Tuesday, August 27, 2024
خوف کی تفریح
خوف کی تفریح
رولر کوسٹر ایک مزے کی سواری ہے۔ آپ ایک کھٹولے میں سوار ہوتے ہیں اور سواری کا مزا لوٹتے ہیں۔ کھٹولا کبھی اوپر جاتا ہے، کبھی نیچے، یا پھر تیزی سے دائیں یا بائیں مڑ جاتا ہے۔ کب کس موقع پہ کیا ہوگا، یہ آپ نہیں جانتے۔ اور پھر اچانک سواری کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
رولر کوسٹر میں سواری کے دو خراب راستے ہیں۔
اول خراب طریقہ رولر کوسٹر میں سواری سے حفاظت سے متعلق ہے۔ آپ کی حفاظت کے لیے آپ کی نشست پہ ایک پیٹی موجود ہے جسے سواری شروع ہونے سے پہلے باندھنا ہے۔ آپ یوں کرسکتے ہیں کہ سواری کے دوران مستقل اپنی حفاظت سے متعلق پریشان رہیں اور یہ یقین کرتے رہیں کہ آپ کی پیٹی اچھی طرح بندھی ہے، اور اسی پریشانی میں سواری کا وقت ختم ہوجائے۔ یہ یقیناً رولر کوسٹر سے وابستہ تفریح کو خراب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
تفریح سے منہ موڑنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس پس مردگی سے کھٹولے میں سوار ہوں کہ بس تھوڑی سی ہی دیر کی تو بات ہے، سواری کا وقت ختم ہوجائے گا اور سواری سے وابستہ مزا بھی ساتھ ختم ہوجائے گا۔ یہ یقیناً رولر کوسٹر کی تفریح کو خراب کرنے کا دوسرا طریقہ ہے۔
زندگی گزارنے کے دو خراب طریقے بھی اسی نوعیت کے ہیں۔
Wednesday, August 07, 2024
حال بے حال
جنوبی ہند کے قصبے سری منڈل وینکٹ ناراسمہاراجوواریپیٹا میں ہونے والی عالمی متقین ادیان کانفرینس میں شریک مجوسی جوتشی، اکابرین عقائد ابراہیمی، ویدک واستو شاستری اور آزتیک زائچہ نویس صرف اس ایک بات پہ متفق ہوئے کہ انگریزی شمسی چکر کے تیسرے ماہ کا گیارہواں دن منحوس اور نجس ہے اور جس مقدر ممکن ہو اس دن کی نحوست اور شر سے بچنا چاہیے۔ بس اسی روز میرا اس دنیا میں ظہور ہوا تھا۔ میری پیدائش کے وقت ہی طبیبوں نے جواب دے دیا تھا۔ صاف کہہ دیا تھا کہ یہ سوکھا سڑا بچہ نہیں بچے گا۔ اور ڈاکٹروں کی بات سولہ آنے درست تھی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میرا بچنا ناممکن ہے۔ البتہ، وہ دن اور آج کا دن، بچتے بچاتے یہاں تک پہنچا ہوں۔
پیدائش کے فورا بعد میں خوش تھا کہ اب کشادہ جگہ آگیا تھا۔ نو مہینے ایک تنگ جھگی میں رہ کر دل اکتا گیا تھا۔ اس کھلی جگہ پہ میرے ٹھاٹ تھے۔ زیادہ تر سوتا رہتا تھا۔ بیدار ہوتا، تھوڑا سا دودھ پیتا اور پھر سو جاتا۔ کہیں جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہیں لیٹے لیٹے بول و براز سے فارغ ہوجاتا۔ صفائی کی ضرورت ہو تو تھوڑا سا رو دیتا۔ صفائی کرنے والے فورا حاضر ہوجاتے اور میرے جسم کی صفائی کرنے کے بعد فضلہ اٹھا کر لے جاتے۔ ہر خواہش کا اظہار گریا سے کرتا تھا۔ غصہ اس وقت آتا تھا جب لوگ سمجھ نہ پاتے تھے کہ میری خواہش کیا ہے۔ حالانکہ میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ بھوک کا رونا ایک طرح کا ہو، اور طلب صفائی کا دوسری طرح کا۔ اب میں بھوک کے لیے رو رہا ہوں اور لوگ میرا پوتڑا دیکھ رہے ہیں تو غصہ تو آئے گا۔
