Sunday, October 09, 2016
تلفان
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار تین
سو ایک
اکتوبر تین، دو ہزار سولہ
تلفان
گرم پانی
گو کہ ہمیں کورلا میں ہوٹل کا کمرہ بہت صبح چھوڑنے کو کہا گیا تھا مگر ہماری
آنکھ تڑکے اس وقت کھلی جب اچانک کوئی
دروازہ کھول کر کمرے کے اندر داخل ہوا۔ ہم
نے بستر پہ ساکت پڑے اس نسوانی ہیولے کو دیکھا جو بستر کے دوسری طرف پڑی میز پہ
نیا تھرموس رکھ کر اور پرانا تھرموس لے کر چلتا بنا تھا۔
چین پہنچنے سے پہلے کسی نے ہمیں یہ نہیں بتایا تھا کہ چینی ٹھنڈا پانی نہیں
پیتے بلکہ کھولتا ہوا گرم پانی پیتے ہیں۔ مگر
چین پہنچتے ہی ہم پہ یہ راز کھل گیا تھا کیونکہ ہر ہوٹل کے کمرے میں گرم پانی کا
تھرموس موجود ہوتا تھا۔ کورلا کے اس ہوٹل کی سروس ذرا نرالی تھی۔ شاید ہوٹل والوں
کو خیال ہوا کہ ہمیں صبح اٹھتے ہی گرم پانی پینے کی چاہت ہوگی، اس لیے بغیر دروازہ
کھٹکھٹائے چابی سے کمرے کا دروازہ کھولا گیا اور پانی کا نیا تھرموس پرانے تھرموس
سے بدل دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد ہم نے یہ انتظام کیا کہ رات کمرے کا روازہ مقفل
کرنے کے بعد دروازے کے آگے ایک کرسی یا کوئی اور بھاری چیز رکھ دیتے تھے۔
اگر آپ کسی چینی سے پوچھیں کہ وہ گرم پانی کیوں پیتا ہے تو وہ آپ کے اس سوال
پہ حیران ہوگا۔ اس کا خیال ہوگا کہ پانی تو ہمیشہ گرم ہی پیا جاتا ہے۔ بھلا ٹھنڈا
پانی کون پیتا ہے؟ ٹھنڈا پانی تو جسم کے لیے نقصان دہ ہے۔ جب کہ گرم پانی جلد آپ
کے گرم نظٓم ہاضمہ کا حصہ بن جاتا ہے۔ چینی اتنے عرصے سے گرم پانی پی رہے ہیں کہ
انہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے کتنی دہائیوں پہلے ایسا کرنا شروع کیا تھا۔
کہتے ہیں کہ کنفیوشس نے گرم پانی پینے کا رواج عام کیا تھا۔ پھر مائو کے
انقلاب کے بعد صحت عامہ برقرار رکھنے کی نیت سے ریاستی سطح پہ گرم پانی پینے کی
عادت کو فروغ دیا گیا۔
پرانے وقتوں میں سفر جان جوکھوں کا کام تھا۔ ہر قدم پہ خطرات تھے۔ سب سے بڑا
خطرہ یہ تھا کہ آپ جس نئی جگہ جائیں گے وہاں کوئی آپ کو زہر دے کر ہلاک کردے گا
اور آپ کا سامان ہتھیا لے گا۔ ہمارا خیال ہے کہ پرانے زمانے کے ایسے واقعات میں
زہر دراصل نئی جگہ کا پانی ہوتا ہوگا۔ نئی جگہ کا پانی، طرح طرح کے نئے جراثیم
لیے؛ ایسے جراثیم جن سے مدافعت کی طاقت آپ کے بدن میں موجود نہیں ہے۔ آپ وہ پانی
پئیں تو ذرا سی دیر میں بیمار ہوجائیں۔ آج کا مسافر تو اچھی طرح یہ بات جانتا ہے کہ
کسی نئی جگہ پہنچ کر سب سے زیادہ احتیاط پینے کی پانی مٰیں کرنی ہے مگر چند
دہائیوں پہلے یہ علم عام نہ تھا۔ پرانے زمانے کے تجربہ کار سیاحوں کو جہاں سورج
اور ستاروں کی مدد سے سمت کا تعین کرنے کا طریقہ معلوم تھا وہیں شاید انہیں یہ راز
بھی معلوم ہوگا کہ نئی جگہ پہ کھانا ہمیشہ گرما گرم کھانا ہے؛ پانی گرم پینا ہے یا
پھر پینا ہی نہیں ہے۔ پانی کی کمی ایسے رس دار پھلوں سے پوری کرنی ہے جنہیں چھیل
کر کھایا جاسکے۔
ہیولے کے کمرے سے جانے کے بعد ہم بہت دیر تک بستر پہ پڑے رہے۔ پھر جب کھڑکی کے
باہر دن کی روشنی بڑھی تو اٹھ کر گرم پانی کو تھرموس سے نکال کر گلاس میں ڈالا کہ
پانی ٹھنڈا ہوجائے تو اسے پئیں۔
کورلا سے تلفان
کورلا سے تلفان جانے میں ہمیں یہ خوشی تھی کہ ہم پہلی بار چین میں ٹرین کا سفر
کررہے تھے۔
وہ سفر بہت زیادہ لمبا نہ تھا۔ ہم تلفان پہنچ کر بہت خوش ہوئے۔ ریلوے اسٹیشن
سے نکل کر پیدل مرکز شہر کی طرف چلے تو سڑکوں اور فٹ پاتھوں کو انگوروں کی بیلوں
