Monday, October 31, 2016
زبان یار من چینی
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار تین سو تین
اکتوبر
پندرہ، دو ہزار سولہ
زبان یار من چینی
چین میں مغرب
سے مشرق کی طرف سفر کرتے ہوئے ہم بتدریج ہان لوگوں کے گڑھ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یعنی
دنیا کی اس واحد ثقافت کے مرکز کی طرف جو تسلسل سے پچھلے لگ بھگ ساڑھے تین ہزار
سال سے قائم ہے۔ تسلسل سے کس طرح؟ اس طرح کہ موجودہ چین کا ایک شخص تھوڑی سی کوشش
سے پتھر پہ لکھی جانے والے ساڑھے تین ہزار سال قدیم چینی لکھائی پڑھ سکتا ہے۔ یوں
تو ہم جنوبی ایشیا میں رہنے والے لوگ بھی اپنا قدیمی تعلق موئنجودڑو اور ہڑپہ کے
ساتھ جوڑتے ہیں اور اس طریقے سے اپنی ثقافت کو ساڑھے چار ہزار سال پرانا خیال کرتے
ہیں مگر جنوبی ایشیا کی ثقافت میں تسلسل نہیں ہے۔ ہم موئنجودڑو کی لکھائی نہیں پڑھ
سکتے اور اسی وجہ سے ہم موئنجودڑو کے رہنے والوں کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتے؛
نہ یہ جانتے ہیں کہ وہ کہاں سے آئے تھے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ وہ موئنجودڑو چھوڑ
کر کہاں چلے گئے۔
بہت جگہ دیکھا
گیا ہے کہ کسی خطے کے لوگ اپنے خطے کو کسی نام سے جانتے ہیں، جب کہ باہر والے اس
خطے کو کسی اور نام سے پکارتے ہیں۔ چین پہ بھی یہ کلیہ صادق آتا ہے۔ ہمارے لیے جو
ملک چین ہے وہ چینیوں کے لیے جنگ ھوا یا درمیانی بادشاہت ہے۔ یعنی اوپر اللہ، نیچے حشرات الارض اور درمیان میں چینی بادشاہت کے روپ میں
انسان کی عظیم ترین شکل۔
لیویوآن سے لانجھو آتے آتے
آبادی کا منظر بدل رہا تھا۔ قصبے اور شہر
زیادہ گنجان آباد نظر آتے تھے۔ طویل القامت عمارتوں کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی۔
ساتھ ہی ہمیں یہ احساس تھا کہ چینیوں کے ہاتھوں لٹنے میں کمی کے لیےچینی زبان سے
تھوڑی بہت شد بد ضروری تھی۔
چینی بولی
سیکھنا ہرگز مشکل نہیں ہے مگر چینی زبان
لکھنا پڑھنا سیکھنا بہت مشکل ہے اور اس کی وجہ چینی زبان کا انداز تحریر ہے۔ اردو
تحریر کی اکائی حرف ہے اور یہی حال انگریزی سیمت اکثر زبانوں کا ہے۔ ان زبانوں میں
ہم حروف یا الفابیٹ کو جوڑ کر ہجا یا سلیبل بناتے ہیں۔ ہجا حروف کا وہ مجموعہ ہے
جو ایک سانس میں ادا کیا جاتا ہے۔ مثلا لفظ تمھارا میں تین ہجا ہیں، تم، ہا اور
را۔ جب کہ لفظ ہوٹل میں دو ہجا ہیں، ہو اور ٹل۔ چینی زبان میں تحریر کی اکائی حروف
نہیں بلکہ ہجا ہیں۔ ایسا کرنے میں آسانی یہ ہے کہ آپ چیزوں کے نام کم جگہ میں
لکھ سکتے ہیں۔ مثلا ہم لفظ ہوٹل کو چار حروف ملا کر لکھتے ہیں جب کہ چینی لفظ ہوٹل
لکھنے میں صرف دو ہجا یا دو چینی حروف میں کام چلائیں گے، ایک ہو کے لیے اور دوسرا
ٹل کے لیے۔ مگر اس کے ساتھ اس انداز تحریر میں مشکل یہ ہے کہ چینی زبان لکھنے کے
لیے آپ کو بہت بڑی تعداد میں ہجا یاد کرنے ہوں گے۔ مثلا ہم حروف الف اور ن سے چار
ہجا اُن، ان، ان، اور نا بنا سکتے ہیں جب کہ چینی تحریر کے لیے آپ کو ان چاروں
تراکیب کے لیے الگ الگ ہجا یا چینی حروف یاد کرنا ہوں گے۔
کسی چینی جملے
میں جتنے ہجا ہوں گے، آپ کو اس میں اتنے ہی چینی حروف یا کراچی کی بازاری