اس موقع پر خدام کی انتھک محنت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت ضروری ہے۔ پیدائش کے فورا بعد ایک عورت اور ایک مرد بہت زیادہ نظر آنے لگے۔ یہ دونوں مستقل میری چاپلوسی میں لگے رہتے تھے۔ جلد یہ عقدہ کھلا کہ یہی ماں باپ ہیں۔
لوگوں کو فخر ہوتا ہے کہ وہ اپنی عمر سے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ میری زندگی میں معاملہ الٹا رہا ہے۔ میں ہمیشہ اپنی عمر سے بڑا ہی نظر آیا اور دو چار سال نہیں بلکہ کئی دہائیوں بڑا۔ اس وقت میرا سن بمشکل پچاس برس ہے مگر کسی زاویے سے میں ستر اسی سے کم کا نظر نہیں آتا۔
مجھے یاد ہے کہ جب داخلے کے لیے اسکول لے جایا گیا تو میں بھاگ کر والدین سے پہلے پرنسپل کے کمرے میں پہنچ گیا۔ پرنسپل مجھے دیکھ کر کھڑی ہوگئیں؛ مسکرا کر مجھے سلام کیا اور پوچھا، ' کیا بچے پیچھے آر ہے ہیں؟'
اسکول میں داخلے کے بعد بھی حالات بہتر نہ ہوئے۔ میرے ہم جماعت مجھے شک کی نظر سے دیکھتے تھے اور نئے اساتذہ مجھے جماعت میں بیٹھا دیکھ کر ٹھٹک جاتے تھے۔ ان کو خیال ہوتا تھا کہ شاید بورڈ سے کوئی شخص ان کی تدریسی صلاحیتیں جانچنے کے لیے آیا ہوا ہے۔
میری عمر بڑھتی رہی اور میں پیران سالی کی منازل جست لگا کر عبور کرتا رہا۔ پندرہ سال کی عمر میں سر کے بال جھڑ چکے تھے اور جب انیس سال کی عمر میں موتیا نکالا گیا تو باور کیا گیا کہ میں موتیا نکالے جانے والا دنیا کا سب سے کم سن بڈھا ہوں۔
جیسے تیسے تعلم مکمل کی تو نوکری کی تلاش اور بھی بڑا عذاب ثابت ہوئی۔ اکثر جگہ تو میری شکل دیکھ کر ہی مجھے واپس کردیا جاتا۔ کوئی نیک صفت مل جاتا تو مجھے بازو سے تھام کر مشورہ دیتا، " بڑے صاحب، یہ کوئی عمر ہے کام کرنے کی؟ آپ تو ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاریں، یعنی نماز، روزہ، اور فیس بک۔"
نوکری مل گئی تو گھر بسانے کا خیال آیا۔ یہ بہت دشوار مرحلہ تھا۔ جہاں جاتا یہی سوال ہوتا کہ "خاندان کے سارے بزرگ نظر آرہے ہیں، لڑکا نظر نہیں آرہا۔" جب گھر والوں نے کئی جگہ ایسے طعنے تشنے سننے کے بعد میری سگائی کی کوشش ترک کردی تو میں نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ جلدی سے ضرورت رشتہ کا اشتہار تیار کیا۔ ایک خوبرو، اعلی تعلیم یافتہ، ملازم پیشہ نوجوان کے لیے سولہ سے اٹھارہ سالہ لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔ درج ذیل نمبر پہ فورا رابطہ کریں ورنہ رشتہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اشتہار کا متن لے کر اپنے محلے دار رفیع صاحب کے پاس پہنچا جو اخبار میں کام کرتے تھے۔ رفیع صاحب نے میری بات غور سے سنی، اشتہار کا متن میرے ہاتھ سے لے کر پڑھا اور اسے پڑھنے کے دوران نظریں اٹھا کر کئی بار مجھے دیکھا۔ پھر ٹھنڈی سانس لے کر کاغذ ایک طرف رکھ دیا اور سمجھایا کہ، ' یہ ارادہ دل سے نکال دیجیے، یہ تو آپ کے لیے اللہ اللہ کرنے کا وقت ہے۔' پھر ساتھ ہی جنت کا پرفریب نقشہ کھینچا، حوروں کا لالچ دیا اور بتایا کہ بس یہ مال کچھ ہی دنوں میں میرا ہونے والا ہے۔ بہت سی نیم برہنہ حوروں کا مجھ سے دودھ کی نہر کے قریب اٹھکیلیاں کرنے کا خیال مجھے بہت بھایا۔ رفیع صاحب کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے روانہ ہوگیا۔ مگر گھر آتے ہوئے ایک شک نے سر ابھارا کہ مرنے کے بعد نہ جانے جنت پہنچوں گا یا نہیں۔ سوچا کہ محلے کی مسجد کے امام، مولوی عبدالقدوس سے معلوم کرلوں کہ آیا میں جنت میں داخل کیا جائوں گا یا وہاں بھی اسی طرح کی بات سننے کو ملے گی کہ "بڑے میاں، یہاں آپ کا کیا کام؟ اندر والی فلم صرف مسٹنڈے بالغان کے لیے ہے۔" مولوی عبدلقدوس نے میری بات غور سے سنائی اور پھر استفسار کیا، "میں آپ کو ایک عرصے سے جانتا ہوں مگر میں آپ کی ذاتی زندگی سے نا واقف ہوں۔ کیا آپ سے کچھ گناہ بھی سرزد ہوئے ہیں؟" میں نے کہا، "مولوی صاحب، خطا کا پتلا ہوں۔ آپ پوچھتے ہیں تو بتاتا ہوں کہ کہاں چوک گیا تھا"، اور پھر میں نے اپنا بیان عصیاں شروع کیا۔ مولوی صاحب کچھ دیر تو سر جھکائے خاموشی سے سنتے رہے، پھر سر اٹھا کر بولے، "صاحب اتنی تفصیل میں جا کر ڈینگیں مارنے کا کیا مقصد ہے؟ اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ میں نے ایک بے رنگ زندگی گزاری ہے تو آپ کو آپ کا ہدف حاصل ہوچکا ہے۔ نماز کا وقت ہورہا ہے۔ مجھے جانے دیجیے۔" میں کہاں آسانی سے ہار ماننے والے تھے۔ میں نے کہا، "مولوی صاحب، جاتے ہوئے یہ تو بتا دیجیے کہ آخرت میں میرا ٹھکانہ کہاں ہے۔" مولوی عبدالقدوس بولے، " آخرت میں آپ کا ٹھکانہ بالکل طے ہے۔ یعنی دوزخ۔" ایسا دو ٹوک جواب سن کر میں غصے میں آگیا۔ میں نے پوچھا، "اور جو چھ سال کی عمر سے نمازیں پڑھ رہا ہوں اس کا کیا بنے گا؟" مولوی صاحب نے جواب دیا، "آپ کے گناہ اس قدر بڑے اور وزنی ہیں کہ انہوں نے آپ کی تمام نمازوں کو روند ڈالا ہے۔"
"اور وہ جو بارہ سال کی عمر سے تیرہ سے پندرہ گھنٹے لمبے روزے رکھے ہیں، ان کا ثواب؟" میں نے پوچھا۔
"ان کا کیا ثواب ملنا ہے آپ کو؟ شاید دوزخ میں مارپیٹ کے دوران کبھی کبھار آپ کو روح افزا یا دودھ کی ٹھنڈی بوتل پینے کو مل جائے تو غنیمت جانیے گا۔ اور ہاں، حساب کتاب قبر سے شروع ہوجائے گا ۔ عربی پڑھ لیجیےکیونکہ قبر میں تمام سوالات عربی میں پوچھے جائیں گے۔" یہ کہہ کر مولوی عبدالقدوس چلتے بنے۔
