Saturday, February 01, 2020

 

کیا آپ کے کسی عزیز کی شخصیت اچانک تبدیل ہوئی ہے؟ یہ تبدیلی کسی دوا کے استعمال کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔








کیا آپ کے کسی عزیز کی شخصیت اچانک تبدیل ہوئی ہے؟ یہ تبدیلی کسی دوا کے استعمال کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔
تحریر: زاریا گورویٹ
آزاد اردو ترجمہ: سمندطور

مریض نمبر پانچ، پچاس کے پیٹے میں تھا جب ایک روز ڈاکٹر کو دکھانے پہ اس کی زندگی بالکل تبدیل ہوگئی۔ وہ ضیابطیس کا مریض تھا اور اس نے ایک تجربے کا حصہ بننے پہ ہامی بھرلی۔ تجربہ اس متعلق تھا کہ 'اسٹیٹن' نامی دوا جو کولیسٹرول کم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، کیا ضیابطیس روکنے میں بھی مددگار ہوسکتی ہے۔  مریض نمبر پانچ کو یہ دوا استعمال کرنے میں کوئی حرج نظر نہیں آیا۔
لیکن نئی دوا لینے کے کچھ ہی عرصے میں مریض کی بیوی نے اپنے شوہر میں کئی ناپسندیدہ تبدیلیاں دیکھنا شروع کیں۔ دوا لینے سے پہلے اس کا شوہر ایک ٹھنڈے مزاج کا آدمی تھا مگر اب وہ بہت جلد اشتعال میں آجاتا تھا۔ اس کا یہ اشتعال اس کے گاڑی چلانے کے دوران واضح نظر آتا تھا۔ روڈ پہ اشتعال کے ایسے ہی ایک واقعے کے بعد  مریض نے اپنے  گھر والوں کو مشورہ دیا کہ وہ اس کے ساتھ گاڑی میں نہ بیٹھا کریں؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے غصے میں کوئی حادثہ کر بیٹھے اور انہیں نقصان پہنچے۔
اور پھر روڈ پہ اپنا اشتعال دیکھتے ہوئے مریض نمبر پانچ نے گاڑی چلانا ہی چھوڑ دی۔ مگر اب یہ ہونے لگا کہ اپنی بیوی کے گاڑی چلانے کے دوران برابر سیٹ پہ بیٹھا بیٹھا وہ دوسرے ڈرائیوروں کی حرکتوں پہ شدید غصے میں آجاتا۔  کئی دفعہ یوں ہوا کہ مریض کی بیوی اپنا سفر موقوف کر کے گھر پلٹ گئی۔ پھر وہ مریض پانچ کو ٹی وی کے سامنے بٹھا کر خود اکیلے باہر جانے لگی۔ مگر بات بے بات اپنے شوہر کے شدید غصے کو دیکھتے ہوئے وہ خوفزدہ رہتی کہ کہیں کسی روز وہ خود اپنے شوہر کے قہر کا نشانہ نہ بن جائے۔
اور پھر ایک روز مریض نمبر پانچ نے گتھی سلجھا لی۔ بیٹریس گولومب جامعہ کیلی فورنیا، سان ڈیاگو کی ایک محققہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، " مریض پانچ کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ اس کے موجودہ مسائل اس وقت سے شروع ہوئے ہیں جس وقت سے اس نے نئی دوا کھانا شروع کی ہے۔"
اس نتیجے پہ پہنچنے کے بعد اس جوڑے نے ان منتظمین سے رابطہ کیا جن کی نگرانی میں مریض پانچ اسٹیٹن سے متعلق تحقیق کا حصہ بنا تھا۔ گولومب کا کہنا ہے کہ منتظمین، مریض پانچ کی بات سننے کو تیار نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مریض کی طبیعت میں بڑھتے ہوئے اشتعال کا اسٹیٹن نامی دوا سے کوئی تعلق ممکن نہ تھا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ مریض پانچ دوا لینا جاری رکھے اور تحقیقی عمل کا حصہ رہے۔
