Tuesday, March 13, 2018

 

کھینچاتانی

کھینچاتانی

پروفیسر نورالحسن کی زندگی کی آخری دو دہائیوں کی کہانی وہ کتھا ہے جس کا مشاہدہ بار بار ہوا ہے۔ یہ دو عمرانی دائروں کے درمیان لوگوں کی کھینچاتانی کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں ایک طرف ایک ترقی پذیر ملک ہوتا ہے اور دوسری طرف ایک ترقی یافتہ ملک۔ وہ ترقی پذیر ملک بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، فلپائن، میکسیکو یا تیسری دنیا کا کوئی بھی ملک ہوسکتا ہے۔ اور ترقی یافتہ ملک آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ، یا یورپ کا کوئی ملک ہوسکتا ہے۔ کہانی یوں شروع ہوتی ہے کہ ترقی پذیر ملک کے ایک آدمی نے اپنی محنت سے معاشرے میں اپنا ایک مقام بنایا ہوتا ہے۔ اسی محنت کے توسط سے یہ سہولت پیدا ہوئی ہوتی ہے کہ اس شخص کے بچے بیرون ملک جاسکیں۔ بچے ان جگہوں پہ جائیں جہاں معاشرہ نووارد کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہے، مثلا، مشرق وسطی کے ممالک میں، تو کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن یہ بچے اگر ترقی یافتہ دنیا پہنچ جائیں جہاں کا معاشرہ ان کو اپنا بنانے کے لیے تیار ہو تو پھر ان بچوں کو ایسی محبت، ایسا نظام بہت راس آتا ہے۔ انہیں قانون کی بالادستی؛ بجلی، پانی کی ہمہ وقت دستیابی؛ معاشرے کا نظم و ضبط بہت پسند آتا ہے۔ یہ نظام اس جنگل کے نظام سے بہت مختلف ہے جسے وہ چھوڑ کر آئے ہوتے ہیں۔ اور پھر اس پہ طرہ یہ کہ یہ جگہ جو پرانی جگہ سے کہیں بہتر ہے اس نووارد کو اپنانے کے لیے بھی تیار ہے۔ یہ یہ کرو تو یہاں کے شہری بن جائو۔ تمھارے وہی حقوق ہیں جو چار پشتوں سے یہاں رہنے والے کسی شہری کے ہیں۔ تو پھر راحت اور محبت کے اس معاشرے کو انسان کیسے نہ اپنائے؟ ترقی یافتہ ممالک سے آنے والے یہ بچے یہیں کے ہورہتے ہیں۔ اور وقت گزرتا جاتا ہے۔ یہ بچے اپنے اختیارکردہ وطن کے میکانیکی نظام میں غرق ہوتے جاتے ہیں۔ پھر ترقی پذیر ملک میں رہنے والے والدین اور ترقی یافتہ ملک میں رہنے والے بچوں میں کھینچاتانی شروع ہوتی ہے۔ بچے چاہتے ہیں کہ والدین ان کے پاس آکررہیں مگر والدین حیران ہوتے ہیں کہ پیران سالی میں جانی پہچانی جگہ چھوڑ کر کیسے کسی نئی جگہ چلے جائیں۔ اور پھر کئی صورتوں میں کچھ زعم اپنے شاندار ماضی کا بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے جو بھی پیشہ اختیار کیا تھا اس میں وہ کامیاب تھے اور اب ان کے آس پاس کے لوگ انہیں اسی کامیابی کے حوالے سے جانتے ہیں۔ مگر وقت کا کیا کیجیے۔ رہے تھے وہ اپنے وقتوں کے مشہور کھلاڑی، مشہور مصنف، مشہور شاعر، مشہور سیاست داں، مشہور وکیل، مشہور ڈاکٹر، مگر اب شام کا وقت ہے۔ بدن میں توانائی کم ہورہی ہے۔ طرح طرح کی بیماریاں گھیرا تنگ کررہی ہیں۔ فیصلے کی گھڑی ہے۔ کیا اس جگہ کو چھوڑ دیا جائے جہاں اپنے بچے تو نہیں ہیں مگر اور بہت سے لوگ ہیں جن کے ساتھ ایک عمر بیتی ہے؟ کیا وہاں جایا جائے جہاں اپنے بچوں کے علاوہ جان پہچان کا شاید کوئی بھی شخص نہیں؟ زندگی کے آخری باب کی کہانی کیسے لکھی جائے؟

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?