Sunday, September 29, 2013

 

پشاور گرجا گھر حملہ، بلوچستان میں زلزلہ



ستمبر انتیس، دو ہزار تیرہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو ستاون

پشاور گرجا گھر حملہ، بلوچستان میں زلزلہ

پاکستان میں کمزور ہونا ایک عذاب ہے۔ وہ ممالک جہاں قانون کی چادر کمزور کے سر سے اٹھ جاءے اور جہاں طاقت کے زور پہ کام ہونے لگے وہاں لامحالہ کمزور افراد سب سے بری طرح پستے ہیں۔ اپنے عقاءد کی وجہ سے ملک کی اکثریت سے مختلف ہونا، معاشی طور پہ مضبوط نہ ہونا، تعلیم یافتہ نہ ہونا، جسمانی طور پہ کمزور ہونا، اور ایسے معاشرے میں عورت ہونا جہاں عورت کو کم عقل، مرد سے نیچا، اور مرد کی کھیتی سمجھا جاتا ہو، یہ سب 'کمزوری' کی مختلف شکلیں ہیں۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں سے مراد ہندو، عیساءی، اورسکھ ہوتے تھے۔ [یوں تو پارسی بھی مذہبی اقلیت ہیں مگر وہ اپنی معاشی اور تعلیمی طاقت کے زور پہ لاقانونیت کے وار کو سنبھال لیتے ہیں۔] وقت آگے بڑھا اور اسلام کے ٹھیکیداروں نے احمدیوں کوداءرہ اسلام سے خارج کر کے اقلیت ٹہرایا۔ اقلیت کے اس داءرے میں اب آغاخانی، بوہرے، شیعہ، اور بریلوی بھی شامل نظر آتے ہیں۔ غرض کہ پاکستان میں جو شخص بھی سنی سلفی نہیں ہے اقلیتی ہے اور وہ مار کھانے کے لیے تیار ہوجاءے۔ اس مار سے بچنے کے لیے اسلام کے داءرے سے باہر اور اندر کی یعنی کلمہ گو اقلیتوں نے اپنے اپنے طور پہ اپنی حفاظت کا انتظام کیا ہے اور دہشت گردی کے ہر واقعے سے سیکھ کر مزید انتظام کرتے جارہے ہیں مگر اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس جنگل میں دہشت گردوں کو کہیں نہ کہیں غافل اقلیتیں مل ہی جاتی ہیں جن پہ یہ وار کر کے یہ شرپسند اپنے لیے دوزخ کماتے ہیں۔  پچھلے اتوار کو ایسا ہی ایک دہشت گردی کا واقعہ پشاور کے ایک گرجا گھر میں ہوا۔  دو جہنمی خودکش حملہ آوروں کے حملے میں اسی سے اوپر لوگ ہلاک ہوءے۔ جہاں مجھے اس واقعے پہ بہت افسوس ہوا وہیں کسی قدر تعجب بھی ہوا کہ پشاور کے یہ عیساءی اس قدر غافل کیوں تھے۔ ریاست کی اظہر من الشمس ناکامی کے بعد انہوں نے حالات کا رخ دیکھتے ہوءے اپنی حفاظت کا انتظام خود کیوں نہیں کیا؟  تعجب اس وقت بھی ہوتا ہے جب ایسے کسی واقعے کے بعد لوگ حکومت پاکستان سے احتجاج کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومتی مشینری ان کی حفاظت کا بہتر انتظام کرے۔ کیا ان لوگوں کو نظر نہیں آرہا کہ حکومت پاکستان کی رٹ دن کے اجالے میں بس کہیں کہیں ہی چلتی ہے اور پاکستان میں ایسے مسلح گروہ موجود ہیں جو جس وقت چاہتے ہیں حکومت کی رٹ کو للکارتے ہیں اور دوسری طرف سے محض بکری کی ممیانے کی آواز سناءی دیتی ہے؟ کیا ان لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ حکومت کے اعلی عہدیداران خود ڈرے سہمے، مسلح گارڈ کے ساتھ چلتے ہیں؟  پاکستان کی اقلیتوں کو کس دیوار پہ جلی حروف میں لکھ کر بتایا جاءے کہ 'پاکستان ایک ناکام ریاست ہے؛ اپنی حفاظت کا انتظام خود کرو'؟  اگر اکیلے ہو، اقلیتی ہو، کمزور ہو تو جس قدر جلد ہوسکے پاکستان سے بھاگ نکلو۔  اگر ایک ناکام ریاست میں رہنے پہ بضد ہو اور گروہ کی صورت میں ہو تو اپنے گروہ کے گرد ایک حفاظتی حصار قاءم کرو اور اس حصار کی حفاظت یقینی بناءو۔
جہاں ایک طرف پاکستان کے لوگ ایک دوسرے کو مارنے میں لگے ہیں وہیں کسی قدرتی آفت کے آنے پہ غریب ہونے، تعلیم یافتہ نہ ہونے، اور آفت سے نمٹنے کی اچھی تیاری نہ ہونے کی سزا بھی ان لوگوں کو خوب خوب ملتی ہے۔ بلوچستان میں آنے والا حالیہ زلزلہ اسی سزا کی ایک مثال ہے۔ یہ بھی ریاست کی ناکامی کا ایک پہلو ہے کہ اگر بلوچستان کسی اچھی ریاست کا حصہ ہوتا تو سنہ ۲۰۰۳ کے ایران کے مشرق میں بم کے علاقے میں آنے والے زلزلے کے بعد بلوچستان کے گھروں کا جاءزہ لیا جاتا اور مکینوں کو بتایا جاتا کہ ممکنہ زلزلے سے نمٹنے کے لیے گھروں کی تعمیر کس طرح سے کی جاءے۔
