Saturday, November 05, 2016

 

انگریزی چینی وٹہ سٹہ





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو چار

 اکتوبر پندرہ، دو ہزار سولہ


انگریزی چینی وٹہ سٹہ



ہوہوت نامی شہر چین کے نی منگو یا اندرون منگولیا نامی صوبے میں واقع ہے۔ اس صوبے کا نام چغلی کھاتا ہے کہ یہ چینی صوبہ، ملک منگولیا کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ لانجھو سے اندرون منگولیا کے دارالحکومت ہوہوت پہنچنے پہ ہم عظیم دیوار چین کے مغرب میں پہنچ چکے تھے۔ دیوار چین شمال اور شمال مغرب سے حملہ آوروں کی بے جنگ پہ یلغار سے بچنے کے لیے بنائی گئی تھی۔
پرانی دنیا میں الفاظ سے زیادہ علامات کی اہمیت تھی. وجہ شاید یہ تھی کہ کم لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ بہت سی علامات قدرت سے مستعار تھیں مثلا چاند، سورج، اور ستارے۔ مگر بعض قدیم علامات ایسی تھیں جو محض استعمال کی روایت سے مضبوط ہوتی گئیں اور ان کے معنی وقت کے ساتھ مختلف لوگوں نے مختلف بیان کیے۔ ایسی ہی ایک علامت سواستکا ہے۔ اس علامت نے ہمارے خطے یعنی جنوبی ایشیا میں جنم لیا اور پھر غالبا بدھ دھرم ماننے والوں کے پھیلائو سے یہ علامت چین، اس کے مغرب اور مشرق میں پھیل گئی۔ اس زمانے میں اس علامت کا مطلب شانتی تھا: سواستکا کے چاروں کونوں سے دنیا میں پھیلنے والا امن۔ ہمیں ہوہوت کے ڈاژائو بدھ مندرمیں وہی سواستکا نظر آیا۔ اس علامت کا پرانی منگولیائی حروف تہجی کے ساتھ نظر آنا دلچسپ تھا۔ اگر ہمیں پرانی منگولیائی زبان اپنے لکھنے کے انداز  میں عربی کی طرح نظر آرہی تھی تو اس کی خاص وجہ تھی اور وہ یہ کہ اپنے دور حکومت میں چنگیز خان نے منگولیائی زبان کے لیے ویگر حروف اپنائے تھے جو ایک ایسی پرانی زبان سے تعلق رکھتے تھے جو عربی اور عبرانی زبانوں کی ماں تھی۔ جدید منگولین زبان سیریلک حروف تہجی [وہ حروف تہجی جو روسی زبان کے لیے استعمال ہوتے ہیں] میں لکھی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ زبان اور اس کا رسم الخط دو مختلف منابع رکھ سکتے ہیں۔ مثلا اردو ایک ہند۔یورپی زبان ہے مگر اس کا رسم الخط جدید فارسی یا عربی کا ہے۔
مگر اب علامتوں کا زمانہ لدے مدت ہوچکی ہے۔ علامتوں سے حروف اور حروف سے الفاظ اور الفاظ سے پیچیدہ مفہومات کا دور بہت پہلے شروع ہو چکا ہے۔ اور اب وہ دور ہےجب دوسری زبانوں کے مقابلے میں انگریزی کی بالادستی ہر جگہ مانی جارہی ہے۔ اب دنیا بھر میں مختلف زبانیں بولنے والی نئی پود، انگریزی سیکھنا چاہتی ہے۔
ایک دن ہم ہوہوت میں خراماں خراماں چلے جارہے تھے کہ اچانک ایک سائیکل سوار نوجوان نمودار ہوا اور ہم سے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں باتیں کرنے لگا۔ دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح چین کے اس علاقے میں بھی مقامی لوگوں کا یہ خیال معلوم دیتا تھا کہ ہر سیاح انگریزی بولتا ہے۔ نوجوان نے فورا ہی ہم سے گفتگو کا مقصد بیان کردیا۔ وہ ہم سے بات کر کے انگریزی کی مشق کرنا چاہتا تھا؛ اس سودے میں وہ ہمارا گائڈ بننے کے لیے تیار تھا۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ انگریزی ہماری مادری زبان نہ تھی اور زیادہ بہتر یہ تھا کہ ہم اس سے چینی زبان میں بات کر کے اپنی چینی بہتر کریں مگر وہ نہ مانا۔ اس کی انگریزی ہماری چینی سے لاکھ درجہ بہتر تھی۔ وہ ہمارے ساتھ چلتا رہا۔ سڑکیں ناپتے ناپتے ہماری بھوک کھل گئی تھی۔ ہم نے اس سے کھانےکے لیے کسی اچھی جگہ  کے بارے میں پوچھا۔ وہ ہمیں ایک ریستوراں لے گیا مگر وہاں پہنچ کر اس نے اندر جانے سے انکار کردیا۔ شاید وہ ہم پہ بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس نے ہم سے اگلے روز ملنے کے لیے ہمارے ہوٹل کے بارے میں معلوم کرلیا۔
ریستوراں کے اندر منگولیا کا وہ خاص کھاجا مل رہا تھا جو مغرب میں منگولین ہاٹ پاٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہمارے وہاں پہنچنے پہ ایک مستعد بیرا حاضر ہوا۔ اس نے ہم سے کئی سوالات نیم چینی نیم انگریزی میں پوچھے۔ ہم اپنی سمجھ کے حساب سے ہاں، ہاں کرتے رہے۔ کچھ ہی دیر بعد کھانا جو آیا تو ہمارے سامنے طرح طرح کی چیزوں کے ڈھیر لگ گئے۔ بڑی مشکل سے بیرے کو سمجھا بجھا کر کچھ کھانا واپس کیا۔ ہم وہاں کھانا کھانے کے بعد ایک بڑا بل دے کر بوجھل دل کے ساتھ اس ریستوراں سے باہر نکلے۔


Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?