Thursday, March 24, 2016
بائرن بے سے سائوتھ ویسٹ راکس
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو تہتر
مارچ
انیس، دو ہزار سولہ
بائرن بے سے
سائوتھ ویسٹ راکس
بائرن بے کا سب
سے دیدنی مقام اس ساحلی قصبے کا لائٹ
ہائوس ہے۔ اب دنیا میں بحری جہازوں کو خشکی سے باخبر رکھنے کے لیے لائٹ ہائوس کی
اتنی ضرورت نہیں رہی جتنی پرانے وقتوں میں تھی ورنہ کچھ عرصہ پہلے تک فعال لائٹ
ہائوس جگہ جگہ نظر آتے تھے۔ یوں تو اکا دکا لائٹ ہائوس اس وقت بھی استعمال ہوتے
تھے جب سمندر میں صرف بادبانی کشتیاں چلتی تھیں مگر اٹھاورویں صدی میں بھاپ کے
انجن کی ایجاد کے بعد بحری سفر اور تجارت نے اچانک دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی۔
بادبان سے چلنے والے جہاز بہت بڑے نہیں
ہوسکتے تھے۔ مگر بھاپ انجن نے صورتحال یکسر تبدیل کردی۔ بھاپ انجن کے زور سے چلنے
والے جہاز ناپ میں بہت بڑے ہوسکتے تھے، وزن میں زیادہ ہوسکتے تھے، اور رفتار میں
تیز ہوسکتے تھے۔ ایسے جہازوں کو ساحل پہ موجود چٹانوں سے ٹکرانے سے روکنے کے لیے
یورپی طاقتوں نے دنیا بھی میں اپنے اپنے زیر اثر علاقوں میں لائوٹ ہائوس کھڑے کیے۔
ہم بائرن بے کے
لائٹ ہائوس کو دیکھنے کے لیے وہاں پہنچے تو بارش تیز ہوگئی۔ ہمارے پاس چھتری نہیں
تھی۔ تھوڑی دیر گاڑی میں بیٹھ کر بارش رکنے کا انتظار کیا۔ کچھ دیر بعد بارش کے
زور میں کمی آئی تو ہم لائوٹ ہائوس کی طرف چل دیے۔ بائرن بے کا ایک صدی سے اوپر
پرانا لائٹ ہائوس اب تک فعال ہے۔ ہم اس لائٹ ہائوس کی چمک دمک سے بہت متاثر ہوئے۔
سفید رنگ کا ٹاور جس کے رنگ میں کہیں کوئی کمی نظر نہیں آتی تھی اور اطراف کا
علاقہ بھی بہت صاف ستھرا تھا۔ لائٹ ہائوس کی ایسی اچھی دیکھ بھال کا تعلق یقینا
لائٹ ہائوس کے اپنے اصل مقصد سے نہ تھا، بلکہ یہ سب کچھ وہاں آنے والے سیاحوں کو
خوش کرنے کے لیے تھا۔
اگلی صبح ڈسکوری
ہالی ڈے پارک میں آنکھ کچھ اس طرح کھلی کہ ایک خوش الحان پرندہ ہمارے کیبن کے
باہر درخت کی ایک شاخ پہ آ کر بیٹھ گیا اور اپنی مادہ کو خوش کرنے کے لیے کچھ کچھ
وقفے سے آواز نکالنے لگا۔ اس پرندے کو نہ جانے اپنی مادہ کی قربت حاصل ہوئی یا
نہیں مگر وہ ہمیں بستر سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔ ہم اتنی صبح اٹھنے پہ بہت
زیادہ خوش نہ تھے کیونکہ گزری رات سیاحوں کا ایک گروہ بہت دیر تک گپیں لگاتا رہا
تھا اور ان کے بلند آواز ٹھٹھوں نے ہمیں دیر تک بیدار رکھا تھا۔
ہم برسبین سے
جنوب کی طرف چلتے ہوئے سڈنی کی جانب گامزن تھے۔ اگلا پڑائو سائوتھ ویسٹ راکس میں
تھا۔ ہم سائوتھ ویسٹ راکس کے راستے میں صرف کچھ دیر کے لیے کافس بے نامی قصبے میں
رکے۔ اس جگہ کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں زمین میں موجود طویل دراڑ میں سمندر کا پانی
موجود ہے؛ یہ کھاڑی کافس ہاربر کریک کہلاتی ہے۔ علاقے کی ڈھلان کریک کی طرف ہے اور
اس علاقے میں برسنے والا بارش کا پانی اسی کریک میں گر کر سمندر میں جا ملتا ہے۔
یہ کھاڑی بہت زیادہ چوڑی نہیں ہے اس لیے اگر علاقے میں بارش زیادہ ہو تو سیلاب کی
کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور پورا علاقہ زیر آب آجاتا ہے۔ کافس بے نے سیاحتی آمدنی
حاصل کرنے کا یہ اہتمام کیا تھا کہ سیاح اس کھاڑی میں کشتی، کایاک، اور کنو چلا
سکتے ہیں۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اس سے قطع نظر کہ آپ کے پاس موجود وسائل کی
نوعیت کیا ہے، آپ اپنے وسائل کا بہترین استعمال کر کے اپنے لیے آمدنی کا انتظام
کرسکتے ہیں۔
بائرن بے سے
سائوتھ ویسٹ راکس کے راستے میں سب سے دلچسپ مشاہدہ زراعت سے متعلق تھا۔ اس راستے
میں ہم نے گنے کے کھیت دیکھے۔ گنے کی کاشت کو ہم استوائی [ٹراپیکل] یا پیش استوائی
[سب ٹراپیکل] خطوں کی آب و ہوا سے جوڑتے ہیں۔ ہم حیران تھے کہ خط استوا سے اتنے
جنوب میں گنا اتنی کامیابی سے کیسے اگایا جارہا تھا؟ اس راستے سے گزرنے کے بعد ہم
نے انٹرنیٹ پہ تحقیق کی تومعلوم ہوا کہ آسٹریلیا کے مشرقی ساحل کا بڑا حصہ پیش
استوائی آب و ہوا رکھتا ہے اور اس پیش استوائی پٹی کا جنوب ترین مقام گرافٹن نامی
قصبہ ہے جو بائرن بے سے سائوتھ ویسٹ راکس جاتے ہوئے راستے میں پڑا تھا۔ اس پٹی میں
ہر وہ فصل ممکن ہے جو پیش استوائی علاقوں میں اگائی جاتی ہے۔
ہم سائوتھ ویسٹ
راکس پہنچے تو شام ہونے پہ اس چھوٹے سے قصبے کی تجارتی سرگرمیاں ختم ہوچکی تھی۔
مرکز کی زیادہ تر دکانیں بند تھیں۔ کچھ کچھ فاصلے پہ موجود ریستوراں اور شراب
خانوں میں گاہک نظر آتے تھے مگر ایسی گہما گہمی نہیں تھی جیسی امریکہ کے سیاحتی
قصبوں میں نظر آتی ہے۔
Labels: Australia travelogue, Byron Bay, South West Rocks, Urdu Safarnama