Tuesday, March 10, 2015

 

لوک ورثہ، اسلام آباد







مارچ آٹھ،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اکتیس


لوک ورثہ، اسلام آباد


جنوبی ایشیا سے باہر کی پڑھی لکھی دنیا پاکستان کا تعلق ہندوستان سے جوڑتی ہے۔ دنیا بھر کے وہ لوگ جو تاریخ سے واقف ہیں یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے مضبوط ثقافتی و لسانی رشتہ ہندوستان سے ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا ہندوستان سے ویسا ہی گہرا ثقافتی ناتہ ہے جیسا تاءیوان یا ہانگ کانگ کا چین سے ہے۔ مگر پاکستان میں رہنے والے بہت سے لوگ اس رشتے سے انکاری ہیں۔ یہ لوگ نظریاتی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ وہ لوگ جو سرکاری 'نظریہ پاکستان' کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں پاکستان کا تعلق وہاں سے مغرب یا شمال میں موجود خطوں سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نظریاتی کنفیوژن کا سب سے بڑا عملی مظاہرہ لوک ورثہ نماءش [لوک ورثہ میوزیم] اسلام آباد میں نظر آتا ہے۔

وہ جمعرات کا روز تھا۔ اسلام آباد میں صبح سے بارش ہورہی تھی۔ دس بج چکے تھے مگر لوک ورثہ نماءش دیے گئے وقت کے مطابق نہیں کھلی تھی۔ میں ہلکی بارش میں بھیگتا ہوا زور زور سے لوہے کا بڑا گیٹ پیٹتا رہا۔ میں نے گیٹ کی جھری سے اندر جھانکا تو باوردی اہلکار ادھر ادھر جاتے نظر آءے۔ کچھ دیر بعد ایک اہلکار نے گیٹ کھولا اور میں اندر داخل ہوگیا۔ مگر نماءش میں پہلی مایوسی اس وقت ہوءی جب ٹکٹ خریدتے وقت مجھے بتایا گیا کہ نمائش گاہ میں داخل ہونے سے پہلے مجھے اپنے کیمرے باہر چھوڑنے ہوں گے۔ کیوں؟ اس لیے کیونکہ اندر تصویر اتارنا یا ویڈیو بنانا منع ہے؟ مگر آخر تصویر اتارنا یا ویڈیو بنانا کیوں منع ہے؟ اندر ایسے کونسے نیوکلیاءی راز موجود ہیں جن کی تصاویر بنانے سے ملکی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب وہاں موجود کسی اہلکار کے پاس نہیں تھا۔ مجھے بہلانے کے لیے ایک بوسیدہ کاغذ دکھایا گیا جس پہ کسی توپ بہادر کا یہ حکم درج تھا کہ نماءش کے اندر عکس بندی ممنوع ہے۔ میں نے نامرادی کا کڑوا گھونٹ پی کر اپنے کیمرے استقبالیہ پہ جمع کراءے اور نماءش گاہ میں داخل ہوگیا۔
لوک ورثہ نماءش بہت بڑے رقبے پہ پھیلی ہوءی ہے۔ اس نماءش میں دستکاری، دھات کے کام، آلات موسیقی سمیت پاکستان کی جغرافیائی حدود میں رہنے والے انسانی گروہوں کی روز مرہ زندگیوں میں استعمال ہونے والی بہت سی اشیا کے نمونے ہیں اور یقینا نماءش میں موجود چیزوں کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے مگر نماءش میں بہت سی اشیا کی غیرموجودگی سے بھی بہت کچھ سمجھا جاسکتا ہے۔ اس نماءش کو دیکھ کر ذرا سی دیر میں یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ پاکستان اپنے ہندو ماضی پہ شرمندہ ہے اور کسی طرح اسے چھپانا چاہتا ہے۔