دوا کے منفی اثر کی ستم ظریفی دیکھیے کہ طبیعت کا وہ غصیلہ پن جو مریض کو سخت پریشان کررہا تھا، اس موقع پہ اس کے کام آیا۔ وہ اس قدر غصے میں تھا کہ اس نے ڈاکٹر کی بات سننے سے انکار کردیا۔ وہ وہاں سے پائوں پٹخ کر روانہ ہوگیا۔ اس شخص نے اسٹیٹن کھانا بند کی اور دو ہفتوں کے اندر وہ پھر سے ایک ٹھنڈے مزاج کا شخص بن گیا۔
مگر دوائیں کھانے والے تمام لوگ مریض پانچ جتنے خوش قسمت نہیں رہے ہیں۔ گولومب ایک عرصے سے پورے امریکہ سے مریضوں سے متعلق رپورٹ اکھٹی کرتی رہی ہیں—وہ کہانیاں جو گھریلو ناچاقی، تباہ حال کیرئیر سے متعلق ہیں؛ ان ہی کہانیوں میں ایسے بہت سے مردوں کی کہانیاں ہیں جو اپنی بیویوں کو قتل کرنے کی سوچ میں اس عمل سے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔  ان تمام کہانیوں میں ایک قدر مشترک ہے: اسٹیٹن نامی دوا کا استعمال۔ اور جیسے ہی ان مریضوں نے دوا لینی چھوڑی وہ  دوبارہ نارمل ہوگئے۔ ان ہی مریضوں میں ایک ایسا شخص بھی ہے جس نے پانچ دفعہ دوا چھوڑنے اور پھر دوبارہ جاری کرنے کا عمل کیا اور پانچویں بار کے بعد اسے یہ بات سمجھ میں آئی کہ یہ دوا اس کی شخصیت پہ کس طرح کے منفی اثرات مرتب کررہی تھی۔
گولومب کا کہنا ہے کہ یہ کوئی عجیب بات نہیں؛ بہت سے مریض اپنی شخصیت میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھ ہی نہیں پاتے، ان تبدیلیوں کا تعلق دوا سے جوڑنا تو دور کی بات ہے۔ اور بعض دفعہ یہ تعلق بہت دیر سے سمجھ میں آتا ہے۔ ایسے بہت سے خاندانوں نے گولومب سے رابطہ کیا ہے جن کا کوئی پیارا اسی طرح کی تبدیلی کے بعد جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔  خودکشی کرنے والے ان لوگوں میں ایک بین الاقوامی سطح کا سائنسدان اور ایک قانونی جریدے کا مدیر شامل ہیں۔
یہ بات تو سب ہی سمجھتے ہیں کہ منشیات کس طرح ہمارے دماغ پہ اثرانداز ہوتی ہیں، مگر کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ عام طور سے استعمال کی جانے والی بہت سی ادویا بھی ایسا کام کرسکتی ہیں۔ پیراسٹامول ہو، ضد ہسٹیمین دوائیں ہوں، اسٹیٹن ہوں، دمے کی ادویا ہوں یا ضد یاسیت [اینٹی ڈپریسینٹ] ادویا، نئے شواہد ہمیں بتا رہے ہیں کہ یہ ادویا ہمیں لاابالی، غصیلہ، اور بے چین بنا سکتی ہیں۔ یہ ہم سے ہماری انسانیت چھین سکتی ہیں اور ہماری شخصیت کو یکسر تبدیل کرسکتی ہیں۔
اکثر صورتوں میں مریضوں میں ظاہر ہونے والی یہ تبدیلیاں مخفی ہوتی ہیں مگر بعض دفعہ ایسی تبدیلیاں بہت ڈرامائی بھی ہوسکتی ہیں۔
ہم کن ادویا کی بات کررہے ہیں؟ عام طور سے استعمال ہونے ہر دوا کی۔
کون سی ادویا ایسا منفی کام کرسکتی ہیں؟ عام طور سے استعمال ہونے ہر دوا۔
سنہ دو ہزار گیارہ میں ایک فرانسیسی شخص نے جو دو بچوں کا باپ تھا گلیکسو اسمتھ کلائن نامی دوا ساز کمپنی پہ ہرجانے کا دعوی کیا؛ اس کا کہنا تھا کہ کمپنی کی بنائی ہوئی پارکنسن مرض کی دوا نے اس شخص کی جنسیت ہی بدل دی اور ساتھ  ہی اسے عادی جواری بنا دیا۔
