Tuesday, May 16, 2017

 

سائنس اور توہمات

سائنس اور توہمات

ہمارے معاشرے میں موجود بہت سارے توہمات کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ سائنس اور توہمات دو الگ الگ راستے ہیں۔ سائنس قوانین قدرت کو سمجھنے کا نام ہے۔ سائنس کا درومدار اس کلیے پر ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی یہ کائنات لاکھ پیچیدہ سہی مگر کمیا سے لے کر فلکیات تک ہر شعبے میں ایسے قوانین موجود ہیں جنہیں آپ مشاہدے، تجربات اور فکر سے پا سکتے ہیں۔ سائنس اور توہمات میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ توہمات ہماری زندگیوں کو ایک غیریقینی صورت عطا کرتے ہیں۔ توہمات کہتے کہ کبھی ایسا ہوجاتا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ سائنس صرف یقینی باتیں کرتی ہے۔ سوڈیم ہائیڈروآکسائڈ کے محلول کو ہائیدڑوکلورک تیزاب کے محلول ميں ملائیں تو الکلی اور تیزاب مل کر نمک اور پانی بنائیں گے اور ہمیشہ بنائیں گے۔ سائنس کسی کے ساتھ تعصب نہیں کرتی۔ اس کے تجربات سب کے لیے یکساں ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی سطح سمندر پر آپ ایک مخصوص لمبائی والے پینڈولم کو لٹکا کر دیکھ لیجیے۔ اس کے ایک چکر لگانے کا وقت یکساں ہوگا۔ یہ ساری کائنات حکم خدواندی کے تابع ہے اور خدا کا یہ حکم خاص قوانین کے ذریعے کائنات پہ لاگو ہے۔ خدا یقینا ایسا کر سکتا ہے کہ وہ اپنے احکامات [قوانین قدرت] کو اپنی مرضی سے تبدیل کرتا رہے مگر وہ ایسا کرتا نہیں ہے۔ کم از کم جب سے سائنسی فکر نے زور پکڑا ہے تب سے ایسا کوئی مشاہدہ ہماری نظر میں نہیں ہے۔
جہاں ایک طرف سائنس میں یقین ہے اور اس کے تجربات سب کے لیے کھلے ہیں وہیں دوسری طرف توہمات میں غیر یقینی ہے اور اس کی باتیں رازداری سے خاص خاص لوگوں کے لیے ہیں۔ علم فلکیات ایک سائنس ہے جب کہ علم نجوم محض توہمات پر مبنی ہے۔ علم فلکیات کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ اس کی کتابیں باآسانی دستیاب ہیں۔ کوئی بھی شخص ان کتابوں کو پڑھ کر چاند اور ستاروں کی گردش کے بارے میں جان سکتا ہے اور آسانی سے حساب لگا سکتا ہے کہ اگلا چاند گرہن یا سورج گرہن ہوگا۔ اس کے مقابلے میں علم نجوم ایک فراڈ ہے۔ یہ امکانات کے بارے میں بات کرتا ہے کہ شاید ایسا ہو مگر ضروری نہیں ہے کہ ایسا ہو۔ ایسے امکانات کے بارے میں قیاس آرائی تو ایک بچہ بھی کر سکتا ہے۔ کوئی بھی آپ کو یہ بتا سکتا ہے کہ آج سفر کرتے ہوئے آپ شاید حادثے ک شکار ہو جاتئیں لہذا محتاط رہیے گا۔ [یہاں شاید کے استعمال کا مقصد یہ ہے کہ شاید آپ حادثے کا شکار نہ بھی ہوں۔] علم نجوم کی بنیاد اس کلیے پہ ہے کہ آپ کی پیدائش کے وقت آسمان میں ایک خاص جگہ پہ جو ستاروں کا مجموعہ تھا [جو کہ آپ کے برج کا تعین کرتا ہے] اور جو سیارے اس مجموعے میں تھے یا اس وقت دوسرے مجموعوں میں موجود تھے ان کا اثر آپ کی تمام زندگی پر پڑے گا۔ اس کلیے کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ کسی قسم کی سیاروں کی کشش، ان سے منعکس ہو کر آنے والی روشنی، ان کا مقناطیسی میدان، یا سیاروں کی کوئی اور خصوصیت کسی طریقے سے بھی انسان کی قسمت پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر سیگن کا کہنا ہے کہ علم نجوم کا یہ کلیہ محض جھوٹ ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو جڑواں بچوں کی قسمتیں ایک جسی ہوتیں مگر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ دو جڑواں بچوں میں سے ایک بچے بچپن میں ہی مر گیا جب کہ دوسرے نے طویل عمر پائی۔
کبھی کبھی علم نجوم کے ایک آدھ تکے بالکل ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں تو بہت تعریف ہوتی ہے۔ شماریات کی رو سے اس قدر قیاس آرائیوں میں سے ایک آدھ کا بالکل صحیح بیٹھ جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ایک بندر کو بھی ٹائپ رائٹر پہ بٹھا دیجیے تو اربوں دفعہ الٹے سیدھے ہاتھ مارنے پہ وہ ایک دفعہ غالب کے کسی شعر کا مصرعہ بالکل صحیح ٹائپ کردے گا۔ علم نجوم کے فراڈ کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ کسی جمعہ کے روز اپنے برج کی بجائے کسی اور برج کی پیشین گوئیاں پڑھیے۔ آپ کوئی خاص فرق محسوس نہیں کریں گے۔ گھما پھرا کر وہی چند مخصوص جملے ہر برج کی پیشین گوئیوں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ علم نجوم کے مقابلے میں علم فلکیات ایک سائنس ہے۔ یہ آپ کی زندگی کے بارے میں کوئی پیشین گوئی نہیں کرتی۔ یہ محض ہماری کائنات کی ترتیب کے بارے میں جستجو کا نام ہے۔ قرآن میں کھول کر بیان کردیا گیا ہے کہ تمام اجسام فلکی ایک خاص نظام کے تحت گردش میں ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے ملک میں نئے ماہ کے چاند کا تعین کرنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کے ارکان الل ٹپ آسمان میں چاند کو کبھی ادھر اور کبھی ادھر تلاش کررہے ہوتے ہیں۔ گویا چاند نہ ہوا کوئی آوارہ کتا ہوگیا کہ نہ جانے کہاں نظر آجائے اور اگر اس کا دل چاہے تو نظر نہ بھی آئے۔ علم فلکیات نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ قرآن نے اجسام فلکی کے جس مخصوص نظام کے بارے میں اشارہ کیا ہے، سائنس نے تحقیق سے اسے پالیا ہے۔ بہت سارے اراکین رویت ہلال کمیٹی کے بجائے اگر صرف ایک فلکیات دان کی خدمات حاصل کرلی جائیں تو وہ حساب کتاب لگا کر نہایت وثوق سے آپ کو بتا دے گا کہ چاند آسمان میں کہاں، کب، اور کتنی دیر تک نظر آئے گا۔ اب اگر آپ کی نظر کمزور ہو یا بادل چھا جائیں تو اور بات ہے ورنہ چاند آسمان میں ٹھیک اس جگہ موجود ہوگا۔ چاند اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق گردش میں ہے جو قابل تعین ہے۔ چاند کی اپنی مرضی نہیں چلتی۔
