Monday, October 06, 2014

 

نیلم احمد بشیر اور 'وحشت ہی سہی'






ستمبر اٹھاءیس،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو آٹھ


ادب زبان کے ایک خاص نشے کا نام ہے۔ اچھا ادب پڑھ کر، سن کر ایک خاص قسم کا خمار ذہن پہ چڑھتا ہے۔ میں ایسے ہی مخمور ذہن کے ساتھ آج کی اردو اکیڈمی کی محفل سے پلٹا ہوں۔ اس محفل کی مہمان خاص مشہور افسانہ نگار نیلم احمد بشیر صاحبہ تھیں۔  نیلم احمد بشیر موجودہ عہد میں اردو افسانے کا ایک بڑا نام ہے۔

نیلم احمد بشیر کے افسانوں کے لیے بعض ناقدین نے 'چونکا دینے والی کہانی' کا کلمہ استعمال کیا ہے۔ نیلم احمد بشیر کے افسانے ان لوگوں کے لیے چونکا دینے والے ہیں جو غفلت کا شکار ہیں، جنہوں نے جان بوجھ کر اپنی آنکھوں پہ فرسودہ اخلاقی اقدار کے پردے چڑھاءے ہوءے ہیں۔ نیلم احمد بشیر کے افسانے نءے دور کی کہانیاں ہیں۔ یہ اس دور کی کہانیاں ہیں جس میں تمام انسانی حاجات بے دھڑک زیر بحث آتی ہیں۔
نیلم احمد بشیر کی فن کہانی کو سمجھنے کے لیے اس افسانہ نگار کے اجزاءے ترکیبی کو سمجھنا ہوگا۔ اس سفر کا سب سے اول جز ایک ایسا بچپن ہے جہاں اپنے وقت کے بڑے بڑے قلمکار آس پاس نظر آتے ہیں، جہاں ادب کی کتابیں باآسانی دستیاب ہیں اور خوب مطالعے میں ہیں۔ پھر اس سفر کی اگلی منزل نیلم احمد بشیر کا شادی کے بعد باءیس سال کی عمر میں امریکہ آنا اور یہاں چودہ سال رہنا ہے۔ اس مدت میں کہانی نویس مغربی دنیا اور تہذیب کا بغور مطالعہ اور اپنے تمدن سے مستقل موازنہ کرتا ہے۔ پھر ایک اور جز امریکہ سے واپس جا کر پاکستان میں رہنے کا تجربہ ہے۔ ایک ایسے ملک میں رہنے کا تجربہ جو پے درپے ناکام حکومتوں کے عتاب سے مستقل تنزلی کی طرف ماءل ہے۔ پھر سفر کی اگلی منزل نوگیارہ کی دہشت گردی کے واقعات اور اس کے ردعمل میں آنے والی عالمی تبدیلیاں ہیں۔ یہ وہ تمام تجربات اور مشاہدات ہیں جن سے نیلم احمد بشیر کا جمالیاتی حس بنا ہے اور یہی وہ ملغوبہ ہے جس سے ان کی تمام کہانیاں کشید ہوءی ہیں۔
نیلم احمد بشیر پچھلے چالیس سالوں سے لکھ رہی ہیں۔ ان کی افسانہ نویسی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اول، ابتدا، جب ایک بیس اکیس سال کی لڑکی کہانیاں لکھنا شروع کرتی ہے اور اپنی نگارشات کو اساتذہ ادب کے سامنے پیش کرتی ہے۔ دور دوءم، جس میں قلم رک گیا ہے اور کہانی نویس کے سامنے ایک ساتھ ہزاروں ایسی کہانیاں آگءی ہیں جن کو افسانہ نگار اپنے احساس میں جذب کررہا ہے۔ اور پھر تیسرا دور جو اول اور دوءم دورکی ارتقاءی منزل ہے کہ جب کہانی نویس گھریلو ذمہ داریوں سے نسبتا آزاد ہے اور اسکا قلم بے تکان چل رہا ہے۔ ہم اس وقت نیلم احمد بشیر کے فن کے اسی تیسرے دور سے بہرہ مند ہورہے ہیں۔
یوں تو نیلم احمد بشیر نے کءی کتابیں لکھی ہیں؛ گلابوں والی گلی، جگنوءوں کے قافلے؛ لے سانس بھی، ستمگر ستمبر؛ ایک تھی ملکہ؛ اور چار چاند؛ مگر اردو اکیڈمی کی ستمبر محفل بالخصوص نیلم احمد بشیر کی تازہ کتاب 'وحشت ہی سہی' کی تقریب تعارف تھی۔
اس تقریب تعارف کا آغاز اردو اکیڈمی کے بانی اور روح رواں تاشی ظہیر صاحب نے نیلم احمد بشیر کے فن اور شخصیت پہ لکھے گءے ایک مختصر مضمون سے کیا۔ سان فرانسسکو بے ایریا کی جانی پہچانی کہانی نویس مریم تراب اور ماضی کی ٹی وی اداکارہ صحاب ہمدانی نے وحشت ہی سہی کی بعض کہانیوں پہ اپنے تبصرے پیش کیے۔