سنہ دو ہزار پندرہ میں جب انٹرنیٹ کے ذریعے جوان لڑکیوں کو پھانسنے کا کام کرنے والے ایک شخص کو گرفتار کیا گیا تو اس شخص کا موقف تھا کہ ڈیورومائن نامی ضد موٹاپا  دوا نے اس کی شہوت کو بے لگام بنا دیا تھا۔
اور ہمیں گاہے بگاہے ایسے قاتل ملتے ہیں جن کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ نفسیاتی امراض کی دوائیں کھا کر قتل کرنے کی طرف مائل ہوئے۔
اگر یہ دعوے سچے ہیں تو معاملہ بہت گہرا ہے۔ جن دوائوں کو شخصیت  تبدیل کرنے کا الزام دیا جارہا ہے ان میں کرہ زمین پہ استعمال ہونے والی مقبول ترین ادویا شامل ہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ یہ ادویا انفرادی سطح پہ کوئی بڑا نقصان نہ کررہی ہوں لیکن اگر مجموعی سطح پہ ان کا نقصان دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ یہ ادویا کروڑوں لوگوں کی شخصیتیں بدلنے کا کام کررہی ہیں۔
اور ادویا کے مضر اثرات سے متعلق یہ تحقیق بروقت ہے۔ دنیا کو اس وقت ادویا کے کثیر استعمال کے سیلاب کا سامنا ہے۔ صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اننچاس ہزار ٹن پیراسٹامول ہر سال خریدی جاتی ہیں یعنی سالانہ قریبا تین سو گولیاں فی نفر، جب کہ اوسطا ہر امریکی سالانہ بارہ سو ڈالر کی ادویا خریدتا ہے۔ اور جیسے جیسے عالمی سطح پہ لوگوں کی زندگیاں طویل ہورہی ہیں، ادویا سے یہ عشق بے مہار بڑھنے کا امکان ہے۔ برطانیہ میں ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں دس میں سے ایک شخص روزانہ آٹھ دوائیں کھاتا ہے۔
تقریبا دو دہائی قبل چند عجیب و غریب حقائق سامنے آئے، مثلا یہ کہ جن لوگوں کا کولیسٹرول کم ہوتا ہے ان کا ایک پرتشدد موت مرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہی شواہد نے گولومب کو مجبور کیا کہ وہ اسٹیٹن لینے والے مریضوں کی شخصیت میں تبدیلی کے عمل کو کھوجیں۔ ایک روز جب انہوں نے اپنے ایک دفتری ساتھی سے جو کولیسٹرول کے ماہر تھے، اسٹیٹن کے ممکنہ منفی اثرات کے متعلق بات کی تو ان کی بات کو 'بے پر کی بات' کہہ کر ٹال دیا گیا۔ گولومب کا کہنا ہے کہ انہوں نے سوچا کہ ہم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسٹیٹن، شخصیت سازی کا کام نہیں کررہی۔
گولومب نے ایک نئے عزم کے ساتھ سائنسی اور طبی رسائل کا مطالعہ شروع کیا۔ "میں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ان رسائل میں میری توقعات سے کہیں زیادہ اس متعلق شواہد موجود تھے۔ ایک بات یہ سامنے آئی کہ جب ایک تحقیق کے دوران بندروں کو کم کولیسٹرول والی غذا دی گئی تو ان میں جارحیت بڑھ گئی۔"
گولومب کو اب بھرپور یقین ہے کہ کولیسٹرول میں کمی مرد اور عورت دونوں میں طرز عمل کی تبدیلیاں لاسکتی ہے۔