اس نماءش کی سب سے بڑی قباحت واضح تاریخی شعور کی کمی ہے۔ اتنی بڑی نماءش میں پاکستان میں موجود ہندو، عیساءی، اور دوسری اقلیتوں کا کوءی ذکر نہیں ہے۔ اگر محمد بن قاسم کا سندھ پہ حملے کا ذکر ہے تو ساتھ تصویر میں ایک گھڑسوار عرب کو ایک ایسے پیادہ شخص پہ وار کرتا دکھایا گیا ہے جس کے سر کے پیچھے سے ایک پتلی چٹیا نیچے لٹک رہی ہے۔
پاکستان کی زیادہ تر آبادی دریاءوں کے آس پاس میدانی علاقوں میں رہتی ہے مگر نماءش میں پاکستان کے شمال میں پہاڑی علاقے کے لوگوں اور ان کے انداز زندگی کی، کل آبادی میں ان کے تناسب سے کہیں زیادہ نماءندگی ہے۔ نماءش میں وسطی ایشیا کی نوآزاد ریاستوں کے بھی اسٹال ہیں۔ اور تو اور اس نماءش میں لشکر سفالین [ٹیراکوٹا فوج، چین] کا بھی ایک سپاہی کھڑا ہے۔ اگر کسی ملک کا ذکر نہیں ہے تو وہ ہندوستان ہے۔ قصہ مختصر اس نماءش میں یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا ہے کہ پاکستان کا تعلق ایران اور عرب، اور افغانستان اور وسطی ایشیا سے ہے۔ شاید اسی جھوٹ کو چھپانے کے لیے نماءش میں عکس بندی کی ممانعت ہے۔
لوک ورثہ نمائش میں کس تاریخی حقیقت کا اعتراف نظر آنا چاہیے تھا؟  تاریخی حقیقت یہ ہے کہ اس بات کے بہت پختہ ساءنسی ثبوت ملتے ہیں کہ انسان اپنی حالیہ شکل میں براعظم افریقہ میں مکمل ہوا۔ دنیا بھر میں پھیلے بھانت بھانت کے لوگ افریقہ ہی سے نکل کر مختلف خطوں میں پہنچے ہیں۔ انسان کی قدیم نقل مکانی کھانے پینے کی تلاش میں تھی کہ ہم لاکھوں سال پہلے شکار کر کے اور درختوں سے پھل جمع کر کے اپنی خوراک کا انتظام کرتے تھے۔ قریبا بیس ہزار سال پہلے جب انسان نے زراعت ایجاد کی تو اس نے بستیاں بناءیں مگر کسی قدر ٹہر جانے کے باوجود انسان کا سفر جاری رہا۔ لوگ تجارت کے لیے اور کشورکشاءی کے لیے ادھر ادھر جاتے رہے۔ جنوبی ایشیا میں بھی انسان افریقہ سے پہنچا اور اس علاقے میں لوگ لاکھوں سال سے رہ رہے ہیں۔ اس علاقے میں دوسری بڑی نقل مکانی وسطی ایشیا سے قریبا پانچ ہزار سال پہلے ہوءی۔ جنوبی ایشیا میں اسلام کی آمد ایک بہت نیا معاملہ ہے۔ اسلام کی آمد سے پہلے اس علاقے کے زیادہ تر لوگ ہندو ہوا کرتے تھے۔ ایران اور وسطی ایشیا میں اسلام کا تسلط قاءم ہونے کے بعد جنوبی ایشیا میں جو حملہ آور شمال کی طرف سے آءے وہ مسلمان تھے۔ یقینا ان حملہ  آوروں کے ساتھ آنے والے سپاہی بھی خارجی تھے مگر اس علاقے میں بسنے کے بعد ان بدیسیوں کا خون بھی یہاں موجود خون کے ساتھ مل گیا۔ آج جنوبی ایشیا میں بسنے والے مسلمانوں میں مشرف بہ اسلام ہونے والے ہندو [بہت بڑی اکثریت] سے لے کر مخلوط [دوسری بڑی اکثریت] اور نسبتا خالص النسل عرب اور ایرانی [نہ ہونے کے برابر چھوٹی اقلیت] تک ہرقسم کا خون رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ پاکستان جس قدر جلد اپنی اس حقیقت کو سمجھ کر اسے قبول کرے گا اس قدر جلد ایک منفی نظریاتی دلدل سے باہر آ سکے گا۔




Labels: , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?