Thursday, December 03, 2015

 

مائونٹ گیمبئیر









ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو ستاون

نومبر انتیس، دو ہزار پندرہ

مائونٹ گیمبئیر


میلبورن میں ہمارا پڑائو ختم ہوچکا تھا۔ وہاں سے ایڈی لیڈ تک پہنچنے کے لیے ہمارے پاس دو دن تھے۔ ہم نے نقشے کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ میلبورن سے ایڈی لیڈ کے راستے میں مائونٹ گیمبئیر نامی شہر میں رات گزاری جائے۔ اب ایک فعال راہ نما ہمارے پاس تھا۔ اس راہ نما کو آسٹریلیا کے چپے چپے کی خبر تھی۔ اس راہ نما میں منزل مقصود کا پتہ ڈالیے اور آسٹریلوی لہجے میں انگریزی بولنے والی خاتون کی ہدایات پہ عمل کرتے ہوئے اپنی جگہ تک پہنچ جائیے۔ مگر بات اس قدر آسان نہ تھی۔ اس راہ نما کو اول دفعہ چالو کرتے ہوئے یوں سیٹ کردیا گیا تھا کہ راہ نما، مسافر کو بڑی شاہ راہوں اور ٹول راستوں سے بچا کر چلے۔ چنانچہ راہ نما کی آسٹریلوی خاتون ہمیں میلبورن سے پہلے گیلونگ لے گئیں اور پھر دیہی راستوں پہ چلاتی مائونٹ گیمبئیر تک لے چلیں۔ یہ تمام سڑکیں دو طرفہ تھیں جن پہ سامنے سے آنے والی ٹریفک کو دیکھ کر احتیاط سے گاڑی چلانی ہوتی تھی؛ مختصر یہ کہ یہ سڑکیں اعصاب پہ بھاری تھیں۔ یہاں تک تو معاملہ قابل برداشت تھا مگر پھر نہ جانے راہ نما کو کیا ہوا کہ اس نے میک آرتھر نامی قصبے کے قریب پہنچ کر ہمیں گول گول گھمانا شروع کردیا۔ جب ایک طرح کے کھیتوں اور بیابان کو دیکھتے ہوئے اسی جگہ پہنچے جہاں سے چلے تھے تو راہ نما نے پھر ان ہی کھیتوں اور بیابانوں کا رخ کرنے کی ہدایت کی۔ ہم نے اس موقع پہ راہ نما سے بغاوت کردی۔ اس سڑک پہ ہیملٹن نامی شہر کے سائن لگے تھے۔ یہ نام ہم نے نقشے پہ دیکھا تھا۔ ہم راہ نما والی خاتون کے شدید احتجاج کے باوجود ہیملٹن کی طرف چل پڑے۔ ہمارا جیسا کوئی سرپھرا راہ نما میں بیٹھا ہوتا تو اس حکم عدولی پہ گالم گلوچ شروع کردیتا مگر خاتون بس مستقل یوٹرن کیجیے، یوٹرن کیجیے کی گردان کرتی رہیں۔
ہیملٹن قصبے سے پہلے ایک پیٹرول پمپ نظر آیا۔ ہم وہاں رک گئے۔ پیٹرول پمپ کے دفتر میں ایک فربہ شخص فون پہ بات کررہا تھا۔ ہمیں دیکھ کراس نے فون پہ بات ختم کی اور فورا کائونٹر تک پہنچا۔ ہم نے اپنی مشکل بیان کی تو وہ فورا ہماری مدد کے لیے آمادہ ہوگیا۔ اس نے ایک چھوٹے کاغذ پہ نقشہ بنا کر سمجھایا کہ کس طرح ہم ہیملٹن میں داخل ہوں گے اور پھر وہاں ہمیں مائونٹ گیمبئیر کے اشارے مل جائیں گے۔ ہم اس مہربان شخص کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے نکلے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پہ چل پڑے۔ ہیملٹن پہنچ کر راہ نما کی خاتون کو بھی قرار آگیا اور ان کی ہدایات سڑک پہ لگے اشاروں سے مطابق ہوگئیں۔
ہم جب شام پانچ بجے مائونٹ گیمبئیر پہنچے توغروب آفتاب قریب تھا۔ ہمارے ہوٹل کا مینیجر ایک درمیانے قد کا ادھیڑ عمر شخص تھا۔ اس نے ایک نقشے کی مدد سے ہمیں سمجھایا کہ ہم سامان کمرے میں دھرنے کے بعد کھانا کھانے کہاں جا سکتے تھے۔ اسی شخص کی زبانی ہمیں مائونٹ گیمبئیر کے اس فخر کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ سائوتھ آسٹریلیا نامی صوبے میں ایڈیلیڈ کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے۔
