Saturday, February 10, 2018
ریاست حیدرآباد میں ہندو مسلم تفرقے کا آغاز
ریاست
حیدرآباد میں ہندو مسلم تفرقے کا آغاز
میرا آبائی وطن ہے گلبرگہ ہے جو ریاست دکن کا ایک ضلع تھا۔
میں وہیں سنہ انیس سو چھبیس میں پیدا ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ ریاست حیدرآباد میں ہندو
مسلم مل جل کر رہتے تھے۔ میرے والد کے ایک گہرے دوست سدھاپہ نام کے تھے۔ ہم انہیں
اکا کہتے تھے جو کناڈا زبان میں چچا کو کہا جاتا ہے۔ ریاست میں طاعون پھیلا تو سدھاپہ
اکا بیمار پڑ گئے۔ اس زمانے میں جب چوہوں سے طاعون پھیلتا تھا تو لوگ اس جگہ سے
دور چلے جاتے تھے جہاں طاعون پھیلا ہوتا تھا؛ جانے والے، بیماروں کو پیچھے چھوڑ
جاتے تھے۔ اکا کے ساتھ بھی یہ ہوا۔ ان کے رشتہ دار انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔ مگر
ہمارے والد نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ ہمارے والد مستقل اپنے بیمار دوست سے ملنے
جاتے تھے۔
مگر آہستہ آہستہ زمانہ بدلتا گیا۔ گاندھی نے اپنی توجہ
حیدرآباد کی طرف کی۔ گاندھی ستیہ گرہ کے لیے شعلہ پور اور پونا سے کارکنوں کو
بھرتی کرتا۔ یہ لوگ ٹرین میں بغیر ٹکٹ سفر کر کے حیدرآباد پہنچتے تھے اور نظام دکن
کے خلاف نعرے بازی کرتے تھے۔ ان واقعات سے ریاست کے مسلمانوں میں یہ تاثر ابھرا کہ
کانگریس اور گاندھی ریاست کے مسلمان بادشاہ کو ہٹا کر ہندوءوں کی حکومت قائم کرنا
چاہتے تھے۔ جمہوریت کے لیے ایسی کوشش سیاسی نہ تھی بلکہ متعصبانہ تھی کیونکہ کشمیر
میں ایک ہندو بادشاہ تھا مگر کانگریس کشمیر میں لوگوں کو بھیج کروہاں بادشاہت ختم
کرنے کی کوشش نہیں کر رہی تھی۔
مجھے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے کہ قائداعظم بمبئی سے مدراس
جا رہے تھے۔ پوری ٹرین مسلم لیگ کی تھی جس میں لیگ کے بڑے لیڈر موجود تھے۔ راستے
میں ہمارا قصبہ شاہ آباد پڑتا تھا۔ ٹرین شاہ آباد میں کوءلہ بھرنے کے لیے رکی۔ تین
بجے کا وقت تھا۔ قائداعظم کی آمد کی خبر آنا فانا خبر پورے میں پھیل گئی۔ قصبے کے سارے مسلمان
اسٹیشن پہ پہنچ گئے اور قائداعظم زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ لوگ قائداعظم کو
دیکھنا چاہتے تھے اور ان کی تقریر سننا چاہتے تھے۔ اس وقت فاطمہ جناح ٹرین کے ڈبے
سے باہر آئیں۔ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ قائداعظم بیمار ہیں، انہیں بخار ہے، اور
وہ باہر نہیں آسکتے۔ فاطمہ جناح نے اپنی مختصر تقریر میں لوگوں کو بتایا کہ مسلم
لیگ پاکستان بنانا چاہتی تھی۔ پھر مسلم لیگ کے دوسرے راہ نما بھی ڈبے سے باہر آءے
اور انہوں نے بھی تقریریں کیں۔ ان لوگوں میں سردار عبدالرب نشتر اور آئی آئی چندریگر
شامل تھے۔
میں جب علیگڑھ میں پڑھتا تھا تو وہاں نوابزادہ لیاقت علی
خان آءے۔ انہوں نے بیس پچیس لڑکوں کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ وہ لڑکے فرنٹئیر جا
کر تحریک پاکستان پہ کام کریں۔ میں ان لڑکوں میں شامل تھا۔ ہم لوگ پشاور پہنچے اور
وہاں ایک بنگلے میں قیام کیا۔ اس وقت فرنٹئیر کے چیف منسٹر ڈاکٹر خان صاحب تھے جو
سرحدی گاندھی کے بھائی تھے۔ ڈاکٹر خان صاحب کے دست راست ایک ہندو تھے۔ پشاور میں
قیام کے دوران مجھے وہاں جو مواد ملا اس سے معلوم ہوا کہ یہ ہندو صاحب پشاور میں
بیٹھ کر حیدرآباد دکن کے نواب کے خلاف کیا سازشیں کر رہے تھے اور کس طرح ریاست کے
ہندوءوں کو نظام حیدرآباد عثمان علی خان کے خلاف اکسایا جارہا تھا۔
انہیں دنوں جمیل الدین صاحب علیگڑھ میں انگریزی کے پروفیسر
تھے۔ انہوں نے اخبارات میں کالم لکھے کہ کانگریس اور گاندھی مسلمانوں کے خلاف یہ
کام کررہے ہیں مگر مسلم لیگ کی توجہ اس طرف نہیں ہے۔ اسی طرح زیڈ اے سلیری ایک اچھا
نوجوان تھا جس نے لاہور کے ایک اخبار میں اسی بارے میں لکھا۔
گاندھی بظاہر ہندو مسلم اتحاد چاہتا تھا مگر دراصل وہ ان
دونوں گروہوں میں نفرت پیدا کرنے کا سبب بنا۔
پروفیسر سید محمد نورالحسن کی ایک یادداشت
[جاری ہے]