Wednesday, December 14, 2016

 

بابو جی دھیرے چلنا










ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو گیارہ

 دسمبر گیارہ، دو ہزار سولہ


بابو جی دھیرے چلنا


 
کنمنگ سے جنگ ہانگ جانے کا سب سے ارزاں طریقہ بس کی سواری تھا۔ اس بس سروس کا چینی زبان میں جو بھی نام تھا، اس کا انگریزی سے اردو ترجمہ سوتی بس بنتا تھا۔ یہ نام تشویشناک تھی۔ ہمارے ذہن میں بس ڈرائیور کے خراٹے اور پھر کچھ ہی دیر میں بس کی زوردار ٹکر کا خاکہ ابھرتا رہا۔ مگر اس تمام پریشانی کے باوجود ہم اس سوتی بس میں سوار ہوگئے جس کا سفر چوبیس گھنٹے کا تھا۔
سفر میں بعض ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو آپ کو دیر تک پریشان رکھتے ہیں۔ اس بس میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔ ہم بس میں سوار ہوئے تو ہماری نظر ایک دیسی آدمی پہ پڑی۔ وہ ایک چینی لڑکی کے ساتھ تھا۔ چین کے اس دور دراز قصبے میں اپنی طرف کے آدمی کو دیکھ کر ہم چونکے۔ وہ بھی ہمیں دیکھ کرچونکا تھا۔ پھر کچھ ہی دیر میں وہ اور اس کی ساتھی لڑکی بس سے اتر گئے۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ دونوں بس چلنے سے پہلے واپس آجائیں گے مگر ایسا نہ ہوا اور بس کنمنگ سے چل دی۔ وہ آدمی کون تھا اور اس نے ہمیں دیکھ کر سفر کا ارادہ کیوں تبدیل کردیا؟ ہم دیر تک اس بارے میں سوچتے رہے۔
کنمنگ سے جن ھانگ کا راستہ طویل مگر بے حد خوب صورت تھا۔ ہم لوگ بن باراں میں داخل ہوگئے تھے۔ وہاں گھنا جنگل تھا اور وقفے وقفے سے بارش ہوجاتی تھی۔ راستے میں ایسے پہاڑ ملے جن پہ قدرتی جنگل کو مکمل طور سے صاف کردیا گیا تھااور اب وہاں فصلیں اگائی جارہی تھی۔ پہاڑوں پہ چڑھتے اترتے ہمیں کیلے اور پپیتے کے درخت نظر آئے اور گنے کے کھیت بھی۔
راستے میں ایک جگہ ایک شخص ہاتھی لے جاتا ہوا بھی نظر آیا۔ اگر فیل بان کا ذکر ہو تو ہمارے ذہن  میں ہمیشہ برصغیر سے تعلق رکھنے والے آدمی کا خیال آتا تھا۔ یہاں چینی نسل کے آدمی کو ہاتھی کے ساتھ دیکھنے کا مشاہدہ خوب تھا۔
بس مختلف چھوٹے چھوٹے قصبوں سے گزری۔ کھانے کے وقت وہ کسی قصبے میں کچھ دیر کے لیے ٹھہر جاتی تھی۔ ایسی ہی ایک جگہ ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ بس کے زیادہ تر مسافر بس سے باہر کھڑے بے زاری سے ڈرائیور کی واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔ پھر نہ جانےکہاں سے ایک نوسر باز آ دھمکا۔ وہ ہمارے سامنے فرش پہ بیٹھ گیا۔ اس نے ایک کالے گٹکے کو ایک ڈھکن کے نیچے رکھا اور پھر تین مختلف مگر ایک رنگ کے ڈھکنوں کو تیزی سے فرش پہ گھمانے لگا۔ جب اس نے ان ڈھکنوں کو گھمانا روکا تو تماش بینوں کو دعوت دی کہ وہ شرط لگائیں کہ گٹکا کونسے ڈھکن کے نیچے تھا۔ شرط رقم کے ساتھ لگنی تھی۔ اگر شرط لگانے والا  شرط ہار گیا تو شرط کی رقم نوسر باز کی اور اگر جیت گیا تو نوسرباز شرط کی رقم کی دوگنی رقم شرط لگانے والے کو دے گا۔ سودا برا نہ تھا اور نوسر باز اس قدر آہستہ ڈھکنوں کو حرکت دے رہا تھا کہ یہ پتہ چلانا مشکل نہ تھا کہ گٹکا کس ڈھکن کے نیچے ہے۔ مگر نوسرباز کی ایک خاص ترکیب یہ تھی کہ جب ڈھکنوں کی حرکت روکنے کے بعد شرط لگانے والا اپنی جیب سے شرط کی رقم نکالتا تو شرط لگانے والے کا دھیان بٹنے پہ نوسرباز ڈھکنوں کو ایک بار پھر حرکت دے دیتا۔ نوسرباز کی یہ چالاکی لوگوں نے دیکھ لی تھی اور اب لوگ رقم نکالتے وقت شرط والے ڈھکنے پہ اپنا پائوں رکھ دیتے۔ کچھ لوگوں نے نوسرباز سے رقم جیتی۔ شاید یہ لوگ نوسرباز سے ملے ہوئے تھے۔ پھر ہمارے ساتھ سوار ایک مسافر خاتون نے لمبی رقم شرط پہ لگا دی۔ وہ اپنا مال ذرا سی دیر میں دوگنا کرنا چاہتی تھی۔ مگرجب عورت نے ڈھکنوں کی حرکت رکنے پہ ایک ڈھکن پہ اپنی جوتی رکھی، اپنے پرس سے رقم نکالی اور شرط والا ڈھکن الٹا گیا تو گٹکا وہاں موجود نہ تھا۔ عورت شرط ہار گئی تھی۔ نوسرباز نے سرعت سے عورت کے ہاتھ سے شرط کی رقم لے لی۔ وہاں کہرام مچ گیا۔ عورت نے رونا پیٹنا شروع کردیا۔ وہ زاروقطار رو رہی تھی۔ اس نے سخت غصے میں نوسرباز کو پکڑ لیا اور رقم کی واپسی کا تقاضہ کرنے لگی۔ نوسرباز اتنی دیر میں رقم اپنی جیب میں ڈال چکا تھا۔ اب وہ رقم اس کی تھی۔ گرما گرمی بڑھی اور تماش بینوں کا اشتیاق بھی۔ کچھ لوگ عورت کی حمایت میں نوسرباز سے الجھنے لگے۔ بات دکھم پیلی تک آئی تو نوسرباز نے آگے بڑھ کر ایک دکان کے سامنے پڑا ایک تیزدھار بغدا اٹھا لیا۔ لوگ ڈر گئے۔ پھر وہ نوجوان نوسرباز اپنی قمیض سیدھی کرتا ہوا تیز قدموں سے وہاں سے روانہ ہوگیا۔ دھینگا مشتی میں اس کی قمیض کے بیشتر بٹن ٹوٹ چکے تھے۔ مگر اس نے عورت سے اچھی رقم بنائی تھی اور وہ ایسی کئی قمیضیں خرید سکتا تھا۔
بس کی روانگی کا اعلان ہوا اور کچھ ہی دیر میں بس چل پڑی۔ بس کے اندر، ٹھگی جانے والی عورت کی ایک سہیلی تیز آواز میں متاثرہ عورت پہ بگڑتی رہی۔ شاید وہ لٹ جانے والی عورت کو لعن طعن کررہی تھی کہ اس نے ایسی بے وقوفی کی حرکت کیوں کی۔
