Thursday, February 25, 2016
بورک سے لائٹننگ رج
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو انہتر
فروری
بیس، دو ہزار سولہ
بورک سے
لائٹننگ رج
ہم برسبین جارہے
تھے اور راستے میں لاءٹننگ رج نامی قصبہ پڑتا تھا۔ اتنے دلچسپ نام والے قصبے میں
قیام کیوں نہ کیا جاءے؟
لوگ کسی جگہ کیوں
رہتے ہیں اور پھر ان کی اگلی نسل وہاں رہنے کا فیصلہ کرتی ہے یا نہیں، اس کا
دارومدار بہت سے عوامل پہ ہوتا ہے۔ ان عوامل میں سب سے اول شمار موقع معاش ہے۔ اگر
کسی جگہ لوگوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہوں تو پھر لوگ نسل در نسل وہیں رہتے ہیں۔
آسٹریلیا کے دوسرے
قصبوں کی طرح لاءٹننگ رج بھی کوءی بہت پرانی بستی نہیں ہے۔ دراصل شکاری بٹوریے
[ہنٹر گیدرر] بستیاں نہیں بساتے۔ آسٹریلیا کے قدیم باشندے ایب اورجنی جس طرح کی
زندگی گزارتے تھے اس میں ایک جگہ ٹہرنا ممکن نہ تھا۔ انسان نے بستیاں اس وقت بسانا
شروع کیں جب اس نے زراعت ایجاد کی۔ آسٹریلیا کی دوسری بستیوں کی طرح لاٹننگ رج کو
بھی یورپی نواواردوں نے بسایا تھا۔ لاءٹننگ رج قیمتی پتھروں کی کان کنی کے لیے
مشہور ہے۔ لاءٹننگ رج میں آج تک عالمی شہرت یافتہ کالے اوپل کی کان کنی ہوتی ہے
مگر وہاں آنے والے سیاحوں کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ لاءٹننگ رج میں شاید اتنے کان
کن نہیں ہوں گے جتنے وہاں سیاح تھے۔
ہم بورک سے
لاءٹننگ رج پہنچے تو ہوٹل کے کمرے میں کچھ دیر آرام کرنے کے بعد باہر نکلے۔
لاءٹننگ رج نے سیاحوں سے پیسے بنانے کا بھرپور انتظام کیا تھا۔ ہوٹل کے استقبالیے
پہ ہمیں لاءٹننگ رج کا نقشہ دیا گیا تھا اور بتایا گیا کہ ہم اس قصبے میں کون کون
سے ٹور کر سکتے تھے۔ وہ سارے ٹور کانوں سے متعلق تھے۔ شام ہوچلی تھی، اس کے باوجود
ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ سیاحوں کو جن مختلف راستوں پہ روانہ کیا جارہا تھا وہ کہاں
تھے۔ ہم نے نقشے پہ موجود قابل دید راستوں میں سے ایک کا انتخاب کیا اور اس طرف چل پڑے۔ اس راستے کے داخلے پہ پہنچے تو ایک
کچی پگڈنڈی کانوں کی طرف جاتی نظر آءی۔ بات واضح تھی۔ آپ ٹکٹ خریدیں، اس راستے پہ چلتے جاءیں اور
وہاں لگے ساءن کی مدد سے اس علاقے میں کان کنی کی تاریخ کے بارے میں پڑھتے جاءیں۔
ہم مرکز شہر واپسی کے لیے پلٹے تو سورج غروب ہوچکا تھا۔ لاءٹننگ رج جنوبی ساحل سے
اس قدر فاصلے پہ تھا کہ وہاں فضاءی آلودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ لاءٹننگ رج کا
آسمان ستاروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ایسا نظارہ بہت عرصے بعد دیکھا تھا۔ ہم نے
گاڑی سڑک سے اتار کر کچے میں کھڑی کی اور آسمان کو تکنے لگے۔ پہلا خیال تو یہ آیا
کہ یہ وہی ستارے تھے جن کو ہزاروں سال سے ہمارے آبا و اجداد دیکھتے آرہے تھے۔ مگر