میں نے اسی وقت تہیہ کیا اب منو اور نکے کے ہاتھ نہیں آنا۔ منکر نکیر نامی فرشتوں کو میں پیار سے یوں ہی بلاتا ہوں۔ میں نے گھر پہنچتے ہی وصیت لکھی کہ میرے مرنے کے بعد میری چتا جلائی جائے۔ نہ قبر میں پہنچوں کا اور نہ ان دونوں چغل خوروں کے ہاتھ لگوں گا۔ وصیت میں یہ بھی لکھ دیا کہ میری چتا سے جو راکھ برآمد ہو اسے مولوی عبدالقدوس کے گھر پہ چھڑک دیا جائے۔
Monday, August 05, 2024
دو کارآمد بالٹیاں
دو کارآمد بالٹیاں
میں آج کل جس جگہ رہتا ہوں وہاں پانی کی کوئی قلت نہیں ہے اور یقینا جدید دور کا ٹائلٹ بھی موجود ہے۔ مگر ان سہولیات کے باوجود میں اپنی ماحولیات داں طبیعت سے مجبور ہوں اورکمپوسٹ ٹائلٹ استعمال کرتا ہوں۔ کمپوسٹ ٹائلٹ کے استعمال سے میں پانی بچاتا ہوں اور اپنے باغ کی مٹی کی زرخیزی میں اضافہ کرتا ہوں۔
میرا کمپوسٹ ٹائلٹ دراصل ایک پانچ گیلن کی پلاسٹک کی بالٹی ہے۔ اس اہم بالٹی کے ساتھ ہی ایک دوسری پانچ گیلن کی بالٹی پخ کے طور پہ ہے۔ یہ پخ بالٹی مٹی سے بھری ہے۔ ہر دفعہ فارغ ہونے کے بعد اصل بالٹی میں موجود تازہ مال کو دوسری بالٹی سے نکالی جانی والی مٹی کی موٹی تہہ سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ اس انتظام سے اصل بالٹی سے کوئی بو نہیں آتی اور مٹی میں موجود حشرات الارض کھاد بنانے کے کام میں جٹ جاتے ہیں۔ اصل بالٹی کو ہر تیسرے چوتھے روز ایک گڑھے میں خالی کیا جاتا ہے اور خالی بالٹی میں مٹی کی تازہ تہہ لگا کر اسے اگلے استعمال کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ جو احباب ٹرین کا سفر کرتے ہیں اور مجھ سے ریل گاڑی کے غلیظ اور بدبو دار بیت الخلا کی شکایت کرتے ہیں، میں ان کو ایسی ہی دو بالٹیاں ساتھ رکھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ اور ایسی ہی دو بالٹیاں گاڑی کی ڈگی میں رکھ کر گاڑی کے طویل سفر میں استعمال کی جاسکتی ہیں۔ جب ضرورت محسوس ہوئی، دونوں بالٹیاں نکالیں، پردے کا وقتی انتظام کیا، اور صاف ستھرے طریقے سے ضرورت نمٹا لی۔
Sunday, August 04, 2024
ردی اور تہذیب
مجھے کوڑے کے مقابلے میں لفظ ردی زیادہ پسند ہے۔ ردی یعنی رد کی جانے والی چیز۔ وہ چیز جو آپ کے لیے کارآمد نہیں رہی۔ جو آپ کے لیے ناپسندیدہ ہے۔ ردی کو صحیح طور سے ٹھکانے لگانا ہی اعلی تہذیب کا پیمانہ ہے۔
آپ ہر روز بہت سی چیزیں استعمال کرتے ہیں اور اس عمل میں ردی پیدا کرتے ہیں۔ اشیا کے استعمال اور ردی بننے کے عمل کو انسانی جسم کے مشاہدے سے شروع کیجیے۔ آپ سانس لیتے ہیں، آپ کھانا کھاتے ہیں، اور پانی پیتے ہیں۔ انسانی جسم کیا رد کرتا ہے؟ اوپر سے نیچے تک جسم کی ردی کی ایک طویل فہرست ہے۔ آپ کی استعمال شدہ سانس، ردی ہے۔ آپ کے پورے جسم سے پسینہ رد ہوتا ہے۔منہ سے اگلی جانے والا دیگر مواد، بلغم، تھوک، قے بھی ردی ہے۔ اور اسی طرح زیریں جسم سے خارج ہونے والے ردی مادے میں، باد اور بول و براز شامل ہیں۔ جو کچھ آپ کا جسم رد کررہا ہے وہ نہ صرف آپ کے لیے ناپسندیدہ ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ناپسندیدہ ہے۔ تہذیب یہ ہے کہ اس ردی کو یوں تلف کیا جائے کہ وہ نہ آپ کو نظر آئے نہ کسی اور۔
