Tuesday, March 03, 2015

 

اسرار حسن








مارچ ایک،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو تیس


اسرار حسن


میرے لیے چچا جان کی وفات کا غم غلط کرنے کا بڑا بہانہ یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کے آخری چند دن بہت تکلیف میں گزارے؛ موت نے ان کی تکلیف ختم کردی۔
چچا جان کو ہم بہن بھاءیوں نے اپنے بچپن میں باقاعدگی سے دیکھا اور پھر ان کی شادی بھی ہمارے سامنے ہوءی۔ اس وقت وہ حبیب بینک میں نوکری کرتے تھے اور اپنی ذہانت اور انتھک محنت کی وجہ سے خوب ترقی کررہے تھے۔ شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد جب ان کا تبادلہ سنگاپور ہوا اور انہیں وہاں اکیلے جانا پڑا تو چچی جان ان کی غیرموجودگی میں بہت پریشان ہوءیں۔ سال بھر کے بعد چچا سنگاپور سے واپس پاکستان آگءے اور کچھ عرصہ بعد چچی جان اور اپنی نوزاءدہ لڑکی کے ہمراہ شارجہ روانہ ہوگءے۔ ان کا شارجہ تبادلہ حبیب بینک ہی کی طرف سے ہوا تھا۔ ستر کی دہاءی میں خلیج فارس کے علاقے میں تیل کی دولت کے سہارے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع ہوءے تھے۔ چچا کی تعنیاتی اس علاقے میں بہت عرصہ رہی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ چھٹیوں میں پاکستان آتے تو ہمیشہ ہمارے لیے تحفے لے کر آتے۔ انہیں طرح طرح کے چٹ پٹے کھانے کا شوق تھا اور اسی وجہ سے جب وہ پاکستان میں ہوتے تو ہم ان کے ساتھ مختلف ریستوراں میں کھانے کھاتے۔
چچا کا بچپن مالی تنگی میں گزرا اور اسی وجہ سے انہیں پیسے کی طاقت کا اندازہ تھا؛ انہوں نے عمر کا بہت بڑا حصہ اپنے آپ کو مالی طور پہ مضبوط کرنے میں گزارا۔ وہ مستقبل میں آنے والی کسی بھی مالی مصیبت سے نبردآزما ہونے کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ ان کے پاس جاءداد تھی اور وہ اسٹاک ایکسچینج میں بھی حصص کی لین دین میں مصروف رہتے تھے۔ میں نے پہلی بار سونے کی اینٹ بھی ان کے پاس ہی دیکھی تھی اور میں ان اینٹوں کا چھوٹا حجم دیکھ کر حیران ہوا تھا۔ دراصل لفظ 'اینٹ' سے مجھے خیال ہوا تھا کہ سونے کی اینٹ بھی سیمنٹ کی اینٹ کی طرح بارہ انچ لمبی ہوتی ہوگی۔
چچا نے جب حبیب بینک چھوڑ کر بی سی سی آءی میں نوکری شروع کی تو ان  کے کاروباری دورے بہت بڑھ گءے۔ آغا حسن عابدی کو یورپ کے مختلف شہروں میں کانفرینس کرنے کا شوق تھا۔ ہر کانفرینس میں مختلف ممالک میں موجود بی سی سی آءی کے افسران شرکت کرتے۔ چچاجان ان کانفرینس میں شرکت کرتے تو ان کا قیام مہنگے ہوٹلوں میں ہوتا۔ چچا کی ان ہوٹلوں میں قیام کی سوغات مجھے ان خوشبودار صابنوں اور شیمپو وغیرہ کی صورت میں ملتی جو ان ہوٹلوں میں ٹہرنے والوں کو ملتے اور چچا غیراستعمال شدہ چیزیں میرے لیے کراچی لے آتے۔
