب گامزن تھے۔ اگلا پڑائو سائوتھ ویسٹ راکس میں تھا۔ ہم سائوتھ ویسٹ راکس کے راستے میں صرف کچھ دیر کے لیے کافس بے نامی قصبے میں رکے۔ اس جگہ کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں زمین میں موجود طویل دراڑ میں سمندر کا پانی موجود ہے؛ یہ کھاڑی کافس ہاربر کریک کہلاتی ہے۔ علاقے کی ڈھلان کریک کی طرف ہے اور اس علاقے میں برسنے والا بارش کا پانی اسی کریک میں گر کر سمندر میں جا ملتا ہے۔ یہ کھاڑی بہت زیادہ چوڑی نہیں ہے اس لیے اگر علاقے میں بارش زیادہ ہو تو سیلاب کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور پورا علاقہ زیر آب آجاتا ہے۔ کافس بے نے سیاحتی آمدنی حاصل کرنے کا یہ اہتمام کیا تھا کہ سیاح اس کھاڑی میں کشتی، کایاک، اور کنو چلا سکتے ہیں۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اس سے قطع نظر کہ آپ کے پاس موجود وسائل کی نوعیت کیا ہے، آپ اپنے وسائل کا بہترین استعمال کر کے اپنے لیے آمدنی کا انتظام کرسکتے ہیں۔

بائرن بے سے سائوتھ ویسٹ راکس کے راستے میں سب سے دلچسپ مشاہدہ زراعت سے متعلق تھا۔ اس راستے میں ہم نے گنے کے کھیت دیکھے۔ گنے کی کاشت کو ہم استوائی [ٹراپیکل] یا پیش استوائی [سب ٹراپیکل] خطوں کی آب و ہوا سے جوڑتے ہیں۔ ہم حیران تھے کہ خط استوا سے اتنے جنوب میں گنا اتنی کامیابی سے کیسے اگایا جارہا تھا؟ اس راستے سے گزرنے کے بعد ہم نے انٹرنیٹ پہ تحقیق کی تومعلوم ہوا کہ آسٹریلیا کے مشرقی ساحل کا بڑا حصہ پیش استوائی آب و ہوا رکھتا ہے اور اس پیش استوائی پٹی کا جنوب ترین مقام گرافٹن نامی قصبہ ہے جو بائرن بے سے سائوتھ ویسٹ راکس جاتے ہوئے راستے میں پڑا تھا۔ اس پٹی میں ہر وہ فصل ممکن ہے جو پیش استوائی علاقوں میں اگائی جاتی ہے۔

ہم سائوتھ ویسٹ راکس پہنچے تو شام ہونے پہ اس چھوٹے سے قصبے کی تجارتی سرگرمیاں ختم ہوچکی تھی۔ مرکز کی زیادہ تر دکانیں بند تھیں۔ کچھ کچھ فاصلے پہ موجود ریستوراں اور شراب خانوں میں گاہک نظر آتے تھے مگر ایسی گہما گہمی نہیں تھی جیسی امریکہ کے سیاحتی قصبوں میں نظر آتی ہے۔



Labels: , , ,


Thursday, March 17, 2016

 

