Tuesday, January 13, 2015

 

شارلی ابدو










جنوری گیارہ،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو تءیس


شارلی ابدو


کیا آپ کو یہ نہیں محسوس ہوتا کہ دنیا میں ایک طرح کے دہشت گردی کے واقعات تواتر سے ہورہے ہیں؟ مذہبی شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔ یوں تو یہ شدت پسندی بدھ مت، ہندو مت، اور یہودیت میں بھی بڑھ رہی ہے مگر 'اسلام' کے نام پہ ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے یقینا باقی مذاہب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت باقی دنیا کے ساتھ امن سے رہنا چاہتی ہے مگر واضح ہے کہ مسلمانوں ہی میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو رحمت اللعالمین کے نام پہ زحمت اللعالمین بنے پھرنے پہ فاخر ہیں۔
جنونیت کا تازہ ترین واقعہ پیرس، فرانس میں ہوا جہاں شارلی ابدو [دیگر تلفظ: چارلی ہیبڈو، چارلی ہیبدو] نامی جریدے کے دفتر پہ دہشت گردوں نے دھاوا بولا اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوءے بارہ لوگوں کو قتل کردیا۔ واضح رہے کہ شارلی ابدو رسالے میں مستقل ایسے کارٹون چھپتے تھے جس میں ہر طرح کے لوگوں کے مذہبی اعتقادات کا مذاق اڑایا جاتا تھا اور مختلف مذاہب کی محترم ہستیوں کی بگڑی شکلیں بنا کر پیش کی جاتی تھیں۔
غیر مسلموں کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے رسول کے بارے میں اس قدر جذباتی کیوں ہیں۔ ان کو جب یہ سمجھایا جاءے کہ جس طرح تم اپنی ماں کی عزت کے بارے میں جذباتی ہو، مسلمان اپنے نبی کے بارے میں اس سے دس گنا زیادہ جذباتی ہوتے ہیں تو ان کو بات کچھ سمجھ میں آتی ہے۔
شارلی ابدو میں دہشت گردی کے بعد پھر وہی تماشہ ہوا جو ہر بار اس طرح کی دہشت گردی کے واقعے کے بعد ہوتا ہے۔ مذمتی بیانات کی بوچھاڑ۔ کچھ لوگوں کا مذکورہ جریدے اور صحافت سے یکجہتی کے لیے کہنا کہ ہم سب شارلی ہیں۔ کچھ کا کہنا کہ نہیں ہم شارلی ابدو نہیں ہیں کیونکہ شارلی ابدو کے کارٹون نویس جان بوجھ کر لوگوں کی دل آزاری کرتے تھے۔ مگر وہ لوگ بھی جو کہہ رہے ہیں کہ وہ شارلی نہیں ہیں، یہ مانتے ہیں کہ لاکھ کوءی شخص بدتمیزی کرے، گستاخ کارٹون بناءے، لوگوں کے جذبات مجروح کرے، برگزیدہ ہستیوں کے فحش خاکے بناءے، ایک مہذب معاشرے میں اس شخص اور اس طرح کا مواد شاءع کرنے والے رسالے پہ مقدمہ تو قاءم کیا جاسکتا ہے، اس پہ یہ الزام تو لگایا جاسکتا ہے کہ یہ معاشرے میں نفرت کو ہوا دے رہا ہے مگر کسی طور پہ اس بات کو قبول نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ مسلح لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں اور ایسے شخص کو قتل کردیں۔
پاکستان میں غازی علم دین نامی شخص کا واقعہ بہت فخر سے بیان کیا جاتا ہے۔ مجھ تک وہ واقعہ اس طرح پہنچا ہے کہ لاہور میں رہنے والے علم دین نامی ایک شخص کو خبر ملتی ہے کہ کسی غیر مسلم نے ایک تحریر میں ہمارے پیارے نبی کی تذلیل کی ہے۔ علم دین جو بظاہر نبی کا عاشق ہے، طیش میں اٹھتا ہے اور مبینہ گستاخ رسول کو جان سے مار دیتا ہے۔ انگریز کی حکومت ہے۔ علم دین گرفتار ہوتا ہے، اس پہ قتل کا مقدمہ چلتا ہے، اور اسے پھانسی کی سزا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں کی نظر میں علم دین نامی یہ شخص بہت عظیم ہے اور شہادت کے عہدے پہ فاءز ہے کیونکہ اس نے بظاہر ناموس رسول کے لیے اپنی جان کی قربانی دی ہے۔ دراصل غازی علم دین اسلام کا نادان دوست ہے،اس شخص کا جذبات کی رو میں بہہ کر کسی آدمی کو مار دینے کا عمل انسانیت کے نام پہ عموما اور مسلمانوں کے نام پہ بالخصوص ایک سیاہ دھبا ہے۔
 یہ واقعہ بیان کرتے ہوءے میں نے ' ہمارے پیارے نبی کی تذلیل کرنے کی کوشش' کا  کلمہ اس لیے استعمال کیا ہے کیونکہ ہمارے نبی اور عموما انبیا کا تو خیر الگ مقام ہے، اور بڑے لوگ بھی اپنی عزت یا تذلیل کے لیے دوسروں کی تحریر کے محتاج نہیں ہوتے۔ لوگ اپنے کاموں سے اپنا اونچا یا نیچا مقام بناتے ہیں، کسی کی اپنے بارے میں تحریر یا تقریر سے نہیں۔ یہ بات تو ہمیں قرآن بھی بتاتا ہے کہ عزت یا ذلت دینے والی ہستی تو صرف اللہ کی ہے۔ 
غازی علم دین نامی اس گمراہ شخص نے کس عظیم ہستی کی ناموس کی حفاظت کی؟ وہ عظیم آدمی کہ دشمن اس کا مذاق اڑاتے ہوں، اس پہ پھبتیاں کستے ہوں، اور وہ ان لوگوں کی بات کا ذرا برا نہ مناءے اور ان کے لیے دعا کرتا ہوا آگے بڑھ جاءے۔ وہ شخص کہ جس پہ مہینوں کسی گھر سے کچرا پھینکا جاتا ہو اور ایک دن اس عمل میں خلل آجاءے تو وہ مذکورہ گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر روز کچرا پھینکنے والی عورت کی خیریت معلوم کرے۔ اس عظیم شخص کی ناموس کا محافظ علم دین نامی یہ کمتر انسان ہو سکتا ہے؟ ذرا سوچیے کہ اگر علم دین کو ہمارے پیارے نبی کے سامنے پیش کیا جاتا تو ہمارے نبی اس بے وقوف شخص سے کیا کہتے۔ وہ یقینا کچھ پیار سے اور کچھ غصے سے اس جاہل آدمی کو سمجھاتے کہ ایک عظیم پیغام اور اس کے پیمبر کی ناموس کی حفاظت کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اس پیغام کے ماننے والے لوگ ہوش مند ہوں اور بہترین شہری بن کر دکھاءیں۔ وہ جذبات میں آکر خود انتظامیہ، خود عدالت، اور خود جلاد نہ بن جاءیں۔


Labels: , , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?