اور اس متعلق ایک ممکنہ  تعلق بھی نظر آتا ہے: تجربات کے دوران دیکھا گیا کہ جانوروں میں کولیسٹرول کی کمی نے ان کے دماغ میں سیروٹونن نامی کیمیکل کی مقدار کو متاثر کیا؛ واضح رہے کہ سیروٹونن کا تعلق جانوروں کے مزاج اور ان کے سماجی تعلقات سے جوڑا گیا ہے۔ اپنے سیروٹونن کی مقدار میں گڑ بڑ ہونے پہ میوہ مکھیاں [فروٹ فلائیز] ایک دوسرے سے لڑ پڑیں۔ انسانوں میں بھی ایسے ہی منفی اثرات دیکھے گئے ہیں۔ طبی تحقیق نے سیروٹونن کی سطح میں تبدیلی کا تعلق تشدد، بے اعتنائی، خودکشی، اور واردات قتل سے جوڑا ہے۔ اگر اسٹیٹن لوگوں کے دماغوں کو متاثر کرتی ہے تو یہ ممکن ہے کہ درج بالا ردعمل،  اسٹیٹن کھانے والے لوگوں میں کولیسٹرول کی کمی کا براہ راست نتیجہ ہو۔
اور اب مزید راست شواہد سامنے آئے ہیں۔ کئی تحقیقات نے اسٹیٹن اور چڑچڑے پن کے ممکنہ تعلق کو ثابت کیا ہے۔ ان ہی تحاقیق میں ایک بے ترتیب کنٹرول ٹرائل، جو کہ سائنسی تحقیق میں طلائی درجہ رکھتا ہے، بھی شامل ہے۔ یہ تحقیق گولومب کی نگرانی میں ہوئی۔ اس تحقیق میں ایک ہزار سے زائد لوگوں نے حصہ لیا۔ اس تحقیق نے ثابت کیا کہ اسٹیٹن نے مردوں میں نہیں مگر عمررسیدہ خواتین میں جارحانہ رویہ پیدا کیا۔
سنہ دو ہزار اٹھارہ میں کی جانے والی ایک تحقیق سے ایسے ہی نتائج مچھلیوں میں بھی دیکھے گئے۔ نیل تلاپیا [ایک طرح کی مچھلی] کو جب اسٹیٹن دی گئی تو وہ مچھلیاں لڑاکو ہوگئیں اور بالخصوص ان کے دماغوں میں سیروٹونن کی سطح متاثر ہوئی۔ اس  تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ کولیسٹرول اور جارحیت کے درمیان تعلق کروڑوں سال سے موجود رہا ہے۔
گولومب کو پورا یقین ہے کہ گو کہ یہ اثر کم زیادہ ہوسکتا ہے مگر کولیسٹرول میں کمی ، اور، توسیع کے ذریعہ، اسٹیٹن ، مردوں اور عورتوں دونوں میں طرز عمل کی تبدیلیوں کا سبب بنتی ہے۔ اپنی بات کے حق میں گولومب سوئیڈن میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتی ہیں جس میں دو لاکھ پچاس ہزار لوگوں میں کولیسٹرول کی سطح کا علاقے میں جرائم کے ریکارڈ سے موازنہ کیا گیا تھا۔
"متضاد عوامل کو تفریق کرنے کے باوجود یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جن لوگوں میں کولیسٹرول کی سطح بنیادی خط سے نیچے تھی وہ لوگ پرتشدد وارداتوں میں زیادہ ملوث پائے گئے۔"
لیکن گولومب کی سب سے پریشان کن دریافت اس متعلق نہیں ہے کہ عام دوائیں کس طرح شخصیت سازی کا کام کررہی ہیں بلکہ اس متعلق ہے کہ کسی کی بھی دلچسپی اس امر کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں نظر نہیں آتی۔ "زیادہ زور ان  نتائج پہ دکھائی دیتا ہے جنہیں ڈاکٹر آسانی سے پرکھ سکتے ہیں،" گولومب بتاتی ہیں اور سمجھاتی ہیں کہ کس طرح ایک طویل عرصے تک طبی تحقیق صرف اس متعلق جاری رہی کہ اسٹیٹن کس طرح پٹھوں اور جگر پہ اثرانداز ہوتی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کیونکہ خون کے ٹیسٹ کے ذریعے اس متعلق تحقیق کرنا آسان تھا۔
یہی بات جامعہ اوہایو کے ماہر درد، ڈومینیک مشکووسکی، نے بھی نوٹ کی ہے۔ "جب بات شخصیت اور طرز عمل پہ اثرانداز ہونے کی آئے تو اس متعلق دوائوں کے اثر پہ بہت کم تحقیق کی گئی ہے۔ ہمیں ادویا کے جسمانی اثرات کے بارے میں اچھی آگہی ہے کہ آیا ان ادویا کے منفی اثرات جسمانی نظام پہ مرتب ہوتے ہیں یا نہیں مگر ہمیں یہ نہیں پتہ کہ یہ ادویا انسان کے طرز عمل پہ کس طرح اثرانداز ہوتی ہیں۔"
