Tuesday, December 03, 2013

 

مصیبت کو نعمت بنانے کا فن



دسمبر ایک،  دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم 
کالم شمار ایک سو چھیاسٹھ

مصیبت کو نعمت بنانے کا فن

زندگی غیریقینی سے بھری ہے۔ یہ پل بھر میں آپ کو ایک جگہ سے دوسری یکسر مختلف جگہ پہنچا دیتی ہے۔ انسان سکون سے ہوتا ہے کہ اچانک زندگی پینترا بدلتی ہے اور انسان مشکل میں گھر جاتا ہے۔ میں بھی زندگی کے مختلف داءو پیچ سے نبردآزما رہتا ہوں۔ مگر اچھا ہوا کہ بہت سے لوگوں کی زندگی کا مشاہدہ کرنے کے بعد، کءی داناءوں کی نصیحتیں سننے کے بعد، اور زندگی سے اتنی دیر تک جوجنے کے بعد مجھے ایک سبق بہت اچھی طرح سمجھ میں آگیا ہے۔ اور وہ یہ کہ جب کبھی مصیبت آءے تو یہ غور کرو کہ اس مصیبت کو پلٹ کر اپنے لیے نعمت کیسے بنا سکتے ہو۔ راحت کی گھڑی کی نعمت کو سمجھنا تو سب کے لیے آسان ہے؛ اپنے اوپر آنے والی مصیبت کو اپنے فاءدے کے لیے استعمال کرنا اصل کمال ہے۔ اورجس نے ایسا کرلیا وہ جیت گیا۔ پچھلے بدھ کو میرے ساتھ ایسا ہی واقعہ ہوا۔ میں نے سارا دن مرینا نامی قصبے میں ایک دفتری مصروفیت میں لگایا تھا۔ اب شام ہوچلی تھی اور ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔مصروفیت ختم ہونے کے بعد میں گاڑی میں آکر بیٹھا اور چابی اگنیشن میں لگا کر گھماءی تو محض ایک ٹک کی آواز آءی اور انجن بالکل بے جان رہا۔ گاڑی کی بیٹری بیٹھ گءی تھی۔ میں نے فورا گاڑی کی بتی کے سوءچ کو دیکھا۔ گاڑی کی بتی جل رہی تھی۔  واضح تھا کہ جب میں اپنی کاروباری مصروفیت سے گیا تو گاڑی کی بتی کھلی چھوڑ گیا تھا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ مجھے آخر دن میں گاڑی کے لمپ جلانے کی ضرورت کیوں پیش آءی۔ ہوا یوں کہ میں سلیناز نامی شہر سے مرینا آیا تھا۔ اس راستے میں ایک جگہ سڑک دورویہ ٹریفک کی وجہ سے خطرناک ہے۔ وہاں روڈ کے ساتھ تاکیدی ساءن لگا ہے کہ گاڑی کی بتی کھول لی جاءے۔ میں نے ایسا ہی کیا مگر مرینا پہنچ کر بتی کو بند کرنا بھول گیا۔ قصہ مختصر یہ کہ پانچ گھنٹے بعد گاڑی کی بیٹری بیٹھ چکی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ جن لوگوں سے مل کر نکلا تھا ان کے پاس واپس جاءوں اور تلاش کروں کہ ان میں سے کسی سے جمپر کیبل مل جاءے۔ مگر پھر میں نے ایسا کرنا مناسب خیال نہ کیا کہ ان لوگوں سے کاروباری رشتہ تھا اور اس رشتے میں یوں سوالی بننا اچھا نہ تھا۔ میں نے گاڑی کی انشورینس کمپنی کو فون کردیا۔ انہوں نے ساری تفصیلات لینے کے بعد مجھے بتایا کہ میری مدد کے لیے ایک ٹرک چالیس منٹ میں آءے گا۔ مجھے سلیناز واپس پہنچنے کی جلدی تھی اور یہ لوگ مجھے چالیس منٹ انتظار کرنے کو کہہ رہے تھے۔ میں نے فون تو رکھ دیا مگر میرے اندر اس ناگہانی مصیبت پہ ایک غصہ امڈنے لگا۔ اچھا ہوا کہ اسی وقت مجھے وہ پرانا سبق یاد آگیا۔ مصیبت کو پلٹ کر اپنے لیے نعمت بنا لو۔ میں نے سوچا کہ میں ان چالیس منٹوں میں کیا تعمیری کام کرسکتا تھا۔ میرا لیپ ٹاپ چارج حالت میں تھا اور میں اس پہ کام کرسکتا تھا۔ جو بہت سے دفتری کام مجھے کرنے تھے ان میں پہلا کام کیمرے سے تصویروں کو کمپیوٹر پہ ڈاءون لینڈ کرنے کا تھا۔ میں نے لیپ ٹاپ نکالا، کیمرے اور لیپ ٹاپ کو یو ایس بی سے جوڑا اور کیمرے سے تصویریں کمپیوٹر میں ڈاءون لوڈ کرنے لگا۔ میں نے ابھی یہ کام شروع ہی کیا تھا کہ فون کی گھنٹی بج گءی۔ دوسری طرف موجود خاتون نے بتایا کہ میری مدد کے لیے آنے والا ٹرک میرے پتے کے بالکل قریب تھا؛ انہیں معلوم کرنا تھا کہ میری گاڑی اندر پارکنگ لاٹ میں کہاں کھڑی ہے۔ میں نے گاڑی کی جگہ انہیں بتانے کے بعد فون بند کردیا۔ کہاں یہ ٹرک چالیس منٹ میں آرہا تھا اور کہاں اب یہ پانچ منٹ میں ہی پہنچا جارہا تھا۔ اب مجھے جلدی ہوءی کہ ٹرک کے آنے سے پہلے کیمرے سے کمپیوٹر میں تصاویر کی منتقلی کا کام مکمل ہوجاءے۔ میں نے کچھ ہی دیر میں ٹرک کو پارکنگ لاٹ کے اندر آتے دیکھا تو گاڑی سے باہر نکل کر کھڑا ہوگیا اور زور زور سے ہاتھ ہلا کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ ٹرک والے نے میری گاڑی کو جمپ اسٹارٹ دیا اور ذرا سی دیر میں وہاں سے روانہ ہوگیا۔ کچھ دیر بعد جب میں دوبارہ روڈ پہ تھا تو میں ترون تیجپال کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اس وقت تک ترون گرفتار نہیں ہوا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا ترون کو بھی زندگی کا یہ اہم سبق ازبر ہے۔ اور ترون کے لیے ضروری تھا کہ اس نے داناءوں کی یہ نصیحت  گرہ سے باندھ لی ہو کیونکہ ایک ہفتے پہلے ترون تیج پال کی شہرت محض ایک خاص حلقے میں تھی۔ مگر اس پہ لگنے والے حالیہ الزامات کے بعد ترون کا نام بھارت میں ہرعام و خاص کی زبان پہ اور جنوبی ایشیا میں دلچسپی رکھنے والے زیادہ تر لوگوں کی گفتگو میں آگیا تھا۔ ہاں، یہ شدید مصیبت کا وقت ہے ترون پہ، مگر ترون یہ بھی تو دیکھے کہ وہ کس طرح راتوں رات بہت زیادہ  بدنام [مشہور] ہوگیا ہے۔ اگر اس کے ساتھی صحافی، ترون کا تہلکہ میگزین چھوڑ کر جابھی رہے ہیں تو کیا ہوا، ترون کو چاہیے کہ تہلکہ کا اگلا شمارہ ضرور نکالے۔ اور اگلا شمارہ اس شان سے نکالے کے خود پیچھے ہٹ کر کسی دوسرے صحافی کو ترون سے متعلق خبر بیان کرنے دے۔ یہ تو وہ ساری باتیں تھیں جو مرینا سے سلیناز جاتے ہوءے میں سوچ رہا تھا۔ مگر ترون ایسا نہ کرپایا۔ یہ سیلاب ترون کے حوصلے سے کہیں بڑا تھا۔ دوسرے صحافیوں کے علاوہ ترون کی ساتھی ایڈیٹر شمع چوہدری نے بھی تہلکہ سے استعفی دے دیا۔ اور اب تازہ خبر یہ ہے کہ ترون کی عبوری ضمانت کی مدت ختم ہونے پہ ترون کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ترون اس وقت جیل میں ہے۔ مگر جیل میں ترون کو یہ پیغام ضرور پہنچنا چاہیے کہ اس پہ آنے والا یہ مشکل وقت بھی گزر جاءے گا؛ اب بھی ترون یہی سوچے کہ اس مصیبت کو پلٹ کر اس سے اپنی مستقبل کی راحت کا انتظام کیسے کرے۔

Labels: , , , , , , , ,


Comments:
جناب سمندطور صاحب، یہ زمانے کا دستور ہے۔ اگر نیکی کرنا آسان ہوتا تو ہر دوسرا انسان نیکی کر رہا ہوتا۔ اگر آپ راشیوں کے خلاف بات کریں گے تو وہ آپ کا ریشہ ریشہ علیحدہ کرنے پر تل جائیں گے۔ اور اگر آپ زانیوں کے خلاف بات کریں گے تو وہ آپ کا ریپ کرنے پر تل جائیں گے۔ ارون نے جو کچھ کیا وہ اس کے من چلے کا سودا تھا۔ برائی باہر سے جتنی بڑی نظر آتی ہے اندر سے اتنی ہی چھوٹی ہوتی ہے۔
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?