بس ساری رات چلتی رہی۔ صبح ہونے پہ وہ ایک جھونپڑی پہ رکی۔ وہ کیفے پھونس شکل کا بس اڈہ تھا۔ اس دور افتادہ جگہ پہ کھانا آرڈر دینے کا ایک ہی طریقہ ہمیں سمجھ میں آیا۔ ہم  باورچی خانے میں گھس گئے اور وہاں موجود اجزائے ترکیبی کو دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ کس چیز کو کس کے ساتھ ملا کر کھانا تیار کرو۔ اس دوران زوردار بارش ہوئی۔ وہاں ضرورت گاہ کا کوئی معقول انتظام نہ تھا۔ مسافر جنگل میں مختلف سمتوں میں نکل گئے تھے۔ ہم نے روڈ پار کر کے ایک گھنا درخت تلاش کیا جس کے نیچے بیٹھ کر فارغ ہوا جاسکتا تھا۔ بارش اتنی زور دار تھی کہ پانی درخت سے چھن کر نیچے آرہا تھا۔ ہم نے جوتے کی نوک سے کیچڑ میں ایک گڑھا کھودا اور فارغ ہونے کے بعد جوتے سے کیچڑ سرکا کر گڑھے کو بھر دیا۔ اس وقت تک ہم خوب بھیگ چکے تھے۔
ہم دوپہر کے کسی وقت جنگ ھانگ پہنچے۔ جنگ ھانگ ایک چھوٹا قصبہ تھا۔ بس ایک دریا پار کر کے قصبے میں داخل ہوئی اور ہمارے ہوٹل کے سامنے سے گزرتی ہوئی، بس اسٹینڈ پہ پہنچ کر رک گئی۔ ہم  قصبے کی اس واحد سڑک پہ چلتے ہوئے واپس ہوٹل تک آئے۔
جنگ ھانگ میں برما سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ نظر آئے۔ ان میں سے کئی دیسی شکلوں کے تھے۔ یہ لوگ تہ بند باندھے ہوئے تھے۔ جب ہم لوگ ہوٹل میں داخل ہوئے تو اسی حلیے کا ایک شخس ہمارے ساتھ آکر استقبالیہ پہ کھڑا ہوگیا۔ جب ہم کلرک سے انگریزی میں اپنی بات کرچکے تو وہ شخص اردو میں ہم سے مخاطب ہوا۔
آپ ہم سے کہیے۔ کیا چاہتے ہیں؟ ہم ان کی بھاشا بھی جانتے ہیں۔
نہ جانے کیوں ہم اس شخص سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے ہم نے کلرک سے بات جاری رکھی۔ کلرک نے کمرے کے جو نرخ بتائے وہ ہماری توقع سے زیادہ تھے۔ ہم نے اپنا سامان استقبالیہ پہ چھوڑا اور کم نرخ کے ہوٹل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔

ہم ایک ایسے بازار سے گزرے جہاں زیادہ تر دکاندار ہماری شکل کے تھے۔ وہ سب مسکرا مسکرا کر ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ ہم نے دوسرے ہوٹلوں سے کرائے معلوم کیے۔  ان سب کے نرخ پچھلے ہوٹل سے بھی زیادہ تھے۔ ہم واپس پہلے والے ہوٹل میں پلٹ آئے۔
اس روز ہمارے لیے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ آیا چین لائوس کا زمینی بارڈر ہمارے جیسے پاکستانی پاسپورٹ حامل افراد کے لیے کھلا تھا؟ کیا ہم اس سرحد سے لائوس میں داخل ہوسکتے تھے؟ ہم نے یہ سوال جنگ ھانگ میں ایک سرکاری دفتر میں پوچھا تو اثبات میں جواب ملا۔ مگر پھر ہوٹل والے سے یہی سوال پوچھا تو سخت نفی میں جواب ملا۔ مگر اب دیر ہوچکی تھی۔ ہمیں اگلے روز ہر حالت میں لائوس کی سرحد پہ پہنچنا تھا۔ اگر ہمیں وہاں سے لوٹایا گیا تو برا ہوگا۔



Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?