نیلم احمد بشیر کی کہانیاں پڑھنے والا نیلم احمد بشیر کی صاف گوءی سے متاثر ہوءے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نیلم احمد بشیر نہایت سچاءی سے ان تمام حقیقتوں کو کہانیوں کے روپ میں بیان کردیتی ہیں جو ان کو اپنے آس پاس نظر آتی ہیں۔
نیلم احمد بشیر کے افسانے جدید دور کے افسانے ہیں۔ یہ افسانے ان روایتی کہانیوں سے جدا ہیں جن میں کہانی اپنے کسی منطقی انجام تک پہنچتی ہے۔ روایتی کہانیوں کا اختتام یوں ہوتا ہے کہ شہزادے اور شہزادی کی شادی ہوجاتی ہے اور رعایا ہنسی خوشی رہنے لگتی ہے، یا ایک سیلابی ریلا آتا ہے اور سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ نیلم احمد بشیر کی کہانی نویسی کسی ایک قوی مشاہدے کو تخیل کا تڑکا لگا کر قصے کا لبادہ اوڑھانے سے عبارت ہے۔ کہانی نویسی کے اس انداز کو نیلم احمد بشیر کے افسانے 'اندر کا رنگ' پڑھ کر سمجھا جاسکتا ہے۔ اس افسانے میں کرنل سبحان اپنے اردلی کو مستقل ڈانٹتے ڈپٹتے رہتے ہیں۔ جب اردلی بازار سے تربوز لاتا ہے اور تربوز کاٹنے پہ اندر سے لال نہیں نکلتا تو کرنل سبحان اردلی کو سخت سست کہتے ہیں جس پہ کرنل سبحان کی بیوی بہت کڑھتی ہیں۔ یہ تربوز اندر سے لال نہ نکلنے والا واقعہ کءی بار ہوتا ہے اور ایک دن اردلی غصے میں چھری کرنل سبحان کے پیٹ میں گھونپ دیتا ہے۔ "کیوں کرنل صاحب، تربوز کو اتنا لال ہونا چاہیے۔۔۔بتاءیے کرنل صاحب۔ اندر کا یہ رنگ ٹھیک ہے نا؟" اردلی ہذیانی کیفیت میں چیختا جاتا ہے اور وار کرتا جاتا ہے۔ کہانی یہیں ختم ہوجاتی ہے۔
اسی افسانے میں ایک جگہ کرنل سبحان کی بیوی کا دل جوان اردلی پہ آیا تھا اور قاری کو بعد میں بتایا جاتا ہے کہ کرنل سبحان کی بیوی کا نام زلیخہ اور اردلی کا نام یوسف ہے مگر یہ قاری کا کام ہے کہ وہ اس کہانی کا منطقی انجام تلاش کرنے کی کوشش کرے کہ آیا اردلی کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد کرنل سبحان کو زلیخہ اور یوسف نے مل کر وہیں گھر کے پچھواڑے میں دفن کردیا اور دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے، یا اردلی کو پولیس پکڑ کر لے گءی۔
سچاءی اور آزاد خیالی جو نیلم احمد بشیر کی کہانیوں میں جگہ جگہ نظر آتی ہے اس کی مثال 'عشق کی ایک جست' نامی افسانے میں صاف نظر آتی ہے۔ یونیورسٹی آف نارتھ کیرولاءینا کی مسلمان طالبات اپنے طور پہ مذہبی روایات اور جدید دور کے تقاضوں کی گتھی سلجھانے کی کوشش کررہی ہیں۔ ایک مسلمان عالمہ ان کو بتاتی ہے کہ عشق ایک وقتی جذبے کا نام ہے، مرد اور عورت کے درمیان شادی زیادہ مضبوط بندھن ہے۔ مگر پھر یہ لڑکیاں 'سیونگ فیس' نامی ڈاکیومینٹری دیکھتی ہیں جس میں شوہر اپنی بیویوں کے منہ پہ تیزاب ڈال رہے ہیں، اور ساتھ ہی کولوراڈو کے ایک سینما ہال میں قتل و غارت گری کا وہ واقعہ ہوتا ہے جس میں ایک مسلح ذہنی مریض ایک سینما ہال میں داخل ہو کر لوگوں پہ گولیاں برسانا شروع کرتا ہے۔ فلم بینوں میں کءی جوڑے ہیں۔ ان میں سے کءی مرد چھلانگ لگا کر اپنی محبوبہ کے سامنے آ جاتے ہیں تاکہ ان کی محبوبہ گولیوں کی زد سے محفوظ رہے اور اس عمل میں  یہ نوجوان اپنی جان دے دیتے ہیں۔ عشق کی اسی جست کو دیکھ کر یہ طالبات ایک فکری جست میں عشق اور شادی کی حقیقتیں سمجھ جاتی ہیں۔