مشکووسکی کی اپنی تحقیق نے پیراسٹامول کے ایک خطرناک منفی اثر کو بے نقاب کیا ہے۔ سائنسدانوں کے علم میں ایک عرصے سے یہ بات رہی ہے کہ پیراسٹامول، دماغ کے بعض حصوں میں سرگرمی روکتے ہوئے دراصل درد کے احساس کو ختم کردیتی ہے۔ مگر جسم کے یہی حصے معاشرتی درد کا بھی مرکز ہیں۔ حیرت انگیز طور پہ پیراسٹامول، مرِیض میں ٹھکرائے جانے کے درد کو بھی کم کرتی ہے۔
اور جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ پیراسٹامول دماغ کے جس حصے پہ اثرانداز ہوتی ہے اس حصے میں بہت کچھ ہورہا ہوتا ہے۔ دماغ کے اسی حصے میں ہماری انسانیت اور دوسروں سے ہمدردی کے جذبات بھی جنم لیتے ہیں۔
مثلا ایف ایم آر آئی (فنکشنل مقناطیسی گونج امیجنگ) اسکینوں نے یہ دکھایا ہے کہ جب ہم دوسرے لوگوں سے ہمدردی محسوس کرتے ہیں تو ہمارے دماغ کے وہی حصے متحرک ہوجاتے ہیں جو جسمانی درد کا سامنا  کرنے پہ متحرک ہوتے ہیں۔
انہیں باتوں کو دیکھتے ہوئے مشکووسکی کا استفسار ہے کہ جسمانی درد کو ختم کرنے والی دوائیں کہیں ہمارے اندر دوسروں کے لیے ہمدردی کے جذبات ختم کرتے ہوئے ہمیں سنگ دل تو نہیں بنا رہیں۔
اس سال کے شروع میں مشکووسکی اور ان کے ساتھیوں نے بہت سے رضاکار طلبا کو دو گروہوں میں تقسیم کیا۔ ایک گروہ کو ایک ہزار ملی گرام والی پیراسٹامول دی گئی جب کہ دوسرے گروہ کو پیراسٹامول کے نام پہ نقلی، بے اثر گولیاں دی گئیں۔ پھر ان طلبا سے کہا گیا کہ وہ دوسروں کو پیش آنے والے ایسے واقعات بیان کریں جنہیں سن کران کی اپنی ڈھارس بندھی ہو۔
نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ پیراسٹامول کے استعمال سے ہمارے اندر دوسروں کے لیے مثبت ہمدردی کم ہوتی ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ کس طرح یہ روزمرہ استعمال کی جانے والی دوا، کروڑوں لوگوں کی سماجی زندگیاں بدلنے کا کام کررہی ہے۔ گو کہ اس تجربے نے لوگوں کی 'منفی ہمدردی' یعنی کہ جب ہم دوسروں کے دکھ کو محسوس کرتے ہیں، کو نہیں جانچا، مشکووسکی کا خیال ہے کہ منفی ہمدردی پہ بھی دوا کے ایسے ہی اثرات ہوتے ہوں گے جیسے مثبت ہمدردی پہ ہوتے نظر آئے ہیں۔
مشکووسکی کا کہنا ہے کہ تحقیق کے میدان میں ان کے وسیع تجربے کے باوجود انہوں نے اس  مخصوص شعبے میں تحقیق ہوتے نہیں دیکھی ہے  اور یہ بہت تشویشناک بات ہے۔ "آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان دوائوں کا اثر کتنے زیادہ لوگوں پہ ہورہا ہے۔ جب آپ کسی شخص کو دوا دیتے ہیں تو آپ صرف ایک فرد کو دوا نہیں دے رہے ہوتے، آپ ایک سماجی نظام کو دوا دے رہے ہوتے ہیں۔ اور سچ پوچھیں تو ہم ان دوائوں کا وسیع تر اثر ہرگز نہیں جانتے۔"
