Wednesday, February 01, 2017

 

تھائی لینڈ میں مون سون






ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو سولہ

 جنوری انتیس، دو ہزار سترہ


تھائی لینڈ میں مون سون



کمال مصطفی صدیقی صاحب کو خدا حافظ کہہ کر ہم سرحد کی طرف روانہ ہوئے تو بے اختیار ان لوگوں کی طرف دھیان گیا جو پاکستان بننے پہ یوپی اور ان دوسرے علاقوں سے جو اس وقت بھارت میں ہیں، پاکستان آئے تھے۔ قابل ترس تھے وہ لوگ جو ایک خواب کی تلاش میں اس نئی جگہ پہنچے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ملک ان کا اپنا ہے، اسے انہوں نے بنایا ہے۔ یہاں وہ لوگ جو پہلے سے رہ رہے ہیں، آگے بڑھ کر انہیں قبول کرلیں گے۔ کیا ہجرت کرکے آنے والے لوگ یہ بات نہیں جانتے تھے کہ پرانی دنیا میں ہرجگہ مقامی لوگوں کی یادداشت سینکڑوں سالوں پہ محیط ہوتی ہے؟ لوگ جس جگہ چند سو سال سے رہ رہے ہیں اس جگہ کو وہ اپنا خیال کرتے ہیں اور وہاں دوسرے کا آنا اچھا نہیں سمجھتے۔ حالانکہ سچ پوچھیے تو زمین انسان سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ زمین پہ انسان کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہم سب افریقہ سے نکل کر دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے ہیں۔ دنیا میں کوئی انسانی گروہ اپنی جگہ پہ چند سو سال سے زیادہ پرانا نہیں ہے۔
ایسا ہی سوال مجھ سے جامعہ ٹوکیو میں بھی پوچھا گیا تھا۔ اردو کا پاکستان سے کیا رشتہ ہے؟ کیا یہ رشتہ زبردستی کا ہے؟ جواب کسی قدر پیچیدہ ہے۔ سنہ سینتالیس سے پہلے اردو جنوبی ایشیا میں کسی اور نظر سے دیکھی جاتی تھی اور سنہ سینتالیس کے بعد اور خاص طور پہ سنہ اکہتر کے بعد موجودہ پاکستان میں کسی اور نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ سنہ سینتالیس سے پہلے جنوبی ایشیا میں رہنے والے مسلمان حاشا و کلا اردو کو اپنی زبان کے طور پہ دیکھتے تھے۔ چاہے یہ مسلمان تامل ناڈو میں ہوں یا سندھ میں، ان کے خیال میں اردو جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی زبان تھی۔ مگر سنہ سینتالیس کے بعد صورت حال تبدیل ہوگئی۔ سنہ سینتالیس والے پاکستان میں یا موجودہ پاکستان میں مسلمانوں کو دوسرے بڑے مذہبی گروہ سے اپنی جدا شناخت رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور ہے۔ چنانچہ اس جدا شناخت سے وابستہ زبان کی ضرورت بھی ختم ہوگئی۔ قیام پاکستان کے بعد مختلف لسانی گروہ ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے اور ہیں کہ کس کی زبان کو ملک کی قومی زبان تسلیم کیا جائے، اور اس دنگے میں اردو بولنے والوں کو بھی ایک لسانی گروہ کے حساب سے ہی دیکھا جاتا ہے۔
ابرآلود موسم میں ہم دریائے میکانگ پہ واقع پل پار کر کے تھائی لینڈ کی سرحدی چوکی تک پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ سنیچر کے روز عملہ دراصل اوورٹائم کررہا تھا، اور اس اضافی کام کی رقم ہم سے وصول کی جائے گی۔ ہمارے پاس افسران کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ ہم ہم وہ رقم دے کر تھائی لینڈ میں داخل ہوگئے۔ نیا ملک، نئی زبان، نیا طرز تحریر۔ اس نئے پن میں بے حد خوبصورتی تھی۔ اس پرتنوع دنیا کی خوبصورتی قائم رکھنا کس قدر ضروری ہے۔
مون سون اپنے اختتام پہ تھی مگر ہرروز بارش ہوتی تھی۔ ہم رکتے رکتے کئی دن کے سفر کے بعد اودون تھانی سے کھورات ہوتے ہوئے بینکاک پہنچے اور ہر جگہ ٹرین کی پٹری کے دونوں طرف سیلابی کیفیت پائی۔

ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس وقت تھائی لینڈ اور پاکستان معاشی ترقی کی سیڑھی پہ ایک مقام پہ کھڑے تھے مگر ہمیں تھائی لینڈ پہنچ کر ایسا نہ لگا۔ پاکستان میں بڑے شہروں کے باہر آپ کو عورتیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ جبکہ یہاں ہر جگہ عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی تھیں اور کام کررہی تھیں۔ جن ممالک میں عورتیں ہر طرح کے کام مردوں کے ساتھ ساتھ نہیں کرتیں وہ یوں ہیں جیسے وہ ممالک صرف ایک ہاتھ سے کام کررہےہوں۔

بینکاک پہنچ کر آسانی ہوگئی تھی۔ بھلا ہو پاکستان اور بھارت سے جوق در جوق تھائی لینڈ جانے والوں کا، بینکاک میں جگہ جگہ دیسی ریستوراں موجود تھے اور ہم باقاعدگی سے دیسی کھانا کھا رہے تھے۔

مستقل بارش کی وجہ سے بینکاک سے گزرنے والا چائوفرایا دریا تغیانی میں تھا۔ اکثر جگہ بارش کا پانی کھڑا نظر آتا تھا۔ ایسے میں جوتے پہننا محال تھا۔ ہم بھی گدلے کھڑے پانی کا ذرا برا نہیں مناتے تھے اور چپلیں ہاتھ میں تھامے کھڑے پانی سے چھپ چھپ کرتے ہوئے گزر جاتے تھے۔


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?