Sunday, February 05, 2017

 

اب سب اہل کتاب ہیں








ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو سترہ

 فروری پانچ، دو ہزار سترہ


اب سب اہل کتاب ہیں


میرے لیے یہ کالم اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا سب سے کارآمد ذریعہ ہے۔  چنانچہ اس کالم کو نہ صرف پرانے سفرناموں کے لیے استعمال کرتا ہوں بلکہ ذہن میں آنے والے تمام الم غلم خیالات کی بھڑاس اس کالم سے نکال لیتا ہوں۔
سلمان حیدر، وقاص گورایا اور دوسرے بلاگر کے غائب ہونے، پھر واپس آجانے  مگر مکمل خاموشی اختیار کرنے والی بات میرے حلق سے نہیں اتر رہی ہے۔ میں ایسی پراسرار دنیا میں چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ میں خاموش نہیں رہ سکتا۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ تین ہفتوں سے زائد کہاں رہے؟ ان بلاگر کی غیرموجودگی میں بول ٹی وی چینل کے صحافی عامر لیاقت حسین نے اپنے شو میں کہا تھا کہ ان کے پاس ٹھوس شواہد موجود تھے کہ سلمان حیدر اور دوسرے گمشدہ بلاگر دراصل اپنی مرضی سے بھارت چلے گئے تھے؟ اب جب کہ سلمان حیدر اور دوسرے بلاگر  خیریت سے واپس پہنچ گئے ہیں عامر لیاقت حسین کو چاہئیے کہ وہ ان واپس آجانے والے لوگوں کا انٹرویو کریں تاکہ قوم کو ان بلاگر کی ’بھارت یاترا‘ کی تفصیلات معلوم ہوں۔ بلاگر کی غیرموجودگی میں کئی مبصرین، بشمول نجم سیٹھی اور عاصمہ جہانگیر، کا کہنا تھا کہ بلاگر کو ’ایجنسیاں‘ اٹھا کر لے گئی ہیں۔ اب جب کہ یہ لوگ واپس اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں، فوج کی سب سے قابل فخر ایجنسی آئی ایس آئی کو چاہئیے کہ ان لوگوں سے پوچھ گچھ کر کے ان کی گمشدگی کی تفصیلات قوم کو بتائے کہ تاکہ اس معاملے سے آئی ایس آئی کا نام صاف ہوسکے۔ اسی طرح کی درخواست وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے بھی ہے کہ اگر کسی طرف سے پیش قدمی نہ ہو تو وہ کم ازکم پولیس کے ذریعے یہ تحقیقات کرائیں تاکہ ہم سب ان گم شدگیوں سے متعلق تفصیلات جان سکیں۔


