Tuesday, January 24, 2017
ڈاکٹر کمال مصطفی صدیقی کی یاد میں
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار تین
سو چودہ
دسمبر ستائیس، دو ہزار سولہ
ڈاکٹر کمال مصطفی صدیقی کی یاد میں
پھر چہار سو پھیلا جنگل ہے اور ہر روز سفر کا ہے۔ ایک کے بعد نامانوس ناموں
والے قصبے ہیں۔ نامتھا، اودون سائے، اور پھر موانگ پاک بینگ۔ یہ سفر ڈاٹسن پک اپ
سے طے ہورہے ہیں۔ ان پک اپ میں ایک دو خاص مسافر ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھتے ہیں،
باقی مسافر کھلے میں پیچھے بیٹھتے ہیں۔ یہ پک اپ جہاں سے گزرتی ہے گرد کا ایک غبار
اڑاتی جاتی ہے۔ گو کہ گرد کا بگولا گاڑی کے پیچھے ابھرتا نظر آتا ہے مگر ہم مستقل
ناک پہ رومال رکھے بیٹھے ہیں۔ ہم تواتر سے گھنے بن باراں سے گزر رہے ہیں۔ ایک جگہ
جنگلی مرغ اڑتا نظر آتا ہے۔ جثے میں یہ مرغ انسان کی پالتو مرغیوں سے کچھ کم نہیں
ہے۔ مرغ کو سدھائے چار ہزار سال سے اوپر کا عرصہ ہوگیا ہے مگر اس عرصے میں مصنوعی
چنائو [آرٹیفیشل سلیکشن] سے مرغ کے جثے میں بہت زیادہ فرق نہیں پڑا ہے۔ مرغ کو
سدھانے سے پہلے انڈے کھانے کے لیے جنگل جانا پڑتا تھا اور ایسے گھونسلوں کی تلاش
ہوتی تھی جہاں سے انڈے چرائے جا سکیں۔ پھر شاید کبھی ایسا ہوا ہوگا کہ کسی گھونسلے
میں انڈے کی جگہ چوزے ملے ہوں گے۔ ان چوزوں کو گھر لایا گیا ہوگا اور پھر ان کو
کھلایا پلایا ہوگا اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ چوزے مالک سے مانوس ہوتے گئے ہوں گے۔
اور پھر جب مرغیاں بننے پہ انہوں نے انڈے دینے شروع کیے ہوں گے تو خوشی منائی گئی
ہوگی۔ اور پھر یوں مرغ بانی کا آغاز ہوا ہوگا۔
ٹھوس شواہد سے انسان کی اس دنیا میں جو تاریخ ملتی ہے اس کی بڑی منازل درج ذیل
ہیں۔
انسان کا موجودہ شکل میں افریقہ سے نکلنا، آگ پہ قابو پانا اور آگ کا
استعمال، کتے کو ساتھ ملانا، کاشت کاری کا استعمال اور اپنے لیے غذا کا انتظام
کرنا، اور پھر ایک ایک کر کے کام کے جانور کو سدھانا تاکہ اناج کے ساتھ گوشت،
دودھ، اور انڈے بھی گھر بیٹھے حاصل ہوجائیں۔ ایک جگہ بیٹھ کر غذا کا اس طرح انتظام
ہونے پہ انسان کا بستیوں کی صورت میں بس جانا۔ لکھائی کا ایجاد ہونا اور پھر
تجارتی قافلوں کے ذریعے ایجادات اور خیالات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ پھیلنا۔
موانگ پاک بینگ پہنچنے پہ ہم دریائے میکانگ تک پہنچ گئے تھے۔ یہ دریا تبت سے
شروع ہوتا ہے اور چین، برما، لائوس، کمبوڈیا، اور ویت نام سے ہوتا ہوا چینی سمندر
میں گرتا ہے۔ ویت نام کی جنگ کے دوران اس دریا کی بڑی اہمیت تھی کیونکہ گھنے جنگل