میلبورن میں جب ہم نے اپنے ساتھیوں سے آسٹریلیا میں کھانے پینے کی گرانی کی شکایت کی تھی تو انہوں نے ہمیں یہ کہہ کر چپ کرایا تھا کہ یہاں برابر میں کوئی میکسیکو نہیں ہے جہاں سے کم پیسوں میں مزدور حاصل کیے جاسکیں۔ آسٹریلیا کی کم از کم مزدوری امریکہ کی کم از کم مزدوری کی رقم سے دگنی سے بھی زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے کم بجٹ مسافر آسٹریلیا میں کھانے پینے کی رقم کو بجٹ کے قابو میں رکھنے کے لیے مستقل جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ مائونٹ گیمبئیر کی سب سے مصروف سڑک کمرشل اسٹریٹ ہے۔ ہم رات کے کھانے کا سامان کرنے کے لیے وہاں پہنچے۔ اس وقت تک اندھیرا ہو چکا تھا اور بہت سی دکانیں بند ہو گئیں تھیں۔ وہیں ہمیں ایک انڈین ریستوراں نظر آیا مگر وہ مکمل طور پہ ویران تھا۔ وہ ویرانی دو میں سے ایک بات کی گواہی تھی، ایک یہ کہ ریستوراں کا کھانا اچھا نہیں ہے، یا دوسری یہ کہ اس ریستوراں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ کھانے پینے میں ہماری مدد کے لیے بالاخر امریکہ کودا۔ ڈومینوز پیٹزا کے ایک سائن نے ہمیں بتایا کہ رات نو بجے سے پہلے ان کا پیٹرا نہایت ارزاں ہے۔ ہم فورا وہاں پہنچ گئے۔ امریکی ریستورانوں کی گاہکوں کو اپنی طرف کھینچنے کی یہ حکمت عملی ہمیں آسٹریلیا میں اور جگہ بھی نظر آئی۔ خیال ہوا کہ جب یہ ریستوراں کچھ عرصے کے لیے اپنی قیمتیں کم رکھتے ہوں گے تو اس جگہ موجود دوسرے، مقامی ریستوراں یقینا نقصان اٹھاتے ہوں گے اور بدیسی ریستوراں میں کم قیمت کا ہر دن ان مقامی بھٹیاروں پہ بھاری گزرتا ہوگا۔ اور اگر بدیسی ریستوراں اپنے بین الاقوامی جثے اور مالی مضبوطی کی وجہ سے کسی قدر طویل عرصے تک اپنی کم قیمتیں برقرار رکھیں تو مقامی کھاجدانوں کا دیوالیہ ہونا ناگزیر ہے۔ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے؟ مقامی بھٹیاروں کو دیو قامت بین الاقوامی کمپنیوں کی مار سے کیسے بچایا جائے؟ ایسا کرنے کے لیے یقینا مقامی آبادی اور اس کی نمائندہ حکومت کے خیالات بالکل واضح ہونے چاہئیں۔
 ڈومینوز پیٹزا کی اس دکان کا نقشہ امریکہ میں ان کی دکانوں کے نقشے سے بہت مختلف نہ تھا۔ اس دکان میں کام کرنے والے لڑکے اور لڑکیاں اٹھارہ بیس برس سے زیادہ کے نظر نہ آتے تھے۔  زیادہ تر گاہک وہاں پیٹزا اٹھانے آتے تھے۔ اتنی سردی میں اگر ہم پیٹزا لے کر ہوٹل جاتے تو وہ پیٹزا کمرے میں پہنچنے تک یقینا ٹھنڈا ہوجاتا۔ ہم نے پیٹزا اسی دکان میں ایک طرف پڑی میز پہ بیٹھ کر کھایا اور مسقل آنے والے گاہکوں کو غور سے دیکھتے رہے۔ زیادہ تر گاہک دو یا زائد پیٹزا لے کر جارہے تھے۔ وہ گاڑی دکان کے سامنے کھڑی کرتے، انجن کو رواں چھوڑ کر دکان کے اندر آتے، اور ادائیگی کے بعد پیٹزا لے کر فورا گاڑی میں سوار وہاں سے روانہ ہوجاتے۔
دنیا میں اکثر جگہ اور خاص طور پہ مغربی ممالک میں ہر شہر، ہر قصبہ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے قصبے کے اندر اور آس پاس موجود سیاحتی مقامات کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔ ان جگہوں کی انتظامیہ جانتی ہے کہ سیاحت سے آمدنی آندھی کے آم ہیں، جس قدر ممکن ہو سمیٹ لو۔ سیاح اس علاقے میں آئیں گے تو رہنے اور کھانے پینے کے علاوہ خریداری پہ رقم خرچ کریں گے اور اس سیاحتی آمدنی سے علاقے کی عید ہوجائے گی۔ مائونٹ گیمبئر نے بھی اپنے سیاحتی مقامات کی خوب تشہیر کی تھی۔ ہوٹل کے استقبالیے پہ موجود دیدہ زیب پمفلٹ کے ذریعے بتایا گیا تھا کہ اگر آپ شہر کے قریب نیلی جھیل دیکھے بغیر یہاں سے چلے گئے تو ساری عمر کا پچھتاوا ہاتھ آئے گا۔ اگر فلاں آرٹ گیلری نہ دیکھی تو کچھ نہ دیکھا۔ ہم نے مائونٹ گیمبئیر کے سارے سیاحتی مقامات کے بارے میں پڑھا اور فیصلہ کیا کہ مائونٹ گیمبئیر کے مرکز شہر میں پھر کر اس شہر کو دیکھنا ہمارے لیے مائونٹ گیمبئیر کی سب سے بڑی تفریح تھی۔ ہمیں اگلی صبح مائونٹ گیمبئیر سے ایڈیلیڈ کے لیے کوچ کرجانا چاہیے۔



Labels: , , , ,


Comments:
informative..
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?