Wednesday, November 02, 2016

 

ظلمت شب کی وجہ سے گھر کی مرغی دال برابر









ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو پانچ

 اکتوبر اٹھائیس، دو ہزار سولہ


ظلمت شب کی وجہ سے گھر کی مرغی دال برابر


اس دفعہ چین کے سفرنامے کا ناغہ ہے۔
ان دنوں محترم جمیل خان صاحب کی کتاب ظلمت شب پڑھ رہا ہوں، اور سر دھن رہا ہوں۔ پاکستان کے ایسے لکھنے والے جو راست سوچ رکھتے ہوں، جو سائنس اور اعتقادات کے درمیان فرق سمجھتے ہوں، جنہوں نے تاریخ کا اچھا مطالعہ کیا ہو، انگلیوں پہ گنے جاسکتے ہیں۔ اسی گنتی میں جمیل خان صاحب بھی آتے ہیں۔ اپنی کتاب میں جمیل خان صاحب پاکستان میں چھائی جس ظلمت شب کا رونا رو رہے ہیں، اس کا ایک عملی مشاہدہ چند روز پہلے ہوا۔
ہمارے ایک فیس بکی دوست نے’گھر کی مرغی دال برابر‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ اصل مضمون یہاں پڑھا جاسکتا ہے۔
اس مضمون کا مرکزی خیال دراصل ایک شکایت ہے۔ شکایت یہ ہے کہ اپنے لوگ یعنی دیسی لوگ، پاکستانی لوگ، سچی بات کو اس وقت قبول نہیں کرتے جب تک انہیں یہ بات کسی مغربی ذرائع سے نہ معلوم دے؛ ایک دیسی آدمی کوئی بات کہے تو دوسرے دیسی اسے ذرا اہمیت نہیں دیتے، انگریز بتائے تو اسے فورا مان لیتے ہیں۔ اس بات کو تمثیلا بیان کرنے کے لیے مصنف نے ایک قصہ [غالبا گھڑا ہوا] بیان کیا کہ ان کا ایک دوست کمر کے درد میں مبتلا تھا۔  وہ دوست مصنف سے ملا تو دوست نے اپنے کمر کے درد کی شکایت کی۔ مصنف نے دوست کو مشورہ دیا کہ وہ باقاعدگی سے نماز پڑھے تو رکوع کرنے سے اس کی کمر کا درد دور ہوجائے گا۔ مصنف کے دوست نے مصنف کی اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس موقع پہ مصنف نے اپنے دوست کو بتایا کہ ایک غیرملکی، غیرمسلم سائنسدان نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ باقاعدگی سے نماز پڑھنے سے کمر کا درد ختم ہوجاتا ہے۔ اس بات پہ مصنف کا دوست فورا قائل ہوگیا اور اس نے مصنف سے کہا کہ اگر کسی غیرملکی نے یہ تحقیق کی ہے تو پھر بات سچی ہوگی۔ اس طرح مصنف نے قارئین پہ ثابت کیا کہ ہمارے لوگ اپنے لوگوں کی بات کا یقین نہیں کرتے جب کہ ’گورے‘ کی بات فورا مان لیتے ہیں، گویا گھر کی مرغی دال برابر۔
اس مضمون کو پڑھ کر بے اختیار ظلمت شب کا خیال آیا۔ اس مضمون میں موجود تمثیلی قصے کو کسی طرح دیکھیے، آپ کو بات سمجھ میں آجائے گی کہ گھر کی مرغی دال برابر اس لیے ہے کیونکہ گھر کی وہ چیز جسے مرغی خیال کیا جارہا ہے، واقعی دال ہے یا اس سے کمتر کوئی شے ہے۔ [واضح رہے کہ ہم کھانوں میں طبقاتی تفریق نہیں کرتے؛ اوپر تحریر جملہ محض محاورے سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے۔]
مضمون میں موجود قصے کو ایک طرح یوں دیکھا جاسکتا ہے کہ خود مصنف، اپنے دینی اعتقادات کی وجہ سے، قائل ہے کہ نماز کمر کے درد کے لیے بہترین ورزش ہے۔ مصنف کا ایک دوست اس بات پہ قائل نہیں ہورہا اس لیے مصنف دوست سے جھوٹ بولتا ہے کہ ایک غیرملکی، غیرمسلم سائنسدان نے تحقیق سے ثابت کیا ہے نماز کمر کے درد کے لیے بہترین ورزش ہے۔ کسی غیر مسلم سائنسدان نے ایسی کوئی تحقیق نہیں کی جس سے ثابت ہو کہ کمر کے درد کے لیے نماز اکسیر ہے مگر کیونکہ خود مصنف کا یہ خیال ہےکہ ایسا ہوتا ہوگا اس لیے مصنف نے یہ بندوق بے چارے غیر مسلم سائنسدان کے کندھے پہ رکھ کر چلا دی۔ غیرملکی سائنسدان کا نام سننے کی دیر تھی، مصنف کا دوست فورا قائل ہوجاتا ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مصنف اپنی بات منوانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینے کو تیار ہے۔ اور اسی نتیجے میں مصنف کے لیے اس سوال کا جواب پوشیدہ ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر کیوں ہے۔ گھر کی مرغی دال برابر اس لیے ہے کیونکہ گھر کی مرغی جھوٹ بولتی ہے،اور اپنےجھوٹ کی وجہ سے وہ واقعی دال ہے۔ باالفاظ دیگر اگر ’اپنے‘ لوگ اپنی بات کو منوانے کےلیے جھوٹ کا سہارا لیں گے تو پھر ان کی باتوں کو کیسے سنجیدگی سے لیا جائے گا؟
مضمون میں موجود قصے کو دوسری طرح یوں دیکھا جاسکتا ہے کہ خود مصنف، اپنے دینی اعتقادات کی وجہ سے، قائل ہے کہ نماز کمر کے درد کے لیے بہترین ورزش ہے۔ ساتھ ہی مصنف نے انٹرنیٹ پہ کوئی ایسی چیز پڑھی جس سے اسے خیال ہوا کہ ایک غیرملکی، غیرمسلم سائنسدان نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ نماز کمر کے درد کے لیے بہترین ورزش ہے۔ مصنف کا ایک دوست اس بات پہ قائل نہیں ہورہا ہے کہ کمر کا درد دور کرنے کے لیے نماز پڑھنی چاہیے۔ مگر جب مصنف غیرملکی، غیرمسلم سائنسدان کی تحقیق کا حوالہ دیتا ہے تو مصنف کا دوست فورا بات مان لیتا ہے۔ قصے کو اس طرح دیکھنے پہ بھی واضح ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر کیوں ہے۔ اپنے لوگوں کی بات کی قدر اس لیے نہیں ہے کیونکہ وہ سائنسی ذہن نہیں رکھتے۔ وہ اگر کچھ پڑھتے ہیں تو اسے اپنے اعتقادات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ کمزور سے کمزور دلیل اگر ان کے اعتقادات کی کسوٹی پہ پوری اترے تو اسے جھٹ قبول کرلیتے ہیں۔