میں جانے کے لیے دریا ہی آمد و رفت کا بہترین ذریعہ تھا۔
موانگ پاک بینگ سے لوانگ پرابانگ جانے والی کشتی اب تک ملنے والے ڈاٹسن ٹرک سے
ہرگز مختلف نہیں تھی۔ کشتی کے اندر کوئی باقاعدہ نشستیں نہیں تھیں۔ مسافر اپنا
سامان لے کر اندر گھستے تھے اور پھر اپنے سامان کو بچھا کر، ادھر ادھر کر کے اپنے
لیے بیٹھنے کا انتظام کرتے تھے۔ موانگ پاک بینگ سے لوانگ پرابانگ تک ہم مستقل گھنے
جنگل کے ساتھ چلتے رہے۔
لائوس کے شمال میں اکا دکا ہی سیاح نظر آتے تھے مگر لوانگ پرابانگ پہنچ کر
اچانک منظر بدل گیا۔ لوانگ پرابانگ سیاحوں سے بھرا ہوا تھا۔ زیادہ تر سیاح انگریزی
بول رہے تھے۔ لوانگ پرابانگ سینکڑوں سال مقامی شاہی خاندان کا پایہ تخت رہا ہے اور
اسی وجہ سے وہاں کے آثار قدیمہ دیدنی ہیں۔ ایشیا کے پورے جنوبی خطے میں سلطنتوں
کے روایتی دارالحکومت کھیتی باڑی کے قابل زرخیز زمین کے قریب ہوتے تھے اور اکثر یہ
جگہ سمندر سے سینکڑوں میل دور ہوتی تھی۔ یورپ سے آنے والے فاتحین سمندر کے راستے
آئے، اس لیے انہوں نے اپنی آسانی کے حساب سے سمندر کے قریب موجود قصبوں کو فروغ
دیا اور کئی جگہ پایہ تخت بھی سمندر کے قریب منتقل ہوگیا۔
یوں تو لائوس میں ہم اپنے وطن سے ہزاروں میل دور تھے مگر وہاں ہمارے ایک ایسے
عزیز تھے جن سے ملنے کی خواہش ہم رکھتے تھے۔ ڈاکٹر کمال مصطفی صدیقی سے دراصل
ہمارا براہ راست رشتہ نہ تھا؛ وہ ہمارے
جگری دوست شاہد ضیا کے والد کے گہرے دوست تھے۔ مگر پاکستان سے اتنی دور یہ رشتہ
بہت تھا۔
کمال مصطفی صدیقی صاحب نوعمری میں اپنے خاندان کے ساتھ یوپی سے راوالپنڈی
آگئے تھے۔ وہاں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ انگلستان گئے جہاں سے انہوں نے
میکینیکل انجینئیرنگ میں پی ایچ ڈی حاصل کی۔ پھر وہ دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک
میں نئی بننے والی جامعات کے شعبہ انجینئیرنگ قائم کرنے کے کام میں لگ گئے۔ اسی
سلسلے میں وہ اس وقت لائوس میں تھے۔
ہم نے ویان چیان پہنچنے پہ کمال مصطفی صدیقی صاحب کو فون کیا تو وہ اسی وقت
اپنے دفتر سے نکل کر گھر جانے والے تھے۔ وہ فورا ہمیں لینے پہنچ گئے اور یوں ہمارے
اگلے کئی روز ان کے گھر گزرے۔ ڈاکٹر کمال مصطفی صدیقی بہت اچھی نثر لکھتے تھے۔ انہیں
کہانیاں لکھنے کا شوق تھا۔ بہت عرصے بعد ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ غالبا لال
حویلی کے نام سے شائع ہوا تھا۔
کمال مصطفی صدیقی صاحب سے وہ ہماری پہلی اور آخری ملاقات تھی۔لائوس سے کام
مکمل کر کے وہ کراچی آئے تو یہاں ان کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔
Labels: Dr. Kamal Mustafa Siddiqui, Laos