پاکستان میں ایک عام آدمی توہمات سے بھرپور زندگی گزارتا ہے۔ اکثر توہمات تو ایسے ہیں جن کو ایک معمولی پڑھا لکھا انسان بھی رد کردیتا ہے، مثلا یہ کہ اگر کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو واپس پلٹ جانا چاہیے، وغیرہ۔ مگر بعض ایسے توہمات ایسے بھی ہیں جو ایک پڑھے لکھے شخص کو بھی گڑبڑا دیتے ہیں۔ مثلا ایک لغو بات بہت سننے میں آتی ہے کہ ایک خاص مچھلی ایسی ہے جس کو کھانے کے بعد دودھ پینے سے چہرے پہ سفید داغ پڑجاتے ہیں۔ اب کیونکہ یہ نہیں معلوم کہ وہ کونسی خاص مچھلی ہے اس لیے کہتے ہیں کہ احتیاطا کبھی بھی مچھلی کھانے کے بعد دودھ نہیں پینا چاہیے۔ اس وہم کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ اب تک کوئی بھی ایسی مچھلی دریافت نہیں ہوئی جس کو کھانے کے بعد دودھ پینے سے ایسا ہوجائے۔ ایک صاحب نے اس موضوع پہ گفتگو کے دوران کہا تھا کہ، ’’مان لیں کہ ایسا نہیں ہے مگر پھر بھی احتیاط کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘’’حرج یہ ہے کہ یہ سارے توہمات آپ کو ایک چھوٹا سا انسان بنانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسا انسان جو قدم قدم پہ ڈرتا رہے کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ ایک اور جھوٹ جو عام طور پہ سننے میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ تربوز اور چاول ساتھ کھانے سے ہیضہ ہوجاتا ہے۔ ہیضہ ایک خاص قسم کے بیکٹیریا سے ہوتا ہے اور تربوز اور چاول میں کوئی ایسے اجزائے ترکیبی نہیں ہیں جن کو ملانے سے یہ بیکٹیریا خود بخود وجود میں آجائیں۔ اسی طرح صبح کے وقت شبنم والی گھاس پہ ننگے پائوں چلنے سے آنکھیں ہرگز تیز نہیں ہوتیں۔ اگر بصری نسیں اتنی دور پائوں میں پہنچی ہوتیں تو پائوں سے معذور لوگ خود بخود نابینا بھی ہوتے۔ ان توہمات میں سے کوئی بھی سائنسی تحقیق اور تجربے سے ثابت نہیں ہے۔
چیزوں کی تاثیر کا جھوٹ بھی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ قدیم یونانی حکما کا خیال تھا کہ کائنات کی ہر شے چار عناصر، آگ، پانی، ہوا، اور مٹی سے مل کر بنی ہے۔ ان عناصر کی تاثیر بالترتیب گرم، ٹھنڈی، بادی، اور ٹھوس بیان کی گئی۔ چنانچہ اگر کوئی شخص مزاج کا غصیلہ ہوتا تو بیان کیا جاتا کہ اس کی ذات میں باقی تین عناصر کے مقابلے میں آتشی عنصر زیادہ ہے۔ اسی منطق کو استعمال کرتے ہوئے اندازے کے ساتھ مختلف کھانے پینے کی چیزوں کی بھی تاثیر بیان کی گئی۔ جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ اس پورے فلسفے میں ذرہ برابربھی جان نہیں ہے۔ کائنات کی ہر شے سو سے زیادہ مختلف عناصر سے مل کر بنی ہے۔ سائنس ثابت کرتی ہے کہ بعض کھانوں کی غذائی حیثیت کم ہوتی ہے اور بعض کی زیادہ۔ لحمیات، حرارے، معدنیات، اور حیاتیات غذائوں میں یقینا موجود ہوتے ہیں مگر یہ تاثیر والی بات کسی طور سے نہیں بنتی۔
سائنس میں کسی منطق کو ثابت کرنے کے لیے سب سے پہلے تو ایک تعریف وضع کرنی ہوگی جو کہ سب کی سمجھ میں آئے۔ ایک آسانی سے سمجھ میں آنے والی تعریف یہ ثابت کرے گی کہ آپ کا ذہن خود بھی صاف ہے اور آپ محض الفاظ کے ہیر پھیر سے کام نہیں لے رہے۔ سائنس ابہام پسند نہیں ہے۔ یہاں ذومعنی جملوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس بات کے کیا معنی ہیں کہ فلاں چیز کی تاثیر ایسی ہے؟ کوئی بھی شخص سائنسی اصطلاحات میں یہ نہیں بتا پائے گا کہ کیلے کی تاثیر ٹھنڈی ہونے کے کیا معنی ہیں کیونکہ تاثیر کی کوئی سائنسی حقیقت نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں غذائوں کی تاثیر کا پروپیگنڈہ اس قدر طاقتور ہے کہ میڈیکل کالجوں میں پڑھنے والے طلبا بھی اس پروپیگنڈے سے بچ نہیں پاتے۔ ایک طرف تو وہ جدید ترین سائنسی تحقیقات پہ مبنی کتابیں پڑھ رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف مستقل ان کے کانوں میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ، ’’چاول کی تاثیر ٹھنڈی ہے، برف کی تاثیر گرم ہے‘‘ وغیرہ، وغیرہ۔ چنانچہ جب یہ طلبا میڈیکل کالجوں سے فارغ التحصیل ہوکر نکلتے ہیں تو ان میں سے بہت سے آدھے ڈاکٹر اور آدھے جادوگر ہوتے ہیں۔ یہ آدھے ڈاکٹر آدھے جادوگر بخار میں مبتلا مریضوں کو تاکید کرتے ہیں کہ، ’’ٹھنڈی چیزیں نہ کھائیں۔ چاول نہ کھائیں، کیلا نہ کھائیں، غرض کہ ٹھنڈی تاثیر والی چیزوں سے پرہیز کریں۔‘‘ حالانکہ انہوں نے میڈیکل کی کسی کتاب میں نہیں پڑھا ہوتا کہ ٹھنڈی تاثیر بھی کوئی معنی رکھتی ہے، مگر بس بچپن سے لے کر اب تک کی برین واشنگ اپنا اثر دکھاتی ہے۔
سائنس اپنے ماننے والوں سے روشن خیالی کا مطالبہ کرتی ہے۔ کئی دفعہ جب لوگوں کو ان کے توہمات کے بارے میں بتایا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ، ’’مگر ہم نے تو یہ بات اپنے بزرگوں سے سنی تھی۔ کیا ہمارے بزرگ غلط کہتے تھے؟‘‘ہاں، ہاں، بزرگ بعض باتیں غلط کہتے ہیں۔ بزرگ بھی غلطیاں کرسکتے ہیں اور غلطیاں کرتے رہے ہیں؛ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ حجت تو کفار بھی ہمارے نبی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ اگر اس زمانے میں چند روشن خیال لوگ اپنے بزرگوں کی غلطیوں کو سمجھ کر اسلام قبول نہ کرتے تو آج ہم میں سے کوئی بھی مسلمان نہ ہوتا۔
آج کل کی یونانی حکمت جدید سائنسی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ جدید طب اور حکمت میں علاج کے طریقہ کار پہ اختلاف ہے، ورنہ انسانی جسم تو ایک ہی ہے۔ حکمت کا کہنا ہے کہ جدید طب جو دوائیں کیمیات سے تیار کرتی ہے اسی اثر والے کیمیائی اجزا قدرتی طور پہ مختلف جڑی بوٹیوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کو استعمال کرتے ہوئے امراض کا علاج ممکن ہے۔ یہ دعوی یقینا صحیح ممکن ہے مگر اس کو تجربات سے ثابت کرنا ہوگا۔ آج کل کی حکمت کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کی باقاعدہ تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ کوئی بھی ضعیف شخص شیروانی پہن کر حکیم ہونے کا دعوی کرسکتا ہے۔ جدید طب میں مرض کی تشخیص کے بہت سارے طریقے ہیں جن میں خون کا ٹیسٹ، اخراجی مواد کا ٹیسٹ، ایکسرے، الٹراسائونڈ، ای سی جی، ایم آر آئی وغیرہ شامل ہیں۔ حکمت اس لیے بھی پیچھے رہ گئی ہے کیونکہ حکیم حضرات اب تک محض نبض ٹٹول کر مرض کی تشخیص کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ طب کے بہت سے شعبوں کے ساتھ ساتھ حکمت جراحی میں بھی پیچھے ہے۔ جدید طب ذرا سی دیر میں انسان کا پیٹ چاک کر کے ورمیفورم اپینڈکس نکال دیتی ہے جبکہ حکیم صاحب نبض ٹٹول کر یہ تشخیص ہی کرتے رہ جاتے ہیں کہ مریض کے پیٹ میں کیوں درد ہے۔