اور تہذیب کا یہ پیمانہ انسانی جسم سے رد ہونے والے مواد کے ساتھ ساتھ گھروں سے نکالی جانے والی ردی کے لیے بھی درست ہے۔ آپ کے گھر سے پھینکا جانے والا کوڑا بھلا کسی دوسرے کے لیے کیسے پسندیدہ ہوسکتا ہے؟ اگر آپ گھر سے کوئی ایسی چیز رد کررہے ہیں جو آپ کے خیال میں کسی دوسرے کے کام آسکتی ہے تو اسے اس شخص تک پہنچانے کا موثر طریقہ اختیار کیجیے اور بقیہ کوڑے کو اس احتیاط سے ٹھکانے لگائیے کہ یہ ناپسندیدہ انبار کسی کو نظر نہ آئے اور لوگ جان لیں کہ آپ تہذیب کی سیڑھی چڑھ کر بندروں سے آگے نکل چکے ہیں۔
Thursday, August 01, 2024
بلی جتنی تمیز
فصل دوئم
میری عمر چھ سات برس رہی ہوگی جب میرا جانا اپنے ددھیالی گائوں ہوا۔ وہاں پہنچنے سے پہلے ہی مجھے بتا دیا گیا تھا کہ گائوں میں جدید فلش ٹائلٹ کی سہولت موجود نہیں ہے بلکہ کھڈیاں ہیں۔ بیت الخلا کا انتظام یہ تھا کہ دالان میں داخلی دروزے کے دائیں جانب ایک مستطیل کمرہ تھا جس میں قطار سے بیرونی دیوار کے ساتھ کھڈیاں بنی تھیں۔ کھڈی سے مراد فارغ ہونے کا یہ انتظام ہے کہ دائیں بائیں اینٹیں رکھ کر یوں جگہ بنائی جائے کہ آپ ایک پائوں ایک طرف رکھیں اور دوسرا دوسری پائوں دوسری طرف، اور اکڑوں بیٹھ کر بیچ کی خالی جگہ کو فارغ ہونے کے لیے استعمال کریں۔ کھڈیوں کی صفائی کے لیے بیرونی دیوار میں ہر کھڈی کے ساتھ سوراخ تھا۔ کھڈیاں بیرونی دیوار کے ساتھ اس لیے بنائی گئیں تھیں تاکہ مہتر، گھر کے باہر سے ہی ان کھڈیوں کی صفائی کرسکیں۔ بیت الخلا کی چھت نہیں تھی اس لیے آپ فارغ ہونے کے دوران دائیں بائِں دوسروں کا کیا دھرا دیکھنے کے بجائے اوپر آسمان میں اڑتے چیل کووں کو دیکھ سکتے تھے۔ اس بیت الخلا کا سرخرو کھلاڑی وہ ہوتا تھا جو بیت الخلا کی صفائی کے بعد کھڈی استعمال کرنے والا پہلا شخص ہو۔ اور اسی طرح بیت الخلا کی صفائی سے پہلے اسے استعمال کرنے والا آخری شخص یقینا اپنی قسمت کو کوستا ہوگا۔ گائوں سے آنے کے بعد مجھے بتایا گیا تھا کہ بیت الخلا میں دروازے کے ساتھ راکھ کا کنستر رکھا تھا۔ فارغ ہونے کے بعد اس راکھ کو اپنا مال ڈھانپنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا مگر وہاں رہتے ہوئے نہ تو مجھے کسی نے ایسا کرنے کی تعلیم دی اور نہ ہی میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ دوسروں نے ایسا کیا ہو۔تو ایسا کیوں تھا؟ ہمیں اتنی تمیز کیوں نہ تھی جتنی بلی کو ہوتی ہے؟