میرے پاءوں میں ایسا چکر ہے کہ اگر آپ میرے سامنے دنیا کے کسی دوردراز ملک کا نام لیں تو میرا دل وہاں جانے کے لیے مچل اٹھتا ہے۔ میرا بس نہیں چلتا کہ میں کس طرح سب کچھ چھوڑ کر وہاں جانے کے لیے روانہ ہوجاءوں۔ جہاں نوردی کا یہ شوق چچا جان کی طرف سے مجھے دو صورتوں میں ملا ہے۔ اول صورت یہ کہ بچپن میں چچا مجھے طرح طرح کے ڈاک کے ٹکٹ لا کر دیتے۔ یہ ٹکٹ ان لفافوں پہ لگے ہوتے جو روزانہ چچا کی کاروباری ڈاک میں انہیں مختلف ممالک سے موصول ہوتے۔ دراصل بینکاری میں چچاجان کا خاص شعبہ زرمبادلہ [فارن کرنسی] تھا۔ انہیں عالمی منڈی میں مختلف کرنسیوں کے اتار چڑھاءو کا اچھی طرح اندازہ ہوتا تھا اور ان کا یہی علم اور تجربہ انہیں اپنے ہم عصر ساتھیوں سے دو ہاتھ آگے رکھتا تھا۔
دنیا دیکھنے کا شوق دوسری طرح مجھے چچا سے براہ راست ملا ہے۔ جب بی سی سی آءی میں ملازمت کے دوران نہ صرف یہ کہ چچا مالی طور پہ بہت مضبوط ہوگءے بلکہ کاروباری سفر کی وجہ سے ان کی بین االقوامی شناساءی بھی بڑھی تو انہوں نے اپنے پورے خاندان کے ساتھ بیرونی ممالک کے دورے شروع کیے۔ طریقہ ء واردات یہ ہوتا کہ وہ چھٹیوں میں بیوی بچوں کے ساتھ کراچی آتے اور پھر وہاں سے بیرون ملک روانہ ہوتے۔ اپنی کمال مہربانی سے وہ مجھے بھی اپنے ساتھ سفر پہ لے جاتے۔ میرا پہلا ہواءی سفر کا تجربہ چچا کے ساتھ ہی ہوا تھا۔ یہ وہ سفر تھا جب ابا اور میں، چچا اور ان کی دو لڑکیوں کے ساتھ سری لنکا گءے تھے۔ چچا کے ساتھ ایک دوسرا سفر ہندوستان کا تھا۔ اور تیسرا سفر نیپال کا۔ نیپال کے سفر کے دوسرے مرحلے میں میرا بھاءی اور میں بنگلہ دیش روانہ ہوگءے تھے۔ بنگلہ دیش میں ہمارا قیام چچاجان کے توسط ہی سے تھا کہ ڈھاکہ میں چچا کے بینک کے کءی دوست رہا کرتے تھے۔
بی سی سی آءی میں ملازمت کے درمیان ہی چچا کو ڈیزاءنر کپڑوں، جوتوں، اور خوشبوءوں کا شوق ہوا تھا۔ ایریمس ڈیون آج بھی میری پسندیدہ خوشبو ہے؛ اس خوشبو سے میرا پہلا تعارف چچا کے پاس ہی ہوا تھا۔
سنہ اکیانوے میں جب بی سی سی آءی بحران کا شکار ہوا اور مصر میں اس بینک کی برانچ بھی بند ہوءی تو چچا جان اپنے اہل خانہ کے ہمراہ کراچی آگءے۔ بچیوں کی شادیوں اور لڑکے کے امریکہ روانہ ہونے کے بعد چچا فارغ تھے اور اپنی خواہش کے مطابق دنیا دیکھ بھی سکتے تھے مگر چچی جان کسی بھی سفر کے لیے تیار نہ تھیں۔ چچی کے خاندان میں گردوں کی کمزوری کا مرض ہے جو چچی تک بھی پہنچا تھا۔ شاید چچی کے مرض کی تشخیص صحیح وقت پہ نہ ہوءی مگر یہ واضح تھا کہ چچی کے اندر تواناءی کی کمی رہتی تھی اور ذرا سا چلنے پھرنے پہ وہ تھک جاتی تھیں۔ غالبا سنہ ۲۰۰۵ کے آس پاس چچی جان کے گردے کا عارضہ تشخیص ہوگیا تھا مگر ان کو دواءوں کے سہارے چلایا گیا اور جب رفتہ رفتہ کر کے ان کے گردے بالکل جواب دے گءے تو پاکستان میں ڈاکٹر چچی جان کی عمر کی وجہ سے گردے کی تبدیلی کی جراحی کے لیے تیار نہ تھے۔ چچی بہت عرصہ ڈاءلیسیس پہ رہیں اور سنہ ۲۰۱۲ میں انتقال کرگءیں۔ چچی جان کے انتقال سے پہلے چچاجان کی سب سے بڑی مصروفیت چچی جان کی دیکھ بھال تھی۔ یہ مصروفیت اچانک ختم ہوءی تو چچا کو بیوی کی وفات کے دکھ کے ساتھ ہی ایک بے مصرف زندگی کا دھچکہ بھی لگا۔ چچی کے انتقال کے بعد جولاءی ۲۰۱۴ تک وہ اپنی زندگی کا مقصد تلاش کرتے رہے۔ ایک خیال چچا کو یہ آیا کہ انہیں ملک ملک کی سیر کرنی چاہیے۔ وہ ترکی جانا چاہتے تھے اور جولاءی ۲۰۱۴ میں وہاں جارہے تھے جب ملک سے روانگی سے کچھ پہلے ہی وہ ایک دعوت میں اپنی سالی عطیہ کے گھر گءے۔ عطیہ اور ان کے شوہر منصور دونوں ڈاکٹر ہیں۔ وہیں باتوں کے درمیان دونوں ڈاکٹروں نے غور کیا کہ چچاجان کی آنکھیں بہت پیلی تھیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ چچا سفر پہ روانگی سے پہلے اپنا خون چیک کرالیں۔ چچا کے خون کا ٹیسٹ ہوا تو معلوم ہوا کہ انہیں بہت شدید یرقان ہے۔ یرقان کی وجہ جاننے کی کوشش میں ہی سرطان تشخیص ہوا جو چچا کے جگر کو نقصان پہنچا چکا تھا اور تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ چچا کو بتایا گیا کہ ان کے پاس زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تھے۔ اس تشخیص کے فورا بعد بہت دوڑ بھاگ ہوءی؛ چچا کا جانا لندن بھی ہوا مگر کوءی ترکیب کارگر نہ ہوءی۔ ان کی کیموتھراپی دبءی میں ہوءی مگر جب ان کے پاس بہت تھوڑا وقت رہ گیا تو وہ چھ فروری کو کراچی آگءے۔
چچاجان کی بظاہر سخت گیر طبیعت کے پیچھے ایک نرم دل آدمی چھپا تھا جو مزاروں پہ دیگیں غریبوں میں تقسیم کرتا، غریب طلبا کی مدد کرتا، اور عید کے موقع پہ کم تنخواہ والوں کو آٹا، گھی، شکر کے تحاءف دیتا۔ ان کی فیاضی سے یقینا بہت سے لوگ مستفید ہوءے ہیں۔
چھ فروری کوکراچی پہنچنے کے اگلے دن چچاجان، ابا اور میری فرماءش پہ کراچی ادبی میلے میں گءے۔ وہ اپنے دوست لالہ بشیر کے ساتھ وہاں پہنچے تھے۔ اوپر موجود تصویر ادبی میلے میں لی گءی تھی۔ اس کے بعد یہ معمول ہوگیا کہ ابا اور میں روز رات کو چچا سے ملنے جاتے۔ چچا بستر پہ لیٹے لیٹے ہم سے باتیں کرتے۔ پھر میرا جانا لاہور ہوا اور ان سے ملاقات میں وقفہ آگیا۔ انیس تاریخ کو ابا اور میں اسلام آباد سے کراچی پہنچے۔ اس رات بھی ہم دونوں چچا سے ملنے گءے۔ اس وقت تک چچا کے تینوں بچے کراچی آچکے تھے۔ چچا کے لیے دو نرسوں کا انتظام کردیا گیا تھا۔ یہ دونوں مرد تھے۔ جیکب دن کو بارہ گھنٹے چچا کے ساتھ ہوتا تھا اور سرفراز رات کے وقت۔ انیس تاریخ کی رات ابا اور میں کافی دیر چچا کے کمرے میں رہے۔ وہاں سے روانہ ہونے سے پہلے ابا نے اپنے فون پہ مہدی حسن کا ایک پرانا گانا لگا دیا۔ 'تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے' ۔ کمرے میں موجود سب لوگ خاموشی سے مہدی حسن کو سنتے رہے۔ یہ گانا اس وقت مقبول ہوا تھا جب ہم لوگ گلبرگ والے گھر میں رہا کرتے تھے۔ وہ چچا کی جوانی اور پے درپے کامیابیوں کا دور تھا۔ اس رات مہدی حسن کا پرانا گانا سنتے ہوءے ہم سب محسوس کرسکتے تھے کہ مستقبل سے مکمل طور پہ مایوس ہونے کے بعد چچا کی بہترین یادیں ان کے ماضی میں تھیں۔
اکیس فروری کی رات ہم تمام گھر والے رات کے کھانے پہ میرے بھاءی کی طرف مدعو تھے۔ باقی لوگ تو اس طرف نکل گءے؛ ابا اور میں چچا کے گھر گءے کہ ان کو دیکھ کر کھانے پہ جاءیں گے۔ اس وقت چچا کو ڈرپ لگی ہوءی تھی۔ لیٹے لیٹے ان کی پیٹھ میں زخم ہونا شروع ہوگیا تھا۔ اسی وجہ سے عالیہ، چچا کی بڑی لڑکی، ان کی پیٹھ کی مالش کررہی تھی۔ ہمارے پہنچنے پہ چچا نے آنکھیں کھول کر ہم دونوں کو دیکھا۔ وہ یقینا ہمیں پہچان گءے تھے۔ مگر وہ زیادہ دیر آنکھیں کھلی نہ رکھ سکے۔ وہ کراہ رہے تھے، اور کچھ کچھ دیر بعد ان کے منہ سے 'ہاءے میرے اللہ، یا مولا' جیسے کلمات نکلتے تھے۔ ان کے قریب کچھ دیر بیٹھ کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ غنودگی کی کیفیت میں تھے۔ عالیہ کو محسوس ہوا کہ چچا کے ہونٹ خشک ہیں تو اس نے ان سے پوچھا کہ آیا وہ پانی پینا چاہتے تھے۔ پانی کا ایک گلاس قریب ہی پڑا تھا۔ چچا نے کوءی جواب نہیں دیا تو عالیہ نے گلاس ہاتھ میں لیا اور گلاس میں موجود نلکی کو ان کے منہ کے قریب کردیا۔ چچا نے آنکھ کھول کر گلاس کو دیکھا اور نلکی کو منہ میں لے کر گلاس سے پانی پیا۔ وہ پانی پیتے گءے اور گلاس آدھا ختم کردیا۔ منہ سے نلکی نکالنے کے بعد وہ ایک بار پھر غنودگی میں چلے گءے۔ عالیہ کمرے سے باہر گءی تو میں چچا کے ہاتھ پاءوں دبانے لگا۔ ان کے ہاتھ پاءوں ٹھنڈے تھے۔ کچھ دیر بعد ابا کا بلاوا آیا تو وہ اور کاظم، عالیہ کے شوہر، بھی کمرے سے چلے گءے۔ میں چچا کا ہاتھ دباتا رہا۔ انہوں نے آنکھ کھول کر مجھے دیکھا تو میں نے پانی کا گلاس پھر ان کے آگے کردیا۔ انہوں نے ایک بار پھر نلکی سے پانی پیا۔ کچھ ہی دیر میں باہر سے رونے کی آواز آءی۔ ابا واپس کمرے میں آگءے۔ ہم لوگ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد وہاں سے اٹھ گءے۔ مگر ہم ابھی گھر کے صدر دروازے تک ہی پہنچے تھے کہ ابا کو آواز دی گءی کہ چچا ابا کو بلا رہے تھے۔ ہم دونوں پھر چچا کے کمرے میں پہنچ گءے۔ میرے والد میں وہ پراعتمادی ہے جو پدرسالار [پیٹریارکل] معاشروں میں خاندان کے بڑے لڑکے میں نظر آتی ہے۔ چچا جان جو ابا سے کءی سال چھوٹے تھے اسی خود اعتمادی کے ساءے میں بڑے ہوءے تھے۔ اور اسی لیے اپنی بیماری میں بھی چچا کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کے بڑے بھاءی ان کے ساتھ رہیں۔
