Monday, October 06, 2014

 

گردن کٹاءی والا اسلام اور کولونیا ایکسپریس




ستمبر چودہ،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چھ




نءی وجود میں آنے والی اسلامی خلافت کے پاس گلا کاٹنے کے لیے محبوس امریکی ختم ہوگءے تو اب انہوں نے اپنی قید میں موجود برطانوی شہریوں کی گردنیں کاٹنا شروع کردی ہیں۔ اسلامی خلافت کے یہ شرپسند اس قسم کے مسلمان ہیں جن کا اسلام جہاد سے شروع ہوتا ہے اور قطع ید اور گردن زنی پہ ختم ہوتا ہے۔
کچھ روز پہلے ایک محفل میں پھر وہی بحث چھڑی۔ وہ مسلمان، جو غالبا اکثریت میں ہیں، جو شدت پسندی کے اسلام کو غلط خیال کرتے ہیں، کہاں ہیں؟ وہ سامنے آکر ان شدت پسندوں کے کریہہ اعمال کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ مسلمان اکثریت کی اس خاموشی کی وجہ سے غیرمسلموں کو خیال ہوتا ہے کہ دراصل تمام مسلمان شدت پسندوں کے خاموش حامی ہیں۔ اس بحث میں یہ بات بھی واضح ہوءی کہ شدت پسندوں کی مذمت کی ذمہ داری مسلمان علماءے دین پہ ہوتی ہے۔ ہمارے جیسے لوگ جو دو ٹکے کے مولویوں کو پہلے ہی رد کرچکے ہیں؛ جو کسی شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے پہلے اس کے بارے میں معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آیا اس نے بہت سی غیراسلامی کتب پڑھی ہیں، کہ کہیں وہ محض رٹی رٹاءی احادیث اور قصاءص پہ تو کام نہیں چلا رہا، اور جاننا چاہتے ہیں کہ وہ شخص دوسرے فرقوں کے ماننے والوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے، شدت پسندوں کے خلاف اپنی راءے میں بہت زیادہ وزن نہیں رکھتے۔ ہم تو پہلے ہی معتوب ہیں۔ شدت پسندوں کی نظروں میں شاید کچھ اہمیت علماءے دین کی ہے۔ شدت پسندی کے خلاف پوری قوت سے بولنا ان علما کا فرض بھی ہے اور اس وقت کی اولین ضرورت بھی۔ اس کالم کے پڑھنے والوں سے ایک سادہ سوال ہے۔ اگر آپ کا جانا کسی مسجد میں ہوتا ہے، تو آیا آپ نے اس مسجد کے مولوی یا خطیب کو دو ٹوک الفاظ میں شدت پسندوں کی مذمت کرتے سنا ہے؟ اگر نہیں تو جان لیجیے کہ آپ اپنی موجودگی سے جن لوگوں کی حوصلہ افزاءی کررہے ہیں وہ دراصل طالبان ذہنیت رکھتے ہیں اور شدت پسندوں کے خاموش حامی ہیں۔
اور اب ایک پرانا قصہ۔ خرابی ساری یہ تھی کہ سفر پہ روانہ ہونے سے پہلے ہم نے سفر کی اس نوعیت کی تیاری نہیں کی تھی جس نوعیت کی تیاری عموما بجٹ مسافر کیا کرتے ہیں۔ کم خرچ میں سفر کرنے والے مسافر روانگی سے پہلے سفر کے ہر پہلو پہ خوب تحقیق کرتے ہیں۔ ہم نے ایسا کچھ نہ کیا۔ بس منہ اٹھا کر چل پڑے۔ چنانچہ بیونس آءریس پہنچ کر حیران تھے کہ وہاں سے اوروگواءے جانے کے لیے کونسا بحری جہاز استعمال  کریں۔ اوروگواءے کا شہر کولونیا، بیونس آءرس سے کچھ ہی فاصلے پہ سمندر کے دوسری طرف واقع ہے۔ بیونس آءرس اور کولونیا  کے درمیان تین مختلف جہاز راں کمپنیاں مسافروں کو لانے لے جانے کا کام کرتی ہیں: بوکے بوس، سی کیت، اور کولونیا ایکسپریس۔ ان تینوں کمپنیوں کے ٹکٹوں کی قیمتیں اسی ترتیب سے زیادہ سے کم تھیں یعنی بوکے بوس کا ٹکٹ سب سے مہنگا اور کولونیا ایکسپریس کا ٹکٹ سب سے سستا۔ کولونیا ایکسپریس کے کراءے بوکے بوس کے کراءے کے مقابلے میں تیس سے چالیس فی صد کم تھے۔ ظاہر ہے کہ ہمارا جھکاءو کولنیا ایکسپریس کی طرف تھا۔ انٹرنیٹ پہ کولونیا ایکسپریس کی بہت سی خرابیاں بیان کی گءیں تھیں۔ ایک مبصر نے لکھا تھا کہ اس کا تجربہ کولونیا ایکسپریس سے سفر کرنے کا ہوا؛ جہاز چھوٹا تھا اس لیے سمندر پہ اچھلتا کودتا چلا اور مسافر الٹیاں کرتے رہتے۔