وحشت ہی سہی کا ایک افسانہ 'حاجت روا' بھی ایسی ہی کہانی ہے جو آپ کو زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کرے گی۔ ایک حاجی صاحب اپنے لنگر سے غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں، اور ان ہی غریبوں میں ہیجڑے بھی شامل ہیں۔ حاجی صاحب ایک اور حج کرنے کے لیے مکہ جاتے ہیں اور وہیں انتقال کرجاتے ہیں۔ ان کے انتقال پہ سوگ کا اعلان ہوتا ہے اور ہیجڑے بھی سوگ میں ناچنا بند کردیتے ہیں۔ مگر پھر کچھ ہی دن میں پیٹ پالنے کے لیے ناچنا گانا پھر شروع ہوجاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ حاجی صاحب حج پہ روانہ ہونے سے پہلے اپنے پسندیدہ ہیجڑے الماس کو سلیکون کی چھاتیاں لگوا گءے تھے۔
نیلم احمد بشیر کی کہانیوں میں آپ اکثر ایسے لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں جو آپ کو اپنے آس پاس نظر آءیں گے۔ امریکہ میں رہنے والوں کے لیے نیلم احمد بشیر کا افسانہ، 'کھڑکی کا منظر' ایک ایسا ہی افسانہ ہے۔ قدیر اور شہناز ریاست نیویارک میں رہتے ہیں اور بہت محنت سے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے اچھے علاقے میں ایک بڑا گھر لے لیا ہے، مگر اپنی اپنی نوکریوں میں مصروفیت کی وجہ سے انہیں گھر کے کام کاج کا وقت نہیں ملتا۔ پھر بہت کوشش سے قدیر کی ماں ان کے پاس امریکہ آجاتی ہے۔ اب ماں گھر کی صفاءی ستھراءی کا کام کرتی ہے اور کھانے بناتی ہے۔ اماں گھر کے کام کاج مکمل کر کے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتی ہیں جہاں انہیں اکثر ایک بوڑھا نظر آتا ہے جو اپنے گھر سے صرف ڈاک لینے اور کوڑا باہر پھینکنے کے لیے نکلتا ہے۔ ایک دن وہ بوڑھا سڑک پہ گرجاتا ہے۔ اماں گھر سے باہر نکل کر بوڑھے کی مدد کے لیے دوڑتی ہیں۔ گھر کا دروازہ کھلنے پہ گھر کا الارم بول اٹھتا ہے؛ پولیس آجاتی ہے۔ شام کو قدیر اور شہناز اماں سے گھر کا الارم بجنے اور پولیس کے آنے پہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔
نیلم احمد بشیر کمال کی مزاح نگار بھی ہیں۔ سب سے اعلی پاءے کے مزاح نگار وہ ہوتے ہیں جو قاری کو اپنے آپ یعنی مزاح نگار پہ ہنساتے ہیں۔ نیلم احمد بشیر کی اعلی مزاح نگاری کا ایسا ہی ایک نمونہ چار چاند نامی کتاب میں 'تھوڑا سا گلہ بھی' کے عنوان سے ہے۔ اس مضمون کو پڑھ کر آپ ہنس ہنس کر دہرے نہ ہوجاءیں تو سمجھ جاءیے گا کہ آپ حس لطیف سے محروم ہیں۔
نیلم احمد بشیر کے تعارف میں اکثر بتایا جاتا ہے کہ ان کا تعلق فلاں خاندان سے ہے یا یہ کہ نیلم احمد بشیر فلاں کی بہن ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نیلم احمد بشیر کو اپنی شناخت کے لیے ایسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ نیلم احمد بشیر کی شناخت ان کا قلم ہے۔ وہ اپنے مضبوط قلم اور جدا اسلوب کے سہارے بہت اونچاءی پہ کھڑی ہیں۔
اردو اکیڈمی کی ستمبر اٹھاءیس کی محفل میں ڈیڑھ سو کے قریب لوگ شریک ہوءے۔ اس محفل کی آڈیو ریکارڈنگ یہاں ملاحظہ کیجیے۔



Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?