Saturday, December 15, 2007

 

جزوی مفلوج ملک



اب کیا ہوگا؟
روز یہ سوال اٹھتا ہے۔ صبح ہوتی ہے، پورا دن بحث مباحثے میں گزرتا ہے، پھر سورج ڈوب جاتا ہے اور تاریکی کا سیاہ کمبل ہر شے کو ڈھانپ لیتا ہے۔ لوگ سو جاتے ہیں یہ امید کر کے اگلے دن کا چمکدار سورج شاید کوئی اچھی خبر لے کر آئے گا۔
اور بات واقعی تشویشناک ہے کیونکہ ملکی سیاست کی بازی پھنس گئی ہے۔ ملک جزوی طور پہ مفلوج ہے مگر جاں بہ لب نہیں ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ نومبر ۳ کے روز ایک بہت بڑی زیادتی ہوئی ہے۔ اور قانون سے متعلق افراد یہ زیادتی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ مگر باقی ملک اس ناانصافی کے باوجود رواں دواں ہے۔
بات ایک طرف لگ جائے اگر یا تو پورا ملک پے درپے ہڑتالوں سے مفلوج ہوجائے، لوگ لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پہ نکل آئیں۔ یا پھر وکلا، صحافی، اور انسانی حقوق کے علمدار حالات سے سمجھوتہ کر لیں۔ مگر نہ یوں ہورہا ہے نا ووں، تو پھر حل کیا ہے؟
اگر امیرجینسی واقعی نومبر ۱۵ کے روز ختم کی جاتی ہے تو ایسا ہونے کے ہفتے بھر کے اندر شاید صورتحال واضح ہوجائے کہ ملکی حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔
دسمبر سات کو لکھا گیا۔

Labels: , ,


Tuesday, December 04, 2007

 

اکیلے نہ جانا





امریکی ٹی وی چینل اے بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر ریٹائرڈ جرنیل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ اگر انتخابات کے بعد حالات ان کی مرضی کے مطابق نہ ہوئے تو وہ چلے جائیں گے۔
I have all the choices, if the situation develops in a manner that was just absolutely unacceptable to me, I have a choice of leaving.
کہاں سے چلے جائیں گے؟ صدر کا عہدہ چھوڑ کر چلے جائیں گے؟ پاکستان چھوڑ کر چلے جائیں گے؟ یا دنیا چھوڑ دیں گے؟
پرویز مشرف صاحب نے یقیناً یہ بات انٹرویو لینے والے یعنی کرسٹوفر کیومو کو اور اس کے توسط سے امریکہ کو ڈرانے کے لیے کہی ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ پرویز مشرف کی یہ دھمکی سن کر کرسٹوفر پہ کپکپی طاری ہو گئی۔
آپ چلے جائیں گے؟ کرسٹوفر کے منہ سے بمشکل نکلا اور قریب تھا کہ وہ تڑ سے زمین پہ گر جاتا، لوگوں نے آگے بڑھ کر اسے سنبھال لیا۔ پھر اسے تسلی دی گئی کہ ریٹائرڈ جرنیل صاحب نے "حالات مرضی کے مطابق نہ ہوئے" کی شرط عائد کی ہے۔ اور یہ بہت کڑی شرط ہے۔ اور شاید ہی کوئی ایسا موقع آئے جب پرویز مشرف کا خیال ہو کہ حالات بالکل بے قابو ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ سن کر کرسٹوفر کو تسلی ہو گئی اور اس نے آبدیدہ ہو کر "اکیلے نہ جانا" گانے کا خیال دل سے نکال دیا۔

Labels: , , , ,


Monday, December 03, 2007

 

یہ ہماری جنگ نہیں ہے






موجودہ عہد کا سب سے بڑا فراڈ وہ جنگ ہے جو کہنے کو تو دہشت گردی کے خلاف لڑی جا رہی ہے مگر جو دراصل دہشت گردی کی افزائش کا سبب بن رہی ہے۔ یہ جنگ علم نفسیات کے نظریے خود تکمیلی پیش گوئی پہ پوری اترتی ہے۔ کہ اس جنگ میں پہلے کسی کو دشمن گردانا جاتا ہے، پھر اس کے سر پہ بم برسائے جاتے ہیں، اور پھر وہ واقعی آپ کا دشمن بن جاتا ہے۔
سنہ دوہزار ایک میں امریکہ کی یہ فراڈ جنگ پاکستان کے توسط سے افغانستان کے اوپر تھوپی گئی اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کی طوالت کی لالچ میں پورے ملک کو اس جنگ میں ڈال دیا۔ کچھ عرصے تک تو آگ کا یہ کھیل ہم سے کچھ فاصلے پہ کھیلا جاتا رہا مگر جیسا کہ ناگزیر تھا آگ اب ہمارے گھر کے اندر تک پہنچ گئی ہے۔ اگر ہمیں ملک کی سالمیت عزیز ہے تو ہمیں پوری طور پہ اس فراڈ جنگ کو اپنے گھر کے اندر سے ختم کرنا ہوگا۔ اور جنگ کو ختم کرنے میں اس بالغ العقلی کی ضرورت ہوگی کہ لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس طرح اپنی زندگیاں گزارنا چاہیں گزاریں۔ کہ لوگ اگر کسی قدیم زمانے کی فرسودہ روایات کے تحت اپنی زندگیاں بسر کرنا چاہتے ہیں تو ان پہ گولیاں چلانے سے وہ اپنے خیالات میں اور پختہ ہوں گے۔ انہیں راہ راست پہ لانے کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں ان کے حال پہ چھوڑ دیا جائے۔ اور خود ایک ایسا منصف معاشرہ قائم کیا جائے جو واضح طور پہ قدامت پسندوں کے رائج کردہ نظام سے بہتر ہو۔ جب کبھی ایک منصف، خوشحال معاشرہ ایک فرسودہ، ناکارہ معاشرے کے برابر میں موجود ہوگا تو وقت کے ساتھ ساتھ فرسودہ، ناکارہ معاشرہ خود اپنے اندر سے ٹوٹ جائے گا، فنا ہوجائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا صرف ایک یہی موثر طریقہ ہے۔

تصویر از
Livius


Labels: , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?