جہاں ایک طرف طالبان پاکستان کی مٹی پلید کرنے پہ تلے ہوءے ہیں وہیں دوسری طرف سیاسی قیادت انگشتت بدنداں ہے کہ طالبان سے کیسے نمٹا جاءے۔ ایسے میں عمران خان نے تجویز پیش کی ہے کہ طالبان کو پاکستان میں دفتر کھولنے کی اجازت دی جاءے۔ طالبان کے مستقل معصوم لوگوں کا قتل عام کرنے کے ردعمل میں بہت سے لوگ عمران خان کی اس تجویز کے خلاف ہیں۔ عمران خان کو سیاسی سوجھ بوجھ کا آءن اسٹاءن کہنا تو صحیح نہ ہوگا مگر ان کی مذکورہ تجویز وزن رکھتی ہے۔ اب تک طالبان ایک غیرمرءی طاقت کا نام ہے جس کا گڑھ شمالی وزیرستان ہے۔ عوام پہ ہونے والے ہر حملے کے بعد طالبان کی طرف سے محض ایک فون موصول ہوتا ہے جس کے ذریعے طالبان حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت دے کر اس ہیولے کو ایک واضح شکل دینا ایک احسن قدم ہوگا۔ طالبان کا دفتر ہونے کی صورت میں ہمارا اس دفتر کے سامنے مظاہرہ کرنا آسان ہو جاءےگا۔ اور دفتر میں بیٹھنے والے لوگوں کو یہ سوچنا ہو گا کہ طالبان کی طرف سے ہونے والے کسی حملے کے بعد وہ دفتر میں بیٹھ کر لوگوں کا سامنا کس منہ سے کریں۔
بلوچستان میں آنے والے زلزلے کے بعد گوادر کے ساحل کے ساتھ سمندر میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ابھر آیا۔ چند ارضیات دانوں کا خیال ہے کہ یہ جزیرہ دراصل ایک کیچڑ فشاں [مڈ وولکینو] ہے۔  مجھے اس موقع پہ باکو سے کچھ فاصلے پہ موجود کیچڑ فشاں کا دورہ یاد آیا۔
سفر تعلیم ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ سفر سب سے اچھی تعلیم ہے کہ سفر میں آپ کے مشاہدے میں وہ ساری باتیں آجاتی ہیں جو الگ الگ، مختلف علوم کی کتابوں میں تحریر ہوتی ہیں۔ آپ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا مشاہدہ کرتے ہیں، دوسری معیشت میں کودتے ہیں، پہاڑوں دریاءوں کو دیکھتے ہیں اور ارضیات کے علم کو مشاہدے سے سیکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے میرے لیے باکو کے قریب واقع گوبستان کے کیچڑ فشاں اہم تھے۔ جس طرح آتش فشاں آگ اگلتے ہیں اسی طرح کیچڑ فشاں [مڈ وولکینوز] کیچڑ اگلتے ہیں۔ گوبستان نامی قصبے کے کیچڑفشاں باکو سے چند میل کے فاصلے پہ ہیں۔ ہمارے ہوٹل کے استقبالیہ کی بہت کوشش تھی کہ میں کیچڑ فشاں جانے کے لیے ان کی بتاءی گءی ٹیکسی لے لوں مگر ان کے نرخ زیادہ تھے۔ میں نے اپنی سفری کتاب کا مطالعہ کیا اور پھر انٹرنیٹ پہ تحقیق کی تو اندازہ ہوا کہ گوبستان کا سفر نہایت ارزاں طور پہ بسوں سے کیا جاسکتا تھا۔ طے پایا کہ میٹرو سے اچھرہ شہر [باکو کا قدریم اندرون شہر] پہنچوں۔ وہاں سے ایک بس سے ایک جگہ۔ پھر اگلی بس سے گوبستان۔ اور پھر گوبستان پہنچ کر ٹیکسی لےلوں اور سیاحتی مقامات کی سیر کروں۔ ان قابل دید مقامات میں کیچڑ فشاں کے علاوہ وہ چٹانیں بھی تھیں جن پہ بنی شکلیں قریبا نو ہزار سال پرانی تھیں۔ زبان کی تحریر محض سات آٹھ ہزار سال پرانا علم ہے۔ اس سے پہلے لوگ محض تصویریں اور شکلیں بنایا کرتے تھے۔ ان ہی تصاویر اور اشکال نے وقت کے ساتھ ساتھ حروف اور الفاظ کا روپ دھارا ہے۔ جاری ہے۔

Peshawar All Saints' Church, twin suicide attack, Earthquake in Balochistan, Avaran, Minorities in Pakistan, Pakistani Christians, Pakistani Hindus, Ahmadis, Agha Khani, Bohra, Pakistani Sikhs, New island near Gwadar, Mud Volcanoes of Gobustan,  


Labels: , , , , , , , ,


Comments:
Excellent and well thought and very timely article
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?