وہ اتوار کا روز تھا اور سڑکوں پہ ٹریفک کم تھی۔ سورج نکلنے کے بعد موسم سرد نہیں رہا تھا۔ ہم اپنے ہوٹل سے نکلے اور قرطبہ نامی سڑک پہ چلتے ہوءے پوایرتو مدیرو پہنچے۔ ہم سمندر تک پہنچ چکے تھے۔ یہاں بوکے بوس کے ٹرمینل میں داخل ہوءے تو لگا کہ کسی جدید ہواءی اڈے کے اندر آگءے ہوں۔ سوٹ بوٹ میں ملبوس مسافر، ڈیزاءنر پرس اٹھاءے فیشن ایبل خواتین، اور ان کی خدمت میں موجود بنا ٹھنا عملہ۔ پیغام یہ تھا کہ بوکے بوس ایک معیاری کمپنی ہے۔ شرفا اور متمول افراد بوکے بوس پہ اعتماد کرتے ہیں۔ آپ جیسے ٹٹ پونجیوں کو بھی چاہیے کہ بوکے بوس سے سفر کریں تاکہ آپ کا رتبہ اور معاشرے میں مقام بلند ہو، آپ کو بھی عزت کی نظر سے دیکھا جاءے۔ ٹکٹ کی قیمت معلوم کی تو ہوش اڑ گءے۔ بے اختیار دل چاہا کہ بھاگ کر کولونیا ایکسپریس کی نرم گرم چھاءوں میں پہنچ جاءیں۔
وہاں سے نکلے تو ایک دفعہ پھر پورے معاملے پہ غور کیا۔ اندر سے ایک سوال اٹھا کہ اگر کولونیا ایکسپریس واقعی اتنی خراب کمپنی ہے تو اب تک اس کا کاروبار بند کیوں نہیں ہوگیا۔ روز ان کے کءی جہاز کولونیا جا رہے ہیں اور اتنی ہی دفعہ وہاں سے واپس بھی آرہے ہیں۔ اگر مسافر کولونیا ایکسپریس سے اتنے ہی بددل ہوتے تو کولونیا ایکسپریس کب کا اپنا بوریا بستر لپیٹ چکی ہوتی۔ کولونیا اکسپیریس کی اصل خرابی یہ سمجھ میں آءی کہ ان کا ٹرمینل  شہر کے سیاحتی مرکز سے دور واقع تھا۔ دو ہفتے کی چھٹی پہ آنے والے امیر مسافر سیاحتی علاقے سے باہر جانے کو زحمت خیال کرتے ہیں۔ ہم یقینا اس طرح کے مسافر نہیں تھے۔
کولونیا جانے کے لیے ٹکٹ کی خریداری میں ارجینٹینا کے کالے نرخ کا فاءدہ نہیں اٹھایا جاسکتا تھا کیونکہ یہ خرید صرف انٹرنیٹ پہ ممکن تھی اور وہاں کریڈٹ کارڈ  استعمال کرنا تھا۔ دیسی دماغ نے دو نمبر کام کی ایک ترکیب سوچی کہ کسی مقامی شخص کو راضی کریں کہ وہ اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہوءے ہمارا ٹکٹ خرید لے؛ پھر ہم اس کو پے سو میں اداءیگی کریں جو کہ کالے نرخ سے حاصل کیے گءے ہوں۔ مگر یہ ساری باتیں ہسپانوی میں کسی کو سمجھانا آسان کام نہ تھا۔ ہم نے انٹرنیٹ پہ اپنا ہی کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہوءے سرکاری نرخ پہ ٹکٹ خرید لیا۔
کولونیا جانے کے لیے جہاز میں چڑھنے سے پہلے یہ تیاری کی کہ پیٹ کو بہت حد تک خالی رکھا۔ سامان میں اوپر کچھ پھل رکھے کہ ایک دفعہ جہاز منزل پہ پہنچ گیا تو پھل کھاتے ہوءے کولونیا ایکسپریس کو دعاءیں دیں گے۔کولونیا ایکسپریس کے جہاز پہ بیونس آءریس سے کولونیا کا سفر بہت خوشگوار گزرا۔ نہ جہاز نے ہچکولے کھاءے، نہ کسی مسافر نے الٹی کی۔ البتہ ہمیں پیٹ خالی رکھنے کی سزا یہ ملی کہ کولونیا پہنچنے پہ اوروگواءے کے کسٹم حکام نے ہمارے پھل یہ کہہ کر ضبط کر لیے کہ اوروگواءے میں کسی قسم کے پھل، سبزی لانا منع ہے۔

Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?