سے ڈھکا پایا۔ تلفان اپنے انگوروں کے لیے مشہور ہے اور تلفان انگوروں کی کاشت کا
کوئی موقع ہاتھ سے گنوانے کے لیے تیار نظر نہ آتا تھا۔ فٹ پاتھ پہ چلتے کئی جگہ
انگوروں کے خوشے اتنے نیچے لٹکے نظر آئے کہ ہمارا سر ان سے ٹکراتے ٹکراتے
بچا۔ وہ انگوروں کا موسم تھا اور انگور
تیار حالت میں تھے۔ مگر انگور کی وہ
بیلیں بلدیہ کی ملکیت تھیں۔ چین اشتراکی نظام پہ چل رہا تھا۔ مشترکہ ملکیت کے ان
انگوروں کو ہاتھ لگانے پہ ہم پکڑے جاسکتے تھے۔
تلفان پہنچنے
کے اگلے دن ہمیں ایک ضروری کام کرنا تھا۔ دراصل کراچی میں موجود چینی قونصل
خانے نے ہمیں صرف دس روز کا سیاحتی ویزا دیا تھا۔ چین میں داخل ہونے کے بعد دس دن پلک جھپکتے میں
گزر گئے تھے۔ ہمیں ویزے کی مدت میں توسیع درکار تھی۔ تلفان میں یہ کام آسانی سے
ہوگیا۔ ایک سرکاری دفتر میں ہمارے ویزے کی مدت بڑھا دی گئی۔ مگر ہماری خواہش کے خلاف
لمبی توسیع نہیں دی گئی بلکہ چین میں صرف دس اور دن ٹہرنے کی اجازت ملی۔
تلفان ایک تاریخی شہر ہے۔ تلفان آنے والے سیاح اس جگہ سے متعلق مختلف تاریخی ادوار کی نشانیاں دیکھ
سکتے ہیں۔ وہاں ماضی قریب کی ایک یادداشت حاجی امین مینار کی صورت میں تھی۔ یہ مینار
اس وقت کی یادگار ہےجب ایک چینی بادشاہ نے تلفان پہ قائم منگول بادشاہت کو شکست دے
کر تلفان کو اپنی بادشاہت کا حصہ بنایا تھا۔ امین خوجہ مینار ایک مسجد کے ساتھ
واقع تھا۔ اگر آپ تلفان کی زیادہ قدیم تاریخ کو جاننا چاہیں تو آپ تلفان سے کچھ
فاصلے پہ واقع بزکلک بدھ غاروں کی سیر کرسکتے ہیں۔ یہ غار اس دور کی نشانی ہیں جب
اسلام آنے سے بہت پہلے یہ اس پورے علاقے میں بدھ مت کے پیروکار رہتے تھے۔ ہم ایک
وین کے ذریعے تلفان سے بزکلک غار پہنچے تو سیاح ہونے کے ناتے ہم سے غار کی داخلہ
فیس کس کر لی گئی۔ ٹکٹ کی وہ رقم مقامی باشندوں کے لیے مختص ٹکٹ کی رقم سے کئی گنا
زیادہ تھی۔ ہم تلملا اٹھے۔ ہم نے احتجاج کیا کہ سب سیاح برابر نہیں ہوتے۔ ہم مغربی
ممالک کے ان سیاحوں جیسے نہ تھے جو دو ہفتے کی چھٹیوں پہ کہیں جاتے ہیں اورجن کے
لیے کم وقت میں خطیر رقم خرچ کرنا کوئی
بڑی بات نہیں ہوتی۔ ہم تو طالب علم سیاح تھے۔ مگر ہماری ایک نہ سنی گئی۔ ہم مقامی
نہ تھے؛ ہماری جیب پہ ڈاکہ ڈالنے کے لیے بس اتنا کافی تھا۔
اسی علاقے میں ہمیں تائیوان سے تعلق رکھنے والا ایک خانوادہ ملا تھا۔ اس
خاندان کے ایک نوجوان نے بتایا تھا کہ خاندان کے لوگ کوشش کرتے تھے کہ مقامی چینی
بن کر ایسے سیاحتی مقامات کی کم فیس دیں مگر اکثر جگہ انہیں کامیابی نہیں ہوتی
تھی۔ ان لوگوں کے جدید تراش خراش کے لباس
اور چینی زبان کا جدا لہجہ گواہی دیتا تھا کہ وہ مقامی چینی نہیں تھے۔ ان سے بھی
کڑک فیس اینٹھی جاتی تھی۔
ہم داخلہ فیس دینے کے بعد اوپر چڑھے اور ایک ایک غار میں جھانک کر وہاں کا
جائزہ لیتے ہوئے سوچتے رہے کہ اس سیاحت سے ہم جو علم حاصل کر رہے تھے کیا وہ اس
کڑی فیس سے وارہ کھاتا تھا جو ہم سے وصول کی گئی تھی۔
تلفان میں تین روز کے قیام کے دوران ہم نے صبح و شام انگور کھائے کہ وہ وافر
دستیاب تھے اور ارزاں تھے۔ جب انگور کھانے سے دل بھر گیا تو سوچا کہ انگوروں کا رس
نکال کر پیا جائے۔ اس مقصد کے لیے کئی بار اپنا رومال استعمال کیا۔ رومال کو
انگوروں سے بھرا جاتا اور پھر انگوروں کو دبا کر گلاس میں رس جمع کیا جاتا۔ تلفان سے روانہ ہوتے وقت ہم اپنا وہ یادگار
رومال ہوٹل کے کمرے میں بھول آئے۔
Labels: China, Turpan, Urdu travelogue