گولڈ کوسٹ، بائرن بے





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو بہتر

مارچ تیرہ، دو ہزار سولہ

گولڈ کوسٹ، بائرن بے


ہم برسبین میں جس ہوٹل میں ٹہرے تھے وہاں کمرے کے کرائے میں ناشتہ شامل تھا۔ ناشتے میں ہماری ایک اور دلچسپی یہ تھی کہ ناشتے کے کمرے میں ہوٹل میں ٹہرنے والے دوسرے مہمان نظر آ جاتے تھے۔ برسبین میں تین دن کے قیام کے دوران اسی ناشتے کے کمرے میں ہمیں وہ رنگ والا ملا جو ہوٹل کی دیواریں رنگ کرنے کا کام کررہا تھا۔ وہ تقریبا اسی وقت ناشتہ کرنے آتا تھا جب ہم وہاں پہنچتے تھے۔ اس کی عمر غالبا ساٹھ کے لگ بھگ رہی ہوگی۔ اس کی رنگ کی چھینٹوں سے بھری ڈنگری دور سے اس کے پیشے کا اعلان کرتی تھی۔ وہ رنگ والا بہت باتونی تھا۔  اس نے ہمیں بتایا کہ وہ نیوزی لینڈ کا رہنے والا تھا۔ کئی دہائیوں پہلے وہ کام کے سلسلے میں آسٹریلیا آیا اور پھر یہیں کا ہورہا۔ اس کا ایک لڑکا امریکہ میں رہتا تھا جہاں وہ فوجی تھا۔
اس رنگ والے کی باتوں سے ایک دفعہ پھر اندازہ ہوا کہ دنیا بھر میں لوگ امریکہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے خوش ہوتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ امریکہ نیوزی لینڈ کے قریب سمندر میں ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کررہا تھا۔ اس پہ نیوزی لینڈ نے امریکہ کو دھمکی دی کہ اگر امریکہ نے وہ تجربات بند نہ کیے تو نیوزی لینڈ کرائسٹ چرچ سے ضدآرکٹک [اینٹ آرکٹکا] جانے والی کمک بند کردے گا۔ واضح رہے کہ کرائسٹ چرچ جنوبی قطب کے قریب سب سے بڑا شہر ہے اور اسی وجہ سے مختلف ملکوں کے جو تحقیقاتی اسٹیشن ضد آرکٹک پہ واقع ہیں ان کے لیے جانے والی کمک کرائسٹ چرچ ہی سے گزرتی ہے۔ رنگ والے کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ کی اس دھمکی کے بعد امریکہ اپنے ارادوں سے باز آیا۔
دیکھا کس طرح چھوٹے سے نیوزی لینڈ نے امریکہ جسی بڑی طاقت کو سیدھا کردیا؟
اس نے فخر سے کہا۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ موجودہ ملکہ برطانیہ کا باپ جارج ششم جب اسکول میں پڑھتا تھا تو دوسرے بچے اس کو خوب تنگ کرتے تھے اور اکثر جارج کی پٹائی بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک استاد نے ان شرارتی بچوں سے پوچھا کہ آخر وہ جارج کو اتنا تنگ کیوں کرتے ہیں۔ ایک بچے کا جواب تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ لڑکا شاہی خاندان سے ہے اور ایک دن بڑا ہوکر بادشاہ بنے گا۔ جب ایسا ہوا تو ہم یہ کہہ سکیں گے ہم بہت پہلے اسی بادشاہ کی خوب پٹائی کرتے تھے۔
وہیں ناشتے کے کمرے میں ہمیں ایک جوان جوڑا نظر آیا۔ لڑکی امریکی لہجے میں بول رہی تھی جب کہ نوجوان کا انگریزی لہجہ غالبا جنوبی افریقہ کا تھا۔ کیا وہ دونوں طویل فاصلے کے مسافر تھے جو کسی منزل پہ ایک دوسرے سے ملے اور اب ساتھ سفر کررہے تھے؟
جس دن ہمیں برسبین چھوڑ کر بائرن بے جانا تھا اس صبح ہم نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر ایک عجیب تماشہ دیکھا۔ ہمارے ہوٹل میں ایک جوڑا ٹہرا تھا جس کی ہوٹل کے باہر کھڑی لدی پھندی گاڑی ہمیں اپنے کمرے سے نظر آتی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ وہ عورت پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ اس کی کوئی خاص چیز گم ہوگئی تھی۔ آدمی خفت سے گاڑی کا سامان ادھر سے ادھر کررہا تھا۔ وہ غالبا گم ہوجانے والی چیز کو تلاش کررہا تھا، یا کم از کم اپنی ساتھی کو دکھانا چاہتا تھا کہ وہ پوری دیانتداری سے گم شدہ چیز کو تلاش کررہا تھا۔ اس جوڑے کے پاس بے انتہا سامان تھا۔ اس سامان میں ایک جنریٹر بھی شامل تھا۔ ان کی پوری تیاری معلوم دیتی تھی کہ اگر انہیں کسی بیاباں میں خیمہ بھی لگانا پڑے تو انہیں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔ ہم کھڑکی سے اس کاروائی کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ بہت تلاش کے باوجود اس سارے سامان میں وہ چیز نہ ملی جس کے گم ہونے پہ وہ عورت آزردہ تھی۔ مجھے خیال ہوا کہ کبھی میں بھی ایسا ہی تھا۔ اپنی چیزوں کو بہت سنبھال کر رکھتا تھا اور کبھی کوئی چیز گم ہوجائے تو اس گم شدگی کا بہت دیر تک غم مناتا تھا۔ مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ میں بدل گیا۔ مجھے گمشدہ چیز پہ انا للہ کہہ کر آگے بڑھنا آگیا۔ اپنی اوقات سمجھ میں آگئی کہ اس کھربوں سال پرانی کائنات میں جس میں مجھے آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں، میں کیا اور میری ملکیت کیا۔
برسبین سے نکل کر ہم بائرن بے کی طرف چلے تو خیال ہوا کہ گولڈ کوسٹ نامی معروف ساحلی قصبے سے ہوتے ہوئے چلیں۔ ہم ساحل کے ساتھ چلے جارہے تھے۔ اس شاہراہ پہ کچھ کچھ فاصلے پہ چھوٹے چھوٹے قصبے پڑتے تھے جن کی رونق چھٹیاں منانے والوں کے دم سے تھی۔ میامی نامی ایک قصبہ بھی اسی راستے میں پڑا۔ امریکی شہروں کے ناموں والے اورقصبے بھی نظر آئے۔ اسی راستے میں وقفے وقفے سے انڈین ریستوراں بھی نظر آرہے تھے۔ دنیا کے مستقبل کا نقشہ واضح تھا۔ ایسی جدید بستیاں جن میں بھانت بھانت کےلوگ رہ رہے ہوں گے اور جہاں چینی، ہندی، اور دیگر انواع و اقسام کے کھانے باآسانی ملیں گے۔
بائرن بے میں ہمارا قیام ڈسکوری ہالی ڈے پارک میں تھا۔ وسیع علاقے پہ پھیلا چھوٹے چھوٹے کیبنوں کا وہ پارک قصبے سے پہلے پڑتا تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو زورداربارش میں ڈسکور ہالی ڈے پارک میں داخلی راستے کو نہ پہچان پائے اور آگے قصبے تک چلے گئے۔ جی پی ایس نے ناراضگی ظاہر کی تو واپس پلٹے اور ونڈ شیلڈ پہ تیزی سے شڑاپ شڑاپ کرتے وائپر کے پار جھانکتے ہوئے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر پارک میں داخلے کی جگہ تلاش کرتے رہے۔ اب کی بار ہمیں وہ راستہ مل گیا۔


Labels: , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?