نرم دل ہونے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کتنے 'اچھے' شخص ہیں یا غم زدہ فلمیں دیکھتے ہوئے آپ پہ رقت طاری ہوجاتی ہے۔ نرم دلی کے جذبات کا اور بہت سی حقیقی باتوں سے تعلق ہے۔ مثلا یہ کہ نرم دل افراد جنس مخالف کے ساتھ طویل عرصہ نبھا کرسکتے ہیں، وہ بچوں کی اچھی نگہداشت کرسکتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنی نوکری میں کامیاب ہوتے ہیں۔ بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ 'انسانیت' کے ان ہی جذبات نے ہمیں دوسرے جانوروں کے مقابلے میں بڑھ کر دنیا میں کامیاب کیا ہے۔ درحقیقت، دیکھا جائے تو کسی شخص کے اندر نرم دلی کے جذبات کم کردینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
بغور دیکھیں تو پیراسٹامول کا استعمال ہماری شخصیت سازی نہیں کررہا کیونکہ ایک بات تو یہ کہ ہم پیراسٹامول کچھ عرصے کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہ اس کا اثر کچھ ہی دیر ہمارے اوپر رہتا ہے۔ مگر مشکووسکی کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود مریضوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ دوا کس طرح ہمارے مزاج پہ اثرانداز ہوتی ہے تاکہ مریض اپنے اندر آنے والی کسی تبدیلی کو سمجھ سکے۔ "بالکل اس طرح جس طرح ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں نشے کی حالت میں گاڑی نہیں چلانی چاہیے، اسی طرح پیراسٹامول کھانے کے بعد ہمیں کسی ایسی صورتحال کا سامنا کرنے سے گریز کرنا چاہیے جہاں جذباتی رد عمل ظاہر کرنے کی ضرورت پیش آئے مثلا کام پہ اپنے کسی ساتھی سے کوئی جھگڑا نمٹانے کے معاملے میں یا اپنے شریک حیات سے اسی قسم کا کوئی سنجیدہ معاملہ طے کرنے میں۔"
دوائیں ہماری نفسیات پہ اس وجہ سے اثر انداز ہوتی ہیں کیونکہ ہمارا جسم، محض اعضا کا ایسا مجموعہ نہیں ہے جس میں بہت سارے کیمیکل دوڑ رہے ہیں اور ہر کیمیکل بس ایک خاص طریقے سے کام کررہا ہے؛ ہمارا جسم تو ایک نیٹ ورک ہے جس میں بہت سے مختلف عمل ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
سائنسدانوں کے علم میں ایک عرصے سے یہ بات رہی ہے کہ دمے کی دوائیں بعض دفعہ ہماری عادات پہ اثر انداز ہوتی ہیں؛ مثلا، یہ دوائیں مریض کو زیادہ متحرک [ہائپر ایکٹو] بنا دیتی ہیں، یا مریض میں کسی موضوع پہ توجہ مبذول کرنے کی صلاحیت کم کرتی ہیں [اے ڈی ایچ ڈی۔ اٹینشین ڈیفیسٹ ہائپرایکٹوٹی ڈس آرڈر]۔  کچھ عرصے پہلے ہی ایک تحقیق کے دوران ان دونوں عارضوں کے درمیان ایک پراسرار تعلق سامنے آیا۔ ان دو میں سے کسی ایک میں زیادتی خود بخود دوسرے عارضے میں پینتالیس سے ترپن فی صد اضافے کا سبب بنتی ہے۔ ہمیں اب تک یہ نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہوتا ہے مگر ایک خیال ہے کہ دمے کی دوائیں توجہ میں کمی کا باعث اس طرح بنتی ہیں کیونکہ یہ دوائیں دماغ میں سیروٹونن یا سوزش والے کیمیکل کی سطح تبدیل کرتی ہیں؛ یہی کیمیکل ہم میں توجہ میں کمی پیدا کرتے ہیں اور لوگوں کو زیادہ متحرک بناتے ہیں۔