واپس  ’چین میں چالیس دن‘ نامی سفرنامے کی طرف

پھر ایک بہت بڑا شہر ہے اور بہت سارے لوگ ہیں۔ سڑکوں پہ تیزی سے دوڑتی گاڑیاں ہیں۔ تیزرفتار زندگی میں جوجھے شہر کے باسی ہیں۔ یہ علاقہ کسی زمانے میں ہمارے لیے سیام تھا۔ جس طرح آسام ہے، اسی نام کی طرح سیام۔ پیادہ، ہاتھی، اور گھوڑوں کے اس زمانے میں سیام ہمارے وطن سے بہت دور واقع تھا۔ مگر اس دوری کے باوجود ہمارے علاقے سے جنم لینے والے فکری رجحانات وہاں پہنچ گئے۔ پرانی دنیا میں تجارتی قافلوں کے توسط سے نئی ٹیکنالوجی اور نئے خیالات جگہ جگہ پہنچ جاتے تھے۔
تھائی لینڈ کا موجودہ مذہب بدھ مت ہے مگر لوگوں کے نام ہندومت میں رائج ناموں سے ملتے جلتے ہیں۔  ہندو مت بنتے بنتے بنا ہے۔ اپنے کچے پن کے زمانے میں یہ عقیدہ جنوبی ایشیا سے انڈونیشیا تک پھیلا ہوا تھا۔ جزیرہ نما عرب میں اسلام کی آمد کے بعد اس علاقے میں عرب تاجر آنا شروع ہوئے تو ان جگہوں پہ اسلام پھیلنا شروع ہوا۔ اور اسلام جہاں گیا وہاں کے رنگ میں رنگ گیا۔ خیالات یوں ہی نئی جگہ پہ نئے رنگ کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں۔ اور اس عمل کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ کوئی بھی کھوپڑی بالکل خالی نہیں ہوتی۔ ذہنوں میں پرانے خیالات موجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ نئے خیالات ذہن میں آنے پہ ان پرانے خیالات کے ساتھ خلط ملط ہوجاتے ہیں۔ برصغیر میں آنے والا اسلام ہمارے وطن کی ہندو روایتوں کے ساتھ مل گیا۔ برصغیر میں اسلام کی شکل وہ ہے جسے عرف عام میں بریلوی اسلام کہا جاتا ہے۔ اس اسلام میں بزرگان دین اہم ہیں اور ان اہم لوگوں سے بنا کر رکھنا ہے۔ اب اس گاتے، رقص کرتے بریلوی اسلام کی اس دوسرے اسلام سے لڑائی ہے جو مشرق وسطی میں تیل کی دریافت کے بعد وہاں جانے والے ہمارے لوگوں کے ساتھ واپس ہمارے وطن میں آیا ہے۔
بدھ مت ابرہیمی ادیان سے یوں ملتا جلتا ہے کہ بدھ مت میں ایک اہم شخص ہے جو سچائی کا راستہ دکھا رہا ہے۔ اس شخص کے ماننے والے اس شخص کے مرنے کے بعد اس کی تعلیمات کو رفتہ رفتہ ایک مذہب کی شکل دیتے ہیں۔ جب کہ ہندو مت  اور جین مت میں ایسا نہیں ہے۔ ان دو مذاہب میں کوئی مرکزی کردار ایسا نہیں جسے پیامبر کہا جاسکے۔ ہزاروں سال پرانی نظمیں ہیں جو نہ جانے کس نے لکھیں اور ان میں نہ جانے کب کب کس کس نے اضافہ کیا، اور پھر ان نظموں میں موجود خاص باتوں کو آس پاس نظر آنے والے معاشرتی معاملات سے ملا جلا کر ایک عقیدے کی صورت دے دی گئی۔
واضح رہے کہ کتاب والے مذاہب [جن کے ماننے والوں کو مسلمان اہل کتاب مانتے ہیں] بہت زیادہ پرانے نہیں ہیں کیونکہ کتاب لکھنے کے لیے لکھائی یا حروف تہجی کا ہونا ضروری ہے۔ انسان کی قدیم بولیاں تو شاید چالیس ہزار سال سے زیادہ پرانی ہیں مگر لکھائی ایجاد ہوئے بمشکل چار پانچ ہزار سال ہوئے ہیں۔ اسلام کی آمد کے وقت دنیا کے کئی مذاہب نسل در نسل سنائی جانے والی نظموں پہ چل رہے تھے اور اسی لیے ان عقائد کے ماننے والوں کو اہل کتاب خیال نہیں کیا جاتا تھا مگر اب زمانہ بدل گیا ہے، اب ہر مذہب کی ایک یا بہت سی صورتوں میں ایک سے زیادہ کتابیں موجود ہیں۔ اب سب ’اہل کتاب‘ ہیں۔

ہمیں بینکاک میں مغربی سیاح بڑی تعداد میں نظر آرہے تھے۔ خیال ہوتا ہے کہ کہیں یہ سیاح ترقی پذیر ممالک کو یوں دلچسپی سے نہ دیکھتے ہوں جس دلچسپی سے ہم چڑیا گھر میں موجود جانوروں کو دیکھتے ہیں۔ یہ سیاح ترقی پذیر ممالک کے انداز دیکھ کر یہ نہ سوچتے ہوں کہ کبھی ہمارے آبا و اجداد بھی اسی طرح کی بے ہنگم زندگی گزار رہے تھے۔ اور ترقی پذیر ممالک میں رہنے والے لوگ واقعی اس طرح ہیں جیسے وہ اپنے اپنے پنجروں میں قید ہوں۔ ان کے لیے اپنے ممالک سے نکل کر کہیں جانا آسان نہیں ہے۔ ہمارے لیے یہ بات سمجھنا مشکل نہ تھا کیونکہ ہمیں ایک ایک ویزے کے لیے خوب تگ و دو کرنا پڑ رہی تھی۔







 


Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?