Monday, December 26, 2016

 

ام چالے چالا ، چنگ چن چالے چالا

 
ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو بارہ

 دسمبر سترہ، دو ہزار سولہ


ام چالے چالا ، چنگ چن چالے چالا



بس کو اگلے روز صبح سویرے مونگ لا کے لیے روانہ ہونا تھا جہاں سے ہم کو موہانگ جانا تھا اور پھر وہاں سے چین اور لائوس کی باہمی سرحد عبور کرنا تھی۔  اگلے روز نہ جانے کس وقت ہماری گھڑی کا الارم بولا، اور ہم کب تیار ہو کر روانہ ہوئے۔ اگلا منظر یہ تھا کہ ہم مونگ لا جانے والی بس میں سوار تھے اور بس ربر کے باغات میں سے گزررہی تھی۔ وہاں قطار در قطار توانا درخت تھے، جن کے تنوں پہ لگے چیرے کے نیچے ربر جمع کرنے کے لیے ڈبے لٹکے ہوئے تھے۔ صرف ڈیڑھ سو سال پہلے ربر کے درخت صرف برازیل میں پائے جاتے تھے اور دنیا بھر میں ربر کی برآمد کی وجہ سے پرتگال ایک عالمی طاقت تھا۔ اگر ربر برازیل کے استوائی علاقوں میں اگ سکتا ہے تو دنیا کے دوسرے استوائی علاقوں میں کیوں نہیں اگ سکتا؟ برطانیہ کے جاسوسوں نے برازیل سے ربر کے بیج چرائے اور درخت کو کامیابی سے تاج برطانیہ کے زیر اثر استوائی علاقوں میں لگانے کا کام کیا۔ پرتگال کی عظمت کا سورج ڈوبا، اور تاج برطانیہ کا سورج اور اوپر چڑھا۔
وہ سب بن باراں [رین فارسٹ] کا علاقہ تھا۔ اس علاقے میں اکثریت دائی نسل لوگوں کی تھی جو اپنے گھر لکڑی کے اونچے پٹھوں پہ بناتے ہیں کیونکہ اکثر و بیشتر ان کے اطراف ہر جگہ بارش کا پانی کھڑا ہوجاتا ہے۔
مونگ لا پہنچنے پہ معلوم ہوا کہ اگلی معقول بس سویرے موہانگ کے لیے روانہ ہوگی۔  یوں تو موہانگ جانے کے لیے ایک بس رات کو بھی چلتی تھی مگر اندیشہ تھا کہ رات وہاں پہنچتے پہنچتے اتنی دیر ہوجائے گی کہ سرحدی چوکی بند ہوچکی ہوگی۔
ہم بس اسٹاپ کے قریب ہی ایک ہوٹل میں ٹہر گئے۔ ہمیں ایک ایسا کمرہ ملا جس کا رخ قصبے کی مصروف سڑک کی طرف تھا۔ رات ہوئی تو وہ روڈ ایک زبردست مارکیٹ بن گئی۔ فٹ پاتھ پہ قطار سے چھابڑے والے بیٹھے تھے۔ حیرت انگیز طور پہ چین کے اس انتہائی جنوبی حصے میں ویگر لوگ کافی تعداد میں موجود تھے۔ اس بازار میں کباب بنائے جارہے تھے،اور مچھلی اور مرغی بھونی جارہی تھی۔ مچھلی اور مرغی کو بھوننے کا طریقہ یہ تھا کہ گوشت کو بانس کی کھپچیوں میں پھنسا کر آگ پہ تاپا جارہا تھا۔ مگر ظلم یہ تھا کسی فٹ پاتھی تھڑے پہ چاول دستیاب نہ تھے۔ روٹی یا چاول کا انتظام آپ خود کریں۔
وہ چین میں ہمارا آخری دن تھا۔ ہم چین چھوڑنے پہ خوش بھی تھے اور ناخوش بھی۔ خوش اس لیے کہ چین میں سیاحوں کے ساتھ جو لوٹ مار مچی تھی اب اس فساد سے ہماری بچت ہونے والی تھی، اور ناخوش اس لیے کیونکہ اتنے دن چین میں گزارنے کے بعد اب ہم وہاں سے ایک انسیت محسوس کررہے تھے۔ ہم چین سے روانگی سے پہلے وہاں کی آواز کو اپنے ساتھ باندھ کر لے جانا چاہتے تھے۔ ان دنوں چین میں ایک گیت بہت مقبول تھا۔ یہ پھڑکتا گانا ہم نے کئی جگہ سنا تھا۔ اب اتنے سالوں بعد اس گیت کی یاد ہماری نوٹ بک میں لکھے گئے گیت کے ان بولوں کے ساتھ رہ گئی ہے: ام چالے چالا ، چنگ چن چالے چالا۔ ہم کیسیٹ کی ایک دکان میں پہنچے اور اسے ام چالے چالا ، چنگ چن چالے چالا گا کر سنایا۔ اس پہ دکاندار نے ہم سے بہتر آواز اور موسیقیت میں ام چالے چالا ، چنگ چن چالے چالا گایا اور پھر کچھ چینی زبان میں پوچھا۔ اس سوال کا یہی مطلب ہوسکتا تھا کہ کیا تم اس گانے والا کیسیٹ خریدنا چاہتے ہو؟ ہم نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا۔ دکاندار نے شیلف پہ رکھے کیسٹ کی قطار میں سے ایک کیسیٹ نکال کر ہمیں پکڑا دیا اور ہم اس کیسیٹ کی قیمت ادا کر کے دکان سے باہر آگئے۔ اس واقعے کو بیس سال سے اوپر ہوچکے ہیں۔ نہ جانے وہ کیسیٹ کہاں ہے۔ خیال ہے کہ وہ کیسیٹ اب تک کراچی میں ہمارے سامان میں کہیں رکھا ہے اور اگر ہم کبھی اس کیسیٹ کو رواں کر کے سنیں گے تو ام چالے چالا ، چنگ چن چالے چالا  والا گیت ہمیں کھینچ کر یادوں کی ایک ایسی گلی میں لے جائے گا جہاں چین میں گزارے چالیس دنوں کا ایک ایک لمحہ فلم کی صورت دیواروں پہ دوڑ رہا ہوگا۔




Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?