Saturday, February 09, 2019

 

تازہ سفر کا مختصر حال



 ایک اور سفر تمام ہوا۔ ایک اور سفر جو مجھے بےحد مالا مال کرگیا۔ تقریبا پانچ ہزار تصاویر، دو سو گیگا بائٹ پہ مشتمل گھنٹوں کی ویڈیو، سو گیگا بائٹ پہ مشتمل گھنٹوں کی آڈیو، ہزاروں لکھے الفاظ، اور بے شمار حسین یادیں۔
یہ سفر کیلی فورنیا کے ایک گائوں سے شروع ہوا۔ یہاں سے سان فرانسسکو ہوائی اڈے کی مسافت قریبا پانچ گھنٹے کی ہے۔ ہوائی اڈے پہنچ کر کرائے کی گاڑی واپس کی اور ترک ہوا یولاری سے روانہ ہوگئے۔ بارہ گھنٹے سے اوپر کی پرواز کے بعد استنبول پہنچے جہاں چند گھنٹے کے انتظار کے بعد دوسری پرواز کراچی کے لیے تھی۔ اگلے دو ہفتے کراچی میں اپنے محبت کرنے والوں کے ساتھ گزارے، نبیل میاں کی شادی کی تقریبات میں شرکت کی، پرانے دوستوں سے ملنا ہوا اور ساتھ چند ایسے فیس بکی یاروں سے بھی جن سے پہلے کبھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اور پھر واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔ ترک ہوا کراچی سے صبح چھ بجے کے قریب روانہ ہوتی ہے اس لیے اس سے پہلی والی رات غارت ہوئی۔ بھلا ہو صابر کا جو ہمیں صبح ہوائی اڈے چھوڑنے کے لیے نیچے تہ خانے میں سوگیا تھا۔ اس نے صبح بتایا کہ وہ رات سو نہ پایا کیونکہ جس چارپائی پہ وہ لیٹا وہ کھٹملوں سے بھری ہوی تھی۔ مجھے یہ جان کر افسوس ہوا اور میں نے اس کی تکلیف کا مداوا کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔
ہم استنبول سویرے ہی پہنچ گئے۔ وہاں قیام سلطان احمد نامی پرانے علاقے میں تھا۔ استنبول میں دو دن قیام کے دوران سب سے بڑا کام جمال خاشق جی کے جائے قتل کا معائنہ تھا۔ اپنی آنکھوں سے دیکھنا مطلوب تھا کہ واقعی استنبول میں ایک سعودی قونصل خانہ ہے جس کا  شور ٹی وی اور اخبارات میں خوب ہوا تھا۔ سعودی قونصل خانے کے آس پاس کی ایک ویڈیو بنائی ہے جسے اپنے یوٹیوب چینل پہ ڈالنے کا ارادہ ہے۔
دو دن کے بعد ترک ہوا کی ایک اور پرواز سے مالتا پہنچے۔ وہاں سلیما نامی قصبے میں قیام تھا۔ سلیما میں چند دن قیام کے دوران دارالحکومت ویلیتا، قدیم قصبے مدینہ، اور گوزو نامی جزیرے پہ جانا ہوا۔
اگلی منزل قبرص تھی۔ یونانی قبرص کے شہر لرناکا امارات کی ایک پرواز سے پہنچے۔ قبرص میں قیام لی مو سول نامی شہر میں تھا۔ چند دن کے اس قیام کے دوران یونانی قبرص کے کئی علاقے دیکھے اور نکوسیا دیکھنے کے دوران شہر کے بیچ میں موجود سرحد پار کر کے ترک قبرص کا نکوسیا مختصرا دیکھا۔
مالتا اور قبرص دونوں جگہ ہمارے پاس کرائے کی گاڑیاں تھیں چنانچہ ہر دفعہ جزیرہ چھوڑتے ہوئے پرواز سے پہلے کرائے کی گاڑی میں پیٹرول بھر کر اسے واپس کرنے کا وقت بھی رکھنا ہوتا تھا۔
کیونکہ ہم یونانی قبرص میں ٹھہرے تھے اس لیے استنبول جاتے ہوئے پہلی پرواز لرناکا سے ایتھنزکی تھی۔ پھر وہاں سے گھنٹے بھر قیام کے بعد استنبول۔ استنبول میں اپنے ٹھکانے پہنچتے پہنچتے رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے تھے۔ ہمارا میزبان حکمت، ہمارے استقبال کے لیے موجود تھا۔
صبح ہوئی تو سان فرانسسکو واپسی کے لیےجہاز میں چڑھنے کی تیاری شروع ہوگئی۔ استنبول ہوائی اڈے پہ کراچی کے ہوائی اڈے کی طرح دو جگہ جامہ تلاشی سے گزرنا ہوتا ہے۔ اور پھر امریکہ جانے والے مسافروں کی گیٹ کے قریب الگ سے تلاشی ہوتی ہے۔ یوں تین تلاشیاں ہوئیں۔ مجھے یہ تلاشیاں بہت گراں گزرتی ہے اور ہر دفعہ دل کرتا ہے کہ صاف کہہ دوں کہ میں سامان سے لیپ ٹاپ نہیں نکالوں گا، جیبیں خالی نہیں کروں گا، بیلٹ نہیں اتاروں گا؛ تم اپنی مرضی سے جیسے چاہے تلاشی کرو؛ سامان ضرور کھولو مگر پھر اسی طرح احتیاط سے واپس رکھ دینا؛ سارا سامان پھیلانے کے بعد مجھے نہ کہنا کہ اب سامان خود بند  کریں۔ مگر کیا کیجیے کہ ان لوگوں سے بحث کرنا وقت ضائع کرنا ہے اس لیے ہر دفعہ کڑوا گھونٹ پی کر حکم کی تعمیل کرتا ہوں۔
استنبول سے سان فرانسسکو کا سفر نسبتا بہتر گزرا کیونکہ میں نے چوبیس گھنٹے کا انٹرنیٹ کنکشن خرید لیا تھا اور جو کام واپس گھر پہنچ کر نمٹانے تھے انہیں جہاز کے سفر کے دوران ہی مکمل کردیا۔
جہاں گائوں میں رہنے کے بہت سے فائدے ہیں وہیں ایک نقصان یہ بھی ہے کہ طویل سفر کے بعد ہوائی اڈے سے گائوں تک پانچ گھنٹے کی مسافت بہت کھلتی ہے۔ سان فرانسسکو پہنچ کر کرائے کی گاڑی لی اور گائوں کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں نیند کا شدید غلبہ تھا۔ دو جگہ گاڑی روک کر تھوڑی تھوڑی دیر کی نیند کی کہ کہیں گاڑی چلاتے ہوئے آنکھ نہ لگ جائے۔
گائوں رات گیارہ بجے کے قریب پہنچے۔ ہماری طویل غیرموجودگی کی وجہ سے گھر ٹھنڈا پڑا تھا۔ اندر کے درجہ حرارت کو بہتر کرنے میں کچھ وقت لگا۔
آج تیسرا دن ہے مگر اب تک دن رات الٹے ہیں۔ شام پانچ چھ بجے نیند سے برا حال ہوتا ہے اور صبح ایک دو بجے آنکھ کھل جاتی ہے۔ ٹم کُک کے صبح تین بجے اٹھنے کا معمہ سمجھ میں آگیا۔ ضرور کام کے سلسلے میں بھارت گیا ہوگا۔ واپس پہنچ تو جیٹ لیگ کی وجہ سے صبح تین بجے اٹھنے لگا اور پھر بیداری کے ان ہی اوقات کو اپنا معمول بنا لیا۔

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?