Thursday, February 18, 2016

 

بورک








۔
ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اڑسٹھ

فروری تیرہ، دو ہزار سولہ

بورک


بورک زاویہ قائمہ سڑکوں کا ایسا چھوٹا سا قصبہ تھا جہاں کہیں کہیں دو منزلہ عمارتیں بھی نظر آجاتی تھیں۔ ہم میجر مچل ہوٹل میں سامان دھرنے کے بعد قصبے سے دوستی کرنے نکلے تو اندازہ ہوا کہ سورج کی روشنی ختم ہوتے ہی قصبے کی زندگی پہ بھی اوس پڑ چکی تھی۔ ایڈی لیڈ چھوڑنے کے کئی دن بعد اب ہم آسٹریلیا کے گہرے آئوٹ بیک میں پہنچ گئے تھے اور دو ہزار پندرہ کا آئوٹ بیک نسلی گروہوں کی چپقلش میں سنہ بانوے کے جنوبی افریقہ سے بہت مختلف نظر نہیں آتا تھا۔
ہم جس ہوٹل میں ٹہرے تھے اس کے باہر سڑک پہ کئی ٹرک کھڑے تھے۔ بورک وہ چھوٹا سا قصبہ تھا جس کا کام ٹرک ڈرائیوروں کو شب بسری کی جگہ فراہم کرنا تھا۔ وہ اتنی چھوٹی سی جگہ تھی کہ ہمیں خیال ہوا کہ اگر ہم دو دن سے زیادہ وہاں ٹہرتے تو قصبے کے زیادہ تر لوگوں کو ان کے ناموں سے جاننا شروع ہوجاتے۔
ہم ٹہلتے ہوئے اسپار بورک نامی سپرمارکیٹ پہنچے جو قصبے کے دوسرے کنارے پہ تھی۔ وہ سپرمارکیٹ بند ہی ہوا چاہتی تھی۔ ہم نے وہاں سے جلدی جلدی اشیائے خوردونوش کی خریداری کی۔
بورک میں تیس فی صد سے زائد ایب اورجنی رہتے ہیں۔ کسی زمانے میں وہاں جنوبی ایشیا سے آنے والے شتربان بھی رہتے تھے مگر اب  قریبا ایک صدی گزرنے کے بعد یا تو یہ لوگ وہاں سے چلے گئے تھے یا دوسرے لوگوں کے ساتھ گھل مل کر اپنی شناخت کھو بیٹھے تھے۔
 بورک میں دو نسلی گروہوں کے درمیان جو تنازعہ  موجود ہے وہ وضاحت سے اسپارک بورک کے دروازے پہ نظر آیا۔  دکان کا سفید فام مالک احاطے کا آہنی دروازہ بند کرنے کی کوشش کررہا تھا اور بارہ سے سولہ سال کے ایب اورجنی اور مخلوط لڑکوں کا ایک گروہ ہنستے ہوئے دکان کے مالک کی کوشش کو ناکام بنانے کی کوشش کررہا تھا۔ مالک ایک طرف کا پھاٹک بند کرنے کے بعد دوسرے پٹ کی طرف بڑھا تو ان لڑکوں نے ہنستے ہوئے پہلا پھاٹک واپس کھول دیا۔ مجھے اس ادھیڑ عمر شخص پہ ترس آیا۔ میں نے آگے بڑھ کر پہلا پھاٹک بند کرتے ہوئے اسے دکان کے مالک کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے تھینکس میٹ کہہ کر میرا شکریہ ادا کیا۔
بورک کی سب سے فیشن ایبل جگہ ایک بائولنگ ایلی تھی جوقصبے کے وسط میں بڑے رقبے پہ احاطہ کیے تھی۔ بائولنگ ایلی کے اطراف گھاس کے وسیع قطعات تھے۔ شام کے وقت قصبے کے معززین صاف ستھرے لباس میں اس بائولنگ ایلی کی طرف جاتے نظر آتے تھے۔ اسی عمارت میں قصبے کا واحد چینی ریستوران تھا جس کا نام جاندرا تھا۔ ہم نے بھی جاندرا سے کھانا لیا اور مشاہدہ کیا کہ اس ریستوراں سے لوگ مستقل کھانے بندھوا کر لے جارہے تھے۔ ریستوران کے استقبالیے پہ موجود ایک مرد اور عورت آپس میں چینی زبان میں بات کرتے اور پھر گاہکوں سے رواں آسٹریلوی لہجے میں انگریزی بولتے۔
ہمارا بورک میں دو دن ٹہرنے کا مقصد گونڈابوکا نیشنل پارک کی سیر کرنا تھا۔ وسیع علاقے پہ پھیلے گونڈابوکا نیشنل پارک میں داخلے کا ایک راستہ بورک سے کچھ ہی فاصلے پہ تھا۔


