Tuesday, August 19, 2014

 

پارچے

جون تیرہ سے اگست سترہ تک سفر میں رہا۔ اس درمیان اس بلاگ پہ تازہ مواد نہ ڈال سکا۔ البتہ ہفتہ وار کالم لکھنے کا کام جاری تھا۔ اب موقع ملا ہے تو پرانے کالم یہاں شاءع کررہا ہوں۔



جون پندرہ،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو  ترانوے


پارچے


بہت سے خیالات ذہن میں ہیں۔ ان سب کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ یہ فیصلہ آپ کیجیے گا۔


اول- میں جس جگہ بیٹھا یہ سطور لکھ رہا ہوں اس سے کچھ فاصلے پہ دیوار کے سہارے لیموں کا ایک پودا بڑا ہورہا ہے۔ وہیں ایک چڑیا نے گھونسلہ بنایا اور کچھ ہی دنوں میں گھونسلے سے چھوٹے چھوٹے بچوں کے چہچہانے کی آوازیں آنے لگیں۔ چڑا اور چڑیا صبح و شام اپنے بچوں کے کھانے کا انتظام کرتے نظر آتے۔ چڑیا اور چڑا اپنے طور پہ بہت چالاکی سے، خفیہ طور سے گھونسلے میں داخل ہوتے تھے۔ وہ پہلے ایک درخت کی شاخ پہ بیٹھتے، ادھر ادھر دیکھتے؛ پھر اڑ کر دوسرے درخت کی شاخ پہ جا بیٹھتے، اور پھر وہاں سے آس پاس کا جاءزہ لینے کے بعد مطمءن ہو کر جلدی سے اپنے اس گھونسلے میں گھس جاتے جو پتوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ چڑا چڑیا کی اتنی خفیہ کارواءی کے باوجود ایک چھوٹے لڑکے نے گھونسلے کو دیکھ لیا۔ پرندوں کا یہ جوڑا شاید ناتجربہ کار تھا؛ اسی لیے انہوں نے گھونسلہ اس قدر نیچے بنایا تھا۔  لڑکے نے گھونسلے کو قریب سے دیکھا تو اس میں دو چھوٹے بچے موجود تھے۔ وہ اتنے چھوٹے تھے کہ ان کی آنکھیں بھی نہیں کھلی تھیں۔ میں نے لڑکے کو بہتیرا سمجھایا کہ وہ گھونسلے سے دور رہے مگر اس نے عادت بنا لی تھی کہ آتے جاتے گھونسلے میں ضرور جھانکتا۔ چڑیا کے بچے بڑے ہوءے تو ان کی آنکھیں کھل گءیں۔ پھر ایک روز لڑکے نے گھونسلے کو قریب سے دیکھا تو چڑیا کے بچے اس مخلوق کو اپنے ٹھکانے سے اس قدر قریب دیکھ کر ڈر گءے؛ انہوں نے جھٹ گھونسلے سے باہر چھلانگ لگا دی۔ ان کے پر مکمل نہ ہوءے تھے اس لیے گھونسلے سے گرنے کے بعد وہ پھدک پھدک کرچلنے لگے۔ مجھے خیال ہوا کہ اس ظالم دنیا میں چڑیا کے اتنے چھوٹے بچے گھونسلے سے باہر زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ پاءیں گے مگر دو دن بعد اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہاں سے ایک بلی گزری اور چڑیوں نے شور مچا مچا کر آسمان سر پہ اٹھا لیا۔ چڑیا کے بچے زندہ تھے اور وہیں کسی جھاڑی میں چھپے ہوءے تھے؛ والدین شور مچا مچا کر بچوں کو بلی سے ہوشیار کررہے تھے۔
اس وقت تو چڑیا کے بچے مجھے نظر نہیں آءے مگر ایک دن بعد میں نے انہیں پھر وہیں دیکھا۔ اب وہ چھوٹی چھوٹی اڑان بھرنے لگے تھے۔ لگتا تھا کہ اگر عافیت کے چند دن اور گزر گءے تو وہ بچے زمین پہ چلنے والے جانوروں کی دسترس سے دور ہو کر محفوظ ہو جاءیں گے۔

دوءم۔ ٹی وی پہ ایک اچھی ڈاکیومینٹری فلم چل رہی ہے۔ ایک منظر میں دکھایا جاتا ہے کہ ایک سگ ماہی [سیل] اپنے بچوں کے ساتھ ساحل پہ موجود ہے۔ بچے پانی میں ہیں اور اچھل کود کررہے ہیں۔ اتنے میں ایک شارک نمودار ہوتی ہے اور اپنی ماں سے دور ہوجانے والے ایک بچے کو دبوچ کر پلٹ جاتی ہے۔ ماں سگ ماہی منہ کھول کر ایک دلدوز چیخ بلند کرتی ہے مگر اس بلند آواز فریاد سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکتی۔

سوءم۔ نوے کی دہاءی کا کراچی ہے۔ جاءیداد کے کاروبار میں ہلچل مچی ہوءی ہے۔ شاطر ساہوکار ایک جاءیداد خریدتے ہیں اور کچھ دنوں بعد اسے زیادہ قیمت پہ بیچ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک نوجوان جاءیداد کی خریدوفروخت کا کام اچھی طرح جانتا ہے۔ اس کا کاروبار خوب چل رہا ہے۔ وہ مجھ سے بہت تپاک سے ملتا ہے۔ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹا ہے مگر اپنی لمبی داڑھی میں سفید بالوں کی جھالروں کی وجہ سے عمر میں بڑا نظر آتا ہے۔ اس کی شادی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ اس کے دو چھوٹے بچے ہیں۔ لڑکا بڑا ہے، اور لڑکی اس سے چند سال چھوٹی۔ ایک دن وہ بہت پریشانی میں نظر آتا ہے۔ میں وجہ پوچھتا ہوں؟ وہ بتاتا ہے کہ کل سے اس کی بیٹی غاءب ہے؟ کیوں، کیسے؟ وہ بتاتا ہے کہ اس کے دونوں بچے ہر روز گھر کے بالکل سامنے میدان میں کھیلنے جاتے تھے۔ لڑکے کو روز تاکید کی جاتی تھی کہ اپنی چھوٹی بہن کا خیال رکھے۔ کل بھی دونوں ساتھ کھیلنے گءے تھے۔ مگر شام پڑنے پہ صرف لڑکا واپس آیا۔ لڑکے نے بتایا کہ اس نے کھیلنے کے بعد اپنی بہن کو بہت تلاش کیا مگرپورے میدان میں وہ کہیں نہیں ملی۔ میں نے نوجوان کو کھری کھری سناءیں۔ 'دیوانے ہوءے ہو، چھ سال کے لڑکے سے چار سال کی لڑکی کی حفاظت کرواتے ہو؟' قصہ مختصر، ایک دن گزرا، دو دن گزرے، ہفتہ گزرا، مگر وہ بچی نہ ملی۔ میں دو تین سال بعد نوجوان سے پھر ملا۔ اب اس کی داڑھی مکمل طور پہ سفید ہوچکی تھی۔ اس سے کچھ ہی دیر کی گفتگو میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ بیٹی کے اغوا نے اس کےذہن پہ برا اثر ڈالا تھا؛ وہ اچھی خاصی بات کرتے ہوءے درمیان میں کوءی بے تکی بات کرجاتا۔ اس کے روانہ ہونے کے بعد میں سوچتا رہا کہ کیا اس کی اغوا شدہ لڑکی اب تک زندہ ہے۔ اگر زندہ ہے تو کہاں ہے، اور کس حال میں ہے؟


Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?