Saturday, October 10, 2020

 

مولانا عادل خان، جامعہ فاروقیہ، شاہ فیصل کالونی کے قتل سے ایک اہم باب بند ہوا


 

منگل، اپریل تین، سنہ دو ہزار سات

مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ مجھے وہاں کس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لیے میں نے اپنی گاڑی کے بجائے میٹرو ٹیکسی پہ وہاں جانا بہتر خیال کیا۔ میٹرو کا ڈرائیور، شاہ فیصل کالونی سے اچھی طرح واقف تھا ؛ اسے پتہ سمجھانے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی مگر میرے بھاری ویڈیو کیمرے کو اس نے کسی قدر حیرت سے دیکھا تھا۔ گاڑی نیشنل ہائی وے سے شاہ فیصل کالونی کے لیے مڑی تو میں نے ویڈیو بنانا شروع کردی اور میں ٹیکسی کے جامعہ فاروقیہ کے بالکل قریب پہنچنے تک ویڈیو بناتا رہا۔ جامعہ پہنچنے پہ میں نے کیمرے کو وہیں گاڑی میں چھوڑا اور ڈرائیور کو انتظار کرنے کا کہہ کر جامعہ فاروقیہ میں داخل ہوگیا۔ جامعہ فاروقیہ کا وسیع احاطہ طلبا سے بھرا ہوا تھا۔ مختلف عمر کے وہ طلبا چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے۔ سب ہی شلوار قمیض میں تھے اور شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کے سر پہ گول ٹوپی نہ ہو۔ میں مولانا عادل کا پوچھتا ہوا مولانا کے دفتر تک پہنچ گیا۔ مولانا دفتر میں موجود نہیں تھے۔ مولانا کے نائب، ذیشان نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔ ذیشان نے مجھ سے پوچھا کہ میں کس سلسلے میں مولانا عادل سے ملنا چاہتا تھا۔ میں نے بتایا کہ میں کیلی فورنیا میں مولانا عادل کے کام سے متعارف ہوا تھا اور مولانا کے جان پہچان کے بہت سے لوگوں کو جانتا تھا۔ کراچی آیا ہوا تھا تو سوچا کہ مولانا عادل سے ملاقات ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت ان تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں تھی کہ میں حامد حیات کیس کے سلسلے میں فلم بنا رہا تھا۔ حامد حیات کی گرفتاری کے کچھ ہی عرصے بعد مولانا عادل خان کو امریکہ سے نکال دیا گیا تھا۔ مولانا کے کراچی پہنچنے کے بعد کئی امریکی خبررساں ایجنسیوں نے مولانا کا انٹرویو کرنے کی کوشش کی تھی مگر ان سب کو ناکامی ہوئی تھی۔ مولانا عادل خان، حامد حیات کیس کے سلسلے میں کیوں خاموش تھے، یہ ایک راز تھا۔ کیا کسی نے ان کو خاموش رہنے کو کہا تھا؟ میری خواہش تھی کہ میں کسی طرح مولانا عادل کو رام کرلوں اور امریکہ میں ان کی حراست سے لے کر پاکستان آنے، پاکستانی اداروں کی تحویل میں رہنے سے لے کر اب تک کی ان کی کہانی ان سے سنوں۔ ذیشان نے بتایا کہ مولانا عادل اس وقت اسلام آباد میں تھے۔ وہ کب واپس آئیں گے؟ اس بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔ ذیشان نے مجھے ایک فون نمبر دیا کہ میں اس نمبر پہ مولانا عادل کے متعلق معلوم کرتا رہوں۔ جب مولانا کراچی لوٹ آئیں تو میں ان سے ملاقات کا وقت لے لوں۔

 

میں اگلے کئی روز مولانا کو فون کرتا رہا اور ہر دفعہ یہی سننے کو ملا کہ مولانا موجود نہیں تھے۔ سات اپریل کو میری ذیشان سے لمبی بات ہوئی۔ اب کی بار ذیشان نے مجھے صاف بتا دیا کہ 'حضرت بہت مصروف ہیں۔ وہ کیلی فورنیا کے واقعے کے متعلق کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔' مگر میں نے ذیشان سے کب کہا تھا کہ میں مولانا عادل سے کیلی فورنیا کی گرفتاریوں سے متعلق کوئی بات کرنا چاہتا تھا۔

واضح تھا کہ مولانا عادل کو جو بھی ہدایات موصول ہوئیں تھیں، وہ ان ہدایات سے بہت خوفزدہ تھے۔ اور شاید ان کا خوف بے جا نہ تھا۔ ایف بی آئی نے شاید ان کو امریکہ بدر اسی لیے کیا تھا کہ ان کی گواہی حامد حیات کیس میں رخنہ نہ ڈالے۔ پرویز مشرف حکومت، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی حکومت کی حواری تھی۔ یہ ممکن نہ تھا کہ مولانا عادل خان کو خاموشی سے امریکہ سے روانہ کردیا جائے اور عادل خان پاکستان پہنچ کر پٹ پٹ بولنا شروع ہوجائیں۔

 

اکتوبر دس، سنہ دو ہزار بیس۔

مولانا عادل خان کو ان کے ڈرائیور سمیت کراچی میں قتل کردیا گیا ہے۔ مولانا عادل کے قتل سے بہت سے راز مولانا عادل کے ساتھ ہمیشہ کے لیے زمین میں دفن ہوجائیں گے۔


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?