بعض دفعہ دوائوں کے ایسے ذیلی تعلق کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ سنہ دو ہزار نو میں نارتھ ویسٹرین جامعہ، الی نوائے، کے ایک  تحقیقی گروہ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا ضد یاسیت [اینٹی ڈپریسینٹ] دوائیں ہماری شخصیت پہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ تحقیق بالخصوص مریضوں میں 'نیوروٹیسیزم' جانچنے کی کوشش تھی۔ واضح رہے کہ پانچ بڑے شخصیتی اوصاف میں نیوروٹیسیزم شامل ہے اور یہ خوف، حسد، رشک، اور احساس جرم کی علامتوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے لیے محققین نے ایسے بالغ مریضوں کو چنا جو معمولی یاسیت سے سنگین یاسیت کا شکار تھے۔ ایک تہائی مریضوں کو پیروزٹین نامی دوا دی گئی، ایک تہائی کو نقلی، بے اثر گولی دی گئی، اور بقیہ ایک تہائی مریضوں کا علاج صرف گفتگو کے ذریعے کیا گیا۔ پھر دیکھا گیا کہ سولہ ہفتے کے اس علاج کے بعد مریضوں کی شخصیت اور موڈ میں کس طرح کی تبدیلیاں آئیں۔
محققین میں شامل رابرٹ ڈی روبیس  کا کہنا ہے کہ، "دوا کا استعمال کرنے والے مریضوں کے نیوروٹیسیزم میں زبردست تبدیلیاں آئیں جب کہ بقیہ دو گروہوں کے نیوروٹیسیزم میں ایسی کوئی خاص تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ یہ نتائج ہمارے لیے حیران کن ہیں۔"
زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ ضد یاسیت دوائوں نے نہ صرف مریض کی یاسیت کم  کی بلکہ اس سے زیادہ مریض کے نیوروٹیسیزم کو کم کرنے کا کام کیا؛ اور ان دوائوں کا نیوروٹیسیزم پہ اثر یاسیت پہ اثر سے آزاد تھا۔ یہ مریض لوگوں سے میل ملاپ میں زیادہ  بے باک ہو گئے۔
یہ بات بتانا ضروری ہے کہ یہ تحقیق ایک نسبتا چھوٹے گروہ پہ کی گئی اور کسی اور جگہ یہ تجربہ دہرایا نہیں گیا ہے؛ یعنی اس تحقیق کے نتائج پہ بہت زیادہ اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود یہ نتیجہ کہ ضد یاسیت دوائیں مریض کے نیوروٹیسیزم پہ اثر انداز ہو رہی ہیں، کافی حیرت انگیز ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ نیوروٹیسیزم کا تعلق دماغ میں سیروٹونن کی سطح سے ہے، اور یہ سطح ایس ایس آر آئی دوائوں سے متاثر ہوتی ہے۔
بظاہر نیوروٹیسیزم کا کم ہونا ضد یاسیت دوا کا ایک خوش آئند ذیلی اثر معلوم ہوتا ہے، مگر غور کیجیے تو یہ بہت اچھی بات نہیں ہے۔ ہمارے اندر موجود نیوروٹیسیزم اچھے اور برے نتائج مرتب کرسکتا ہے۔ مثلا زیادہ نیوروٹک افراد مشکل سے کوئی رسک لینا چاہتے ہیں، اور بعض صورتوں میں کسی صورتحال پہ پریشان ہو کر اس کے متعلق سوچنا ہمارے لیے اچھا ثابت ہوتا ہے۔
ڈی روبیس  کا کہنا ہے کہ، "امریکی نفسیات دان، پیٹر کریمر، نے ہمیں یہ تنبیہ کی ہے کہ جو لوگ ضد یاسیت دوائیں استعمال کرتے ہیں وہ ان معاملات کے بارے میں بھی بے فکر ہوجاتے ہیں، جن معاملات کے بارے میں ایک انسان سوچ و بچار کرتا ہے۔" اگر ضد یاسیت دوائوں کے یہ نتائج شبہے سے بالاتر ہوجائیں تو کیا مریضوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ دوائیں اور کس طرح انہیں تبدیل کریں گی؟
ڈی روبیس   کہتے ہیں کہ، "اگر میرا کوئی دوست ایسی دوا کھا رہا ہے تو میں ضرور اس دوا کے ذیلی اثرات کے متعلق اسے خبردار کروں گا بالکل اس طرح جیسے اگر میرے کسی دوست کا وزن بڑھ رہا ہے تو میں اسے ضرور بتائوں گا کہ وزن بڑھنے کے ذیلی اثرات کیا ہوسکتے ہیں۔"