کسی بھی انسان کے پاس قوت ارادی اس کا سب سے زیادہ طاقتور ہتھیار ہے۔ قوت ارادی استعمال کرتے ہوئے آپ بیماریوں سے لڑسکتے ہیں۔ انسان کے پورے جسم میں مختلف طرح کے نظام کام کررہے ہیں جن کی باگ ڈور دماغ کے پاس ہے۔ انسان کی نفسیات اس پہ اثرانداز ہوتی ہے۔ آپ جس طرح سے سوچتے ہیں آپ کا جسم اس طرح سے چیزوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ فرض کریں کہ آپ کو ایک عام سا مرض ہے اور آپ کے جسم میں اس مرض کے خلاف قوت مدافعت موجود ہے۔ آپ کوئی دوا نہ کھائیں، صرف بھرپور یقین کے ساتھ ایک تعویذ پہنیں کہ اس تعویذ کے پہننے سے آپ صحتیاب ہوجائیں گے۔ اس بات کاعین امکان ہے کہ آپ بالکل ٹھیک ہوجائیں۔ سائنس اس کی یہ توجیہہ بیان کرتی ہے کہ کیونکہ آپ نے بھرپور یقین کرلیا اس لیے آپ کے دماغ نے آپ کی قوت مدافعت کو تیار کر کے بیماری کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آپ کامیاب ہوگئے۔ مگر قوت ارادی اور یقین کی ایک حد ہے۔ آپ محض یقین اور خیالات سے ٹوٹ کر سرک جانے والی ہڈی کو اپنی صحیح جگہ پہ نہیں جوڑ سکتے۔
توہمات کی ایک خاص پہچان یہ ہے کہ جب آپ ان کے بارے میں کیوں، کیسے والے سوالات کریں تو آپ اپنے آپ کو تشنہ پائیں گے۔ میں اگر آپ سے کہوں کہ کسی بھی تکون کے اندرونی زاویوں کا حاصل جمع ایک سو اسی ہوتا ہے اور آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیسے؟ ثابت کرو۔ تو میں آپ کو فورا ناپ کر دکھلا سکتا ہوں کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ مزید برآں میں آپ کو یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ کیونکہ کسی بھی سیدھی لکیر کا زاویہ ایک سو اسی درجے ہوتا ہے اور کسی بھی تکون کے تمام زاویے ایک سیدھی لکیر پہ موجود ہوتے ہیں، چنانچہ ثابت ہوا کہ ہر تکون کے اندرونی زاویوں کا حاصل جمع ایک سو اسی درجے ہوتا ہے۔ ایک بچہ بھی سمجھانے پہ یہ منطق سمجھ سکتا ہے اور اپنے طور پہ بھی تجربہ کرسکتا ہے۔ اس کے برخلاف کسی نجومی سے پوچھ لیجیے کہ بیچارے زہرہ نے کیا قصور کیا ہے کہ علم نجوم میں اس کو منحوس خیال کیا جاتا ہے۔ نجومی آئیں بائیں شائیں ہی کرتا رہے گا، کوئی سیدھا جواب نہ دے پائے گا کیونکہ علم نجوم ایک فراڈ ہے۔ اسی طرح دست شناسی، روشنی سے علاج، ماہ بینی، وظیفے، چلے، تعویذ، گنڈے، وغیرہ کی بھی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔
سائنس چاہتی ہے کہ آپ اپنے ذہنی تعصبات کو جھٹک دیں اور ہر چیز کو گہرائی سے تجربات اور منطق کی بنیاد پہ پرکھیں۔ سائنس صرف ان چیزوں کو مانتی ہے جو بلاامتیاز سب کے مشاہدے میں آسکیں۔ سائنس آپ کے یقین کو نہیں چھیڑتی۔ آپ جو یقین کرنا چاہیں خوشی سے کریں مگر سائنس صرف ان چیزوں کو مانے گی جو پرکھی جا سکیں۔

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?