پھر فورا ہی اپنی تصیح کی۔ کم از کم پچھلی چار نسلوں سے تو ہمارا خاندان جنوبی
ایشیا ہی میں رہ رہا ہے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں اپنے خاندان کا پہلا شخص
تھا جو خط استوا پار کر کے جنوبی کرے میں پہنچا تھا۔ تو پھر ہمارے جد جنوبی کرے کے
ان ستاروں کا کیسے مشاہدہ کرسکتے تھے؟
شمالی کرے میں
شمال کا تعین کرنے کے لیے قطبی ستارہ موجود ہے اور خود قطبی ستارے کی شناخت دب
اکبر کی مدد سے کی جاتی ہے۔ شمالی آسمان میں ستاروں کا ایک مجموعہ ایک بڑے ڈونگے
کی شکل میں نظر آءے تو ڈونگے کے آخری سرے سے آسمان میں ایک فرضی لکیر کھینچیں۔ یہ
لکیر جس روشن ستارے سے ٹکراءے بس وہی قطبی ستارہ ہے جو شمال کی سمت ظاہر کررہا ہے۔
جنوبی کرے میں ایسا کوءی ستارہ نہیں ہے جو جنوب کی سمت بتاءے مگر جنوبی صلیب نامی
ستاروں کے مجموعے کی مدد پھر بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ لاءٹننگ رج کے لدے پھندے
آسمان میں اتنے سارے ستاروں کی موجودگی میں جنوبی صلیب نامی مجموعے کی شناخت مشکل
تھی مگر تھوڑی سی کوشش سے ہم اس صلیب کو شناخت کرنے میں کامیاب ہوگءے۔
ہم اس وقت
آسٹریلیا کے ایسے علاقے میں تھے جہاں خان سوپا آءی جی اے نامی اسٹور تواتر سے مل
رہے تھے۔ یہ اسٹور اشیاءے خوردونوش فروخت کرتے تھے۔ لاءٹننگ رج میں ہم نے ایسے ہی
ایک اسٹور سے خریداری کی۔ کیش رجسٹر پہ ایک دیسی خاتون نے ہمارا حساب کتاب کیا۔ ان
کے بلے پہ ان کا نام روبینہ بتایا گیا تھا۔ ہم فورا ان سے اردو میں بات کرنے لگے۔
روبینہ نے بتایا کہ خان سوپا کے مالکین ایک عرصے سے آسٹریلیا میں رہ رہے تھے۔ شاید
یہ لوگ جنوبی ایشیا سے لاءے جانے والے اونٹوں کے ساتھ وہاں آءے تھے۔
ہمیں جلد ہی
اندازہ ہوگیا کہ لاءٹننگ رج میں دیسی کافی تعداد میں تھے۔ اگلے روز ایک پیٹرول پمپ
سے تیل لیا تو وہاں بھی ایک دیسی مرد اور عورت کو موجود پایا۔ ان سے بات چیت شروع
ہوگءی۔ انہیں پنجاب سے آسٹریلیا پہنچے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ آدمی کا ایک بھاءی
برسبین میں ریستوراں چلا رہا تھا۔ ہم نے ایک دن پہلے ملنے والی روبینہ کے بارے میں
انہیں بتایا تو معلوم ہوا کہ وہ روبینہ کو جانتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ روبینہ
لاہور کی رہنے والی عیساءی تھی اور اس کا شوہر ایک آسٹریلوی سفید فام آدمی تھا۔ ہم
ان دونوں سے رخصت لینے کے بعد سوچتے رہے کہ اس اضافی معلومات کی کیا ضرورت تھی کہ
روبینہ کا مذہب کیا تھا اور اس نے کس نسل کے آدمی سے شادی کی تھی۔ لوگوں کی باتیں
دراصل ان کا ذہنی قارورہ ہوتی ہیں۔ اس قارورے کی مدد سے آپ جان سکتے ہیں کہ ان کی
نظروں میں کس چیز کی اہمیت ہے اوران کے ذہن میں کیا کھچڑی پک رہی ہے۔
Labels: Black Opel, Bourke to Lightning Ridge, Khan Supa IGA, Mining Town, Pakistanis in Australia