Wednesday, December 28, 2016

 

لائوس میں داخلہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو تیرہ

 دسمبر پچیس، دو ہزار سولہ


لائوس میں داخلہ



ایک خوشی، نئے ملک جانے کی۔ موہانگ کے لیے بس میں سوار ہیں مگر ابھی بس چلنے میں کچھ وقت ہے۔ کیوں نہ اس وقت کا اچھا استعمال کیا جائے اور چین سے ایک آخری پوسٹ کارڈ ڈالا جائے؟ بہت سالوں بعد جب وطن پہنچنے پہ یہ پوسٹ کارڈ ہاتھ میں لیے جائیں گے تو ان کو پکڑنے پہ بہت سالوں پہلی وہ لمس محسوس ہوگی جو اس پوسٹ کارڈ کے ساتھ ایک دوسرے ملک سے وابستہ رہی تھی۔
ہم موہانگ پہنچنے تک سخت بے قرار رہے۔ اگر ہمیں سرحد پار کرنے کی اجازت نہ ملی تو کیا ہوگا؟ ہمیں فورا واپس پلٹنا ہوگا اور برما کی سرحد تک پہنچنا ہوگا تاکہ ایک دن میں ویزے کی مدت ختم ہونے سے پہلے چین چھوڑ کر برما میں داخل ہوجائیں۔
مگر ہمارے خدشات بے بنیاد ثابت ہوئے۔ سرحد پہ چینی چوکی میں ہمارے پاسپورٹ الٹ پلٹ کر دیکھے گئے۔ اس طرح کے پاسپورٹ والا کوئی شخص وہاں دور دور نہ پایا جاتا تھا۔ ایک افسر نے دوسرے افسر کو ہمارے پاسپورٹ میں موجود دخول کی وہ مہر دکھائی جو ظاہر کرتی تھی کہ ہم پاکستان سے زمینی راستے سے چین میں داخل ہوئے تھے۔ ایک دفعہ پھر ہمیں اوپرسے نیچے تک دیکھا گیا اورپھر زور زور سے پاسپورٹ میں ٹھپے لگائے گئے، اور ہمیں چین چھوڑنے کی اجازت مل گئی۔
چینی سرحدی چوکی کے اس پارموجود وسیع منطقہ ممنوعہ [نومینز لینڈ ] کو ہم نے ایک سوزوکی پک اپ کی مدد سے پار کیا اور لائوس کی سرحدی چوکی تک پہنچ گئے۔ بہت سے لوگ ہم سے آگے چلے جارہے تھے۔ وہ سب چینی نظر آتے تھے جو شاید مختصر مدت کے لیے لائوس سیر کی نیت سے جارہے تھے۔ جب یہ چینی سیاح وہاں سے روانہ ہوگئے تو چوکی پہ ہماری باری آئی۔ ایک بار پھر ہمیں اور ہمارے پاسپورٹ کو حیرت سے دیکھا گیا مگر فورا ہی اس میں داخلے کا ٹھپہ لگا دیا گیا۔
لائوس پہنچنے پہ ایک خوشگوار احساس ہوا تھا۔ گھنے بن باراں کو خوبصورت بادل چوم رہے تھے اور موسم حسین تھا۔ کسی نئی جگہ پہ آپ کا اس سے اچھا استقبال کیا ہوسکتا ہے؟
سرحد سے لگے لائوس کے قصبے کا نام بورتین تھا۔ بورتین کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ لائوس چین کا غریب ہمسایہ ہے۔
اس چھوٹے سے گائوں میں روڈ کے دونوں طرف دکانیں تھیں۔ ان دکانوں میں زیادہ تر سامان چین کا بھرا ہوا تھا۔ لگتا تھا کہ لائوس کے وہ شہری جو چینی مال چین کی سرحد سے قریب ترین پہنچ کر خریدنا چاہتے تھے وہ بورتین پہنچ کر یہ خریداری کرتے تھے۔
ابھی پورا دن باقی تھا اور بورتین ایک بہت چھوٹی جگہ تھی۔  ہم بورتین میں دن ضائع کرنے کے بجائے وہاں سے آگے نامتھا جانا چاہتے تھے۔ وہیں ہماری نظر ایک سیاح پہ پڑی جو اپنے حلیے سے جاپانی یا خوشحال چینی معلوم دیتا تھا۔ ہماری اس سے بات چیت شروع ہوگئی۔ وہ جاپان کا رہنے والا ناکاساوا تھا۔ ناکاساوا بھی انگریزی کی مشق کا خواہشمند تھا۔ وہ ہمارے ساتھ ہولیا اورویان چیانگ تک ہمارے ساتھ رہا۔
نامتھا جانے والی بس چلنے میں ابھی کچھ دیر تھی۔ ہم ناکاساوا کے ساتھ کھانے پینے کا انتظام کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اسی سلسلے میں ہم ایک ریستوراں کے باورچی خانے میں گھس گئے اور ہاتھ کے اشارے سے وہاں موجود لوگوں کو بتانے لگے کہ کس چیز کو کس کے ساتھ ملا کر ہمارے لیے کھانا تیار کیا جائے۔  مگر ابھی یہ اشارے بازی شروع ہی ہوئی تھے کہ شور مچ گیا کہ نامتھا کے لیے گاڑی روانہ ہونے والی تھی۔ ہم نے ہاتھ کے اشارے سے باورچی خانے میں موجود لوگوں سے معافی مانگی اور پھر وہی ہاتھ ہلا کر انہیں خدا حافظ کہا اور باہر آگئے۔ ناتھا جانے والی گاڑی دراصل ایک بڑی پک اپ تھی۔ اس کا انتظام کرنے والا شخص مائو کیپ پہنا ہوا تھا؛ وہ ہم سے فرانسیسی میں باتیں کرنا چاہتا تھا۔ لائوس فرانسیسی کالونی رہی ہے اس لیے وہاں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہر بدیسی پرانے آقائوں کی زبان بولتا ہے۔
بورتین سے نکلنے کے کچھ ہی دیر بعد روڈ کا نام و نشان جاتا رہا۔ اب ہر طرف جھاڑیاں تھیں اور جھاڑیوں کے درمیان صاف جگہ اس بات کی نشاندہی کررہی تھی کہ کسی زمانے میں وہاں روڈ رہی ہوگی۔ بہت فاصلے سے کہیں سڑک کا نشان بھی مل جاتا تھا مگر آنجہانی سڑک کی وہ نشانی بھی بڑے بڑے گڑھوں سے مزین ہوتی۔ ڈرائیور مہارت سے گاڑی کو ان گڑھوں سے بچاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔
اس انتہائی سادہ پک اپ میں اس خراب روڈ پہ چلنے کی تکلیف کے باوجود ہمیں وہ سفر بہت اچھا لگا۔ ہمیں احساس تھا کہ ہم ایسی جگہوں سے گزر رہے تھے جو اب تک سیاحوں کے غول سے محفوظ تھیں۔ وہاں آبادی خال خال تھی۔ ہر طرف جنگل تھا۔ آسمان بادلوں سے لدا ہوا تھا، مگر سورج کچھ کچھ دیر بعداپنا منہ دکھا دیتا تھا۔

Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?