ہم مصنف سے کبھی نہیں ملے اس لیے مضمون پڑھ کر خیال ہوا کہ شاید یہ کسی کم سن، کچے ذہن کے نوجوان کی تحریر ہے۔ مگر پھر مصنف کی تصویر دیکھی تو معلوم ہوا کہ مصنف داڑھی رکھتے ہیں۔ ان کے کوائف دیکھے تو معلوم ہوا کہ مصنف جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی ہیں۔ دل ڈوب گیا۔  پاکستان کے تعلیمی اداروں کے معیار پہ ہونے والی کڑی تنقید صحیح معلوم دینے لگی۔ اندازہ ہوا کہ جامعہ کراچی ڈگریاں تو دیتی ہے مگر تعلیم نہیں دیتی۔ ہم نے فیس بک پہ مصنف سے رابطہ کیا تاکہ معاملے کو کریدیں۔ مصنف سے رابطہ کرنے پہ معلوم ہوا کہ مصنف کو بھرپور یقین تھا کہ انہوں نے کسی معتبر سائنسی رسالے میں اس تحقیق کے بارے میں پڑھا تھا کہ کمر کے درد کے لیے نماز بہترین ورزش ثابت ہوئی ہے۔ مصنف سے حوالہ مانگا تو انہوں نے ایک غیرسائنسی حوالہ پیش کیا۔ اس حوالے کی خرابی بیان کی تو مصنف ناراض ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک سائنسدان ہیں اور وہ جو کچھ سمجھتے ہیں انہوں نے لکھ دیا ہے۔ کوئی اختلاف کرنا چاہے تو کرے مگر وہ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔ ایک پی ایچ ڈی کے منہ سے یہ بات سن کر دل اور خراب ہوا۔ ثابت ہوا کہ جامعہ کراچی کی اسناد ردی کے کاغذ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ جامعہ کراچی کا معیار تعلیم اس قدر پست ہے کہ اس جامعہ کے طلبا سائنس اور اعتقادات کے درمیان فرق جانے بغیر یہاں سے سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرلیتے ہیں۔

Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?