بورک پہنچنے کے اگلے روز ہمارا دن دیر سے شروع ہوا اور گونڈابوکا  پہنچتے پہنچتے دوپہر ہوگئی۔  پارک میں داخلے سے کچھ آگے یاپا چٹان نامی مقام تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں ایک چٹان پہ مقامی لوگوں کے بنائے گئے خاکے دیکھے جا سکتے تھے۔ وہ بغلی سڑک جو یاپا چٹان تک جاتی تھی گاڑیوں کے لیے بند تھی۔ ہمارا خیال ہوا کہ ہم وہاں گاڑی چھوڑ کر پیدل جاسکتے تھے۔ ہم یاپا چٹان کی طرف چلنا شروع ہوگئے۔ ہم بہت آگے تک چلے گئے اور اگر اسی طرح چلتے رہتے تو غالبا آدھے پون گھنٹے میں چٹان تک پہنچ جاتے مگر گھڑی دیکھی تو سورج ڈوبنے میں ایک گھنٹے سے کچھ ہی اوپر رہ گیا تھا۔ اگر ہم چٹان تک جاتے تو واپس گاڑی تک جاتے گھپ اندھیرا ہوچکا ہوتا۔ یوں تو اس پارک میں محض کینگرو تھے اور کوئی ایسا جانور نہ تھا جس سے ہمیں خطرہ ہوسکتا مگر ہم نے گھپ اندھیرے میں پارک کے اندر کچے راستے پہ چلنا مناسب خیال نہ کیا اور واپس پلٹ گئے۔ گاڑی تک پہنچتے پہنچتے سورج ڈھل چکا تھا۔ یاپا چٹان کی طرف جاتے ہمیں اکا دکا کینگرو نظر آئے تھے مگر اب جوں جوں سورج ڈھل رہا تھا نظر آنے والے کینگرو کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ ہم گاڑی کے قریب کھڑے ہو کر سورج غروب ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ خیال تھا کہ اندھیرا ہونے پہ پارک سے نکلیں گے تو ہمیں اس جگہ سے بڑی سڑک تک بہت سے کینگرو کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا۔
پھر یوں ہوا کہ ایک کے بعد ایک پارک رینجرز پارک کے اندر آتے نظر آئے۔ ان رینجرز کی ایک گاڑی دھول اڑاتی ہمارے قریب سے گزر گئی۔ مگر اس گاڑی کو دیکھ کر نہ جانے کیوں یہ خیال ہوا کہ یہ پلٹ کر آئے گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ وہ گاڑی پلٹ کر آئی اور رینجرز نے گاڑی ہماری گاڑی کے برابر میں لا کر کھڑی کردی۔ خاکی وردی میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر کا اہلکار گاڑی سے اترا۔ اس نے ہماری خیریت پوچھی۔ اصل مقصد یہ پوچھنا تھا کہ ہم وہاں بند سڑک کے سامنے کیا کر رہے تھے۔ ہم نے اسے بتایا کہ ہم اندھیرا ہونے پہ پلٹ کر بورک جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ وہ مطمئن ہو کر وہاں سے روانہ ہوگیا۔ کچھ ہی دیر میں رینجرز کی ایک اور گاڑی پوری رفتار میں دھول اڑاتی وہاں سے گزری۔ اس گاڑی کے متعلق بھی یہ خیال ہوا کہ وہاں سے تیزی سے گزرتے ہوئے ڈرائیور کی اچٹتی نظر ہم پہ پڑی تھی اور وہ تجسس کا مارا ضرور واپس پلٹ کر آئے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اس شخص کو بھی مطمئن کر کے وہاں سے روانہ کرنے کے بعد ہم سوچتے رہے کہ یہ پارک رینجرز دن بھر پارک سے باہر کیا کررہے تھے کہ اب اندھیرا ہونے پہ واپس پارک کی طرف پلٹ رہے تھے۔
کچھ ہی دیر میں مکمل اندھیرا ہوگیا۔ کالے آسمان پہ تارے ابھر آئے۔ اندھیرا ہوتے ہی سردی بھی بڑھ گئی تھی۔ ہم نے گاڑی اسٹارٹ کی اور واپسی کے لیے نکل پڑے۔ اور واقعی پارک سے بورک تک کے راستے میں ہمیں چھوٹے بڑے بہت سے کینگرو نظر آئے۔ ایک جگہ کینگرو کا ایک تعزیتی گروہ بھی نظر آیا جو کسی گاڑی کی ٹکر سے جاں بحق ہونے والے ایک کینگرو کے اطراف جمع تھا۔



Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?