Thursday, February 11, 2016

 

بروکن ہل سے بورک









۔
ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو سرسٹھ

فروری چھ، دو ہزار سولہ

بروکن ہل سے بورک


بروکن ہل میں ہم جس ہوٹل میں ٹہرے تھے اس کی مالکہ بہت باتونی تھی۔ صبح کمرے کی چابی دیتے ہوئے اس کا حال احوال پوچھا تو اس نے اس روز کا بروکن ہل کا سب سے اہم واقعہ سنا دیا۔ اسے گزری شام ایک کتا ملا تھا۔ یہ اس کتے کو اپنے گھر لے گئی تھی۔ آج صبح اس کتے کا مالک اسے لے گیا۔
تمھیں پتہ ہے اس کتے کا کیا نام تھا، ہوٹل کی مالکہ نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو وہ پھر بولنا شروع ہوگئی۔ دراصل اس سوال کا مقصد اس گمشدہ کتے کی کہانی میری دلچسپی معلوم کرنا تھا۔ وہ بولتی رہی اور میں سوچتا رہا کہ اس سوال کے جواب میں اگر میں کہتا کہ، میری بلا سے کتے کا کچھ بھی نام ہو، تو کیا ہوٹل کی مالکہ کی کہانی وہیں رک جاتی؟
کتے کا نام فلیچر تھا۔ دراصل برسبین سے ایک جوڑا گھومنے پھرنے یہاں بروکن ہل آیا تھا۔ اس سیاح جوڑے کے دو کتے تھے۔ وہ ایک جگہ تصویر کھینچنے کے لیے اترے تو دو کتوں میں سے ایک آنکھ بچا کر گاڑی سے اتر گیا۔ کچھ دیر بعد ان لوگوں نے گھوم کر گاڑی کی طرف دیکھا تو انہوں نے ایک کتے کو بدستور وہاں موجود پایا۔ ان کا خیال ہوا کہ دوسرا کتا بھی وہیں ہوگا۔  مگر جب کچھ دیر بعد وہ واپس گاڑی تک آئے تو انہوں نے ایک کتے کو غائب پایا۔ وہ بہت پریشان ہوئے۔ انہوں نے فورا مقامی ڈنگر ڈاکٹر سے رابطہ کیا۔ اور وہ ڈنگر ڈاکٹر، دو ٹکے کا آدمی ہے۔ مجھے تو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اس ڈنگر ڈاکٹر نے سیاح جوڑے کا ٹیلی فون نمبر تک نہیں لیا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو اسے پیسے مل جاتے۔
رقم کا ذکر سن کر میرے کان کھڑے ہوئے۔ کیا گمشدہ کتے کی بازیابی پہ کوئی انعام رکھ دیا گیا تھا؟ میں نے ہوٹل کی مالکہ سے پوچھا۔
نہیں، مگر بہرحال میں نے اس کتے کا خیال تو رکھا نا؟ میں نے رات کو اسےنہلایا کیونکہ وہ میرے بستر میں سونا چاہتا تھا اور وہ کافی گندا ہورہا تھا۔ میں نے اس کو نہلانے کے بعد اسےاپنے بستر میں سونے کی اجازت دی۔
میں نے اس کتے کے بارے میں فیس بک پہ ڈال دیا تھا۔ سیاح جوڑے نے کتے کی گمشدگی کے بعد مقامی ریڈیو اسٹیشن سے بھی بات کی تھی۔ ریڈیو اسٹیشن والوں نے فیس بک پہ میرا پیغام دیکھ کر مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے اور اس جوڑے کو آپس میں ملا دیا۔
اس سے پہلے کہ اس عورت کی کہانی کسی اور رخ پہ نکل جاتی، میں نے اس کی صلح رحمی کی بہت تعریف کی اور پھر یہ بتاتے ہوئے کہ ہمیں اندھیرا ہونے سے پہلے بورک پہنچنا تھا، اس سے رخصت لی۔
بروکن ہل سے روانہ ہونے کے بعد ہم گاڑی کے ریڈیو پہ مقامی اسٹیشن تلاش کرتے رہے۔ ریڈیو پہ جو واحد اسٹیشن ملا وہاں پرتگالی میں گفتگو ہورہی تھی۔ کیا اس علاقے میں پرتگالی تارکین وطن رہتے ہیں؟ ہمارے پاس زیادہ وقت ہوتا تو ہم اس علاقے کی تاریخ کو خوب اچھی طرح کھنگالتے۔
نقشے کے حساب سے بروکن ہل سے بورک پہنچنے کے دو راستے تھے، ایک کسی قدر چھوٹا اور دوسرا تھوڑا لمبا۔ بروکن ہل سے نکل کر جب چھوٹے راستے کے آغاز پہ پہنچے تو اسے اجاڑ پایا۔ وہاں سڑک کی تیاری میں زمین تو ہموار ہوگئی تھی مگر سڑک پہ اب تک ڈامر نہیں بچھایا گیا تھا۔ آگے بڑھے اور قریبا گھنٹے سے زیادہ سفر کے بعد طویل راستے تک پہنچے۔ وہاں سڑک اچھی بنی تھی۔ کوبار نامی قصبے سے نکلے تو سڑک کے ساتھ ایک سائن نظر آیا جس پہ لکھا تھا کہ کہ اگلا پیٹرول پمپ ایک سو انسٹھ کلومیٹر کے فاصلے پہ بورک میں تھا۔ گاڑی میں ایندھن کی سوئی دیکھی تو اسے چوتھائی سے نیچے پایا۔ کیا اتنے ایندھن میں گاڑی بورک تک پہنچ جائے گی؟ اپنے آپ سے سوال کیا۔ کسی قدر متزلزل جواب آیا کہ شاید ایسا ممکن ہو۔ مگر گاڑی اس چھوٹے سے قصبے سے جیسے جیسے دور ہوتی گئی ایندھن کا نشان تیزی سے نیچے آتا گیا۔ ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی۔ اب گاڑی کو کہیں روکنا نہ تھا اور ایک رفتار سے چلاتے ہوئے بورک تک پہنچنا تھا۔ بورک سے نوے کلومیٹر پہلے ایندھن الارم کا اشارہ جل اٹھا۔ خواہش ہوئی کہ بورک سے جس قدر قریب پہنچ کر گاڑی میں ایندھن ختم ہو اتنا اچھا ہو تاکہ کھینچ ٹرک کی زیادہ رقم نہ دینی پڑے۔ کیا گاڑی میں ایندھن اس وقت ختم ہوگا جب بورک شہر کے نشانات دور سے نظر آرہے ہوں گے؟ اسی طرح کے خیالات دل میں آتے رہے اور ہم اپنے آپ کو آنے والے کٹھن وقت کے لیے تیار کرتے رہے۔  مگر ایک دفعہ پھر قسمت نے ہمارا ساتھ دیا؛ گاڑی میں ایندھن ختم نہ ہوا اور ہم بورک پہنچ گئے۔ بورک میں داخل ہوکر ایک پیٹرول پمپ پہ گاڑی کھڑی کی تو جان میں جان آئی۔


Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?