اس موقع پہ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ بات ہرگز نہیں کہی جارہی کہ لوگ دوائیں کھانا چھوڑ دیں۔ شخصیت اور مزاج پہ دوسرے اثرات مرتب کرنے کے باوجود، ضد یاسیت دوائوں نے بہت سے لوگوں کو خودکشی سے بچایا ہے، کولیسٹرول کم کرنے والی دوائیں ہر سال ہزاروں لوگوں کی زندگیاں بچاتی ہیں، اور درد کم کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے پیراسٹامول، ورلڈ ہیلتھ اورگنائیزیشن کی اہم ترین دوائوں کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کو ان دوائوں کے ذیلی نفسیاتی اثرات کے متعلق خبردار کرنا ضروری ہے۔
دوائوں کے ذیلی نفسیاتی اثرات کی بحث اس وقت ایک نیا موڑ لیتی ہے جب شخصیت میں ڈرامائی تبدیلیوں کی بات آتی ہے۔ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ رعشہ [پارکنسن علالت] کے لیے دی جانے والی دوا ایل-ڈوپا لوگوں میں اشتہا ضبط کرنے کی صلاحیت کم کرتی ہے۔
نتیجتا ایل-ڈوپا کھانے والے مریض خطرناک عادتوں کا باآسانی شکار ہوسکتے ہیں؛ وہ عادی جواری بن سکتے ہیں اور خریداری یا جنسی تعلق کے معاملات میں بھی اسی طرح کا نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ سنہ دو ہزار نو میں امریکہ میں ایک ایسا شخص گرفتار ہوا جو ساٹھ ہزار ڈالر کے فراڈ میں ملوث تھا۔ اس شخص نے عدالت میں صفائی پیش کی کہ اس کی دوا نے اس کی شخصیت یکسر تبدیل کرکے اسے مجرم بنایا۔
بے مہار عادت والی بات یوں سمجھ میں آتی ہے کہ ایل ڈوپا دماغ کو اضافی ڈوپامن فراہم کرتی ہے جس کی ضرورت پارکنسن کے مریضوں کو ہوتی ہے کیونکہ ان مریضوں کے دماغ میں ڈوپامن بنانے والا حصہ کمزور ہوجاتا ہے۔ مگر ڈوپامن ہی ہمیں لذت اور کچھ حاصل کرلینے کے خوشی کے جذبات بھی دیتی ہے۔
امریکہ میں ہر سال ہزاروں لوگوں کو ایل-ڈوپا دوا دی جاتی ہے اور پارکنسن علالت کے لیے یہ ایک بہترین دوا ہے۔ اس دوا کی مقبولیت اس تمام انتباہ کے باوجود ہے جو دوا کے ذیلی اثرات سے متعلق ہے؛ مریضوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ کس طرح یہ دوا ان میں جوا کھیلنے یا جنسی عمل کی، طاقت ور اشتہا پیدا کرسکتی ہے۔
درحیقیقت ڈی روبس، گولومب، اور مشکووسکی کا کہنا ہے کہ تمام تر ذیلی نفسیاتی اثرات کے باوجود لوگ یہ دوائیں استعمال کرتے رہیں گے۔ مشکووسکی  کہتے ہیں کہ،"ہم انسان ہیں۔ ہم صرف وہ کچھ نہیں کرتے جو ہمارے لیے اچھا ہے۔"
اس کے باوجود مشکووسکی کا کہنا ہے کہ دوائوں کے ذیلی نفسیاتی اثرات کے متعلق لوگوں کو خبردار کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس وقت یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ یہ دوائیں کس طرح افراد کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کو بدلنے کا کام کرہی ہیں۔
تصویر: بشکریہ بی بی سی
اصل [انگریزی] مضمون:




Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?