کچھ دیر بعد چچا کی صفاءی ستھراءی کا وقت آیا تو ہم دونوں چچا کے گھر سے روانہ ہوءے۔ گاڑی قریبا ویران سڑک پہ سمندر کی طرف دوڑنے لگی تو ابا نے مجھے عالیہ کے رونے کی وجہ بتاءی۔ شام کے وقت چچا کے ڈاکٹر یوسف کمال چچا کو دیکھنے آءے تھے۔ انہوں نے معاءنے کے بعد چچا کے تینوں بچوں کو بتایا تھا کہ چچا کا وقت قریب تھا اور تاکید کی تھی کہ تدفین کی تیاری کی جاءے۔ گو کہ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ چچا کے جسم کے اندر سرطان تیزی سے پھیل رہا تھا اور دنیا میں چچا کا وقت محدود تھا مگر ڈاکٹر کی ایسی دوٹوک بات سے سب سکتے میں آگءے تھے۔ ڈاکٹر نے شاید کھل کر یہ بات اس لیے کی تھی تاکہ چچا کے سب لواحقین ذہنی طور پہ عنقریب آنے والے صدمے کے لیے تیار ہوجاءیں۔
چچا مضبوط جسم کے مالک تھے اور اسی لیے وہ سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب موت سے خوب لڑے۔ سرطان کے خلیات خودکش ہوتے ہیں۔ وہ جسم پہ اس وقت تک قبضہ کرتے رہتے ہیں جب تک پورا جسم ان کے قابو میں نہ آجاءے۔ اور جب ان کا قبضہ پورے جسم پہ ہوجاتا ہے تو جسم سے جان نکلنے پہ سرطان کی موت کا وقت بھی آجاتا ہے۔
میری عادت ہے کہ رات کو سوتے وقت میں فون بند کردیتا ہوں، مگر ابا ایسا نہیں کرتے اور اسی وجہ سے صبح سات بجے ان کو وہ فون آیا جس کے بعد میرا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ فون پہ بتایا گیا تھا کہ چچا کی حالت نازک تھی اور ابا کو فوری طور پہ وہاں پہنچنا تھا۔ ہم دونوں فورا ہی گھر سے روانہ ہوگءے۔ سورج نکل چکا تھا مگر اتوار ہونے کی وجہ سے سڑکیں سنسان پڑی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں ہم لوگ چچا کے گھر پہنچ گءے۔ چچا کے کمرے میں لوگ سسکیوں سے رو رہے تھے۔ ابا نے چچا کا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ان کو زور زور سے پکارا مگر وہ پکار بے سود تھی۔ میں نے چچا کی کلاءی پہ ہاتھ رکھ کر ان کی نبض ٹٹولی مگر اس ٹھنڈے بے جان ہاتھ میں زندگی کی کوءی رمق نہ تھی۔ چچا انتقال کرچکے تھے۔ مگر ان کی وفات کا باقاعدہ فیصلہ کرنا تو کسی ڈاکٹر کا کام تھا۔ ڈاکٹر منصور کو فون کیا جا چکا تھا۔ وہ قریبا آٹھ بجے وہاں پہنچے۔ ڈاکٹر منصور نے اسٹیتھواسکوپ سے چچا کے دل کی دھڑکن تلاش کی اور اس میں ناکامی کے بعد چچا کی رحلت کا باقاعدہ اعلان کردیا۔



Labels: , , , , , , , , , ,


Comments:
آج صبح روح سے کشید کیا ایک جملہ۔
جن کے ساتھ زندگی کے ان گنت دن گندھے ہوں، اپنے ان پیاروں کی موت کا یقین آتے وقت لگتا ہے۔

 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?