Monday, November 01, 2010

 

انسان اور اس کے پیراہن





پچھلی جمعرات کو ایک عجیب واقعہ ہوا۔ جامعہ سان ہوزے اسٹیٹ میں شام کے وقت کشمیر میں حریت پسندی کی تحریکوں پہ ایک پروگرام تھا۔ مقررہ یاسمین قریشی تھیں جن کا تعلق دہلی سے ہے۔ یاسمین انسانی حقوق کے موضوعات پہ لکھتی رہی ہیں۔ یاسمین قریشی نے پچھلے سال سری نگر اور اس کے آس پاس کے علاقوں کا دورہ کیا تھا اور جمعرات کو ان کی تقریر اسی متعلق تھی کہ وادی کشمیر میں تاریخی طور پہ حریت پسندی کی لہر کن ادوار سے گزری ہے اور آج کل کشمیری کس طرح سوچتے ہیں۔ پروگرام منعقد کرنے والوں کے علم میں یہ بات نہ تھی کہ انتہا پسند ہندو جماعتوں نے اپنے کارکنوں سے اس پروگرام میں شرکت کرنے کی اپیل کی تھی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک شخص نے یاسمین قریشی کو سخت سست کہا اور کہا کہ مقررہ جیسے ہندوستانی مسلمانوں کی وجہ ہی سے ہندو ہندوستانی مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ پھر دوسرے شرکا نے بھی یاسمین قریشی کی تقریر پہ خوب تنقید کی اور ان پہ الزام لگایا کہ ان کے اعداد و شمار غلط تھے اور انہوں نے اپنی تقریر میں غلط بیانی سے کام لیا۔ اس بارے میں کسی قسم کا شک نہ تھا کہ مقررہ پہ ایسی کڑی مگر بے سروپا تنقید کرنے والے لوگوں کا تعلق کس گروہ سے تھا۔ اس پروگرام میں یہ بات واضح ہوءی کہ ہندوستانی جمہوریت اور ریاست کتنے بڑے مساءل کا شکار ہے۔ کہ مذہب کا دیو جمہوری روایت کا گلا گھونٹنے کے درپے ہے۔ ہندوستانی ہندوءوں کا خیال ہے کہ وہ ہندوستان کے اصل رکھوالے ہیں۔ یہ لوگ جتنا زیادہ سینہ تان کر اس ملک کے نگہبان بنتے ہیں دوسرے عقاءد سے تعلق رکھنے والے لوگ اس ملک سے اس قدر ہی زیادہ متنفر ہوتے جاتے ہیں۔
ہم ایک عجیب دو ر میں زندہ ہیں کہ جب لوگوں کے مذہبی اختلافات ان کے درمیان تفرقے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گءے ہیں۔ میں اکثر اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ذہنی رجحانات جو انسان کو کسی جانور سے ممیز کرتے ہیں ان میں مذہبی خیالات کا تناسب کیا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ صرف انسان ہی مذہبی رجحانات کا حامل ہوتا ہے۔ بکریاں، گھوڑے، اور دوسرے جانور کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے۔ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا شخص انسان ضرور ہوتا ہے مگر ہر انسان ایک مذہب سے تعلق نہیں رکھتا۔ لوگ اپنا مذہب بدل بھی لیتے ہیں۔
کچھ عرصے پہلے کی بات ہے کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ اس کی نظر میں اس کی دینی اقدار اسی کی انسانی اقدار سے بڑھ کر ہیں۔ وہ شخص کلمہ گو تھا۔ میں نے اس شخص کی بات یوں سمجھی کہ اس کا کہنا تھا کہ وہ پہلے مسلمان ہے اور پھر انسان۔ میں نے بحث کی کہ ایسا کیوں کر ممکن ہے۔ مذہب، زبان، طور طریقے، تمدن، اخلاقی اقدار تو محض ایک نسل گہری ہوتی ہیں۔ ایک بچے کو اس کے ماں باپ سے جدا کر کے ایک دوسرے ماحول میں لے جاءیے تو وہ اپنے پرانے ماحول اور معاشرے سے قطعی بے گانہ ہو کر اپنے نءے ماحول اور معاشرے کے حساب سے ڈھل جاءے گا۔ وہ اپنے نءے اطراف کی اقدار اپنا لے گا۔ جو مذہب اسے اپنے نءے ماحول میں ملے گا اسے وہ اختیار کر لے گا۔
ایک چالیس سالہ چینی کو امریکہ میں لا کر بسا دیجیے وہ ہمیشہ ایک مخصوص لہجے ہی سے انگریزی بولے گا جس کو سمجھنا دوسرے امریکیوں کے لیے آسان نہ ہوگا مگر چین میں پیدا ہونے والے ایک ششماہے کو امریکی ماحول میں لا کر اس کی یہاں پرورش کیجیے وہ بالکل راءج انداز سے انگریزی بولے گا۔ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے ایک بچے کو عیساءیوں کے گھر بڑا ہونے دیجیے وہ بالکل عیساءی اقدار اپنا لے گا۔
چنانچہ یہ بات ہم سب پہ واضح ہونی چاہیے کہ ہماری انسانی اقدار ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار سے زیادہ گہری ہیں۔ اور یہی انسانی اقدار ہمارے دوسرے سطحءی اختلاف کے باوجود ہمیں ایک دوسرے کے قریب لانے کی سکت رکھتی ہیں۔
اندر سے انسان تو انسان ہے۔ اس کی ضروریات باقی انسانوں جیسی ہی ہیں۔ اسے بھوک لگتی ہے، پیاس لگتی ہے۔ وہ سردی گرمی سے بچنے کے لیے تن ڈھانپنا چاہتا ہے۔ وہ سکون سے رہنا چاہتا ہے، اپنے آس پاس کے لوگوں سے پیار کرتا ہے، اور اپنی نسل آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ یہ ہیں وہ بنیادی انسانی اقدار جو ہمارے درمیان مشترک ہیں۔ ہمارے وجود کے ان گہرے اور پاءدار حقاءق کے اوپر مذہب، لسان، اور تمدن کا ملمع تو بہت ہلکا ہے۔ پھر اس قلعی کو زندگی اور موت کا مسءلہ بنا لینا کہاں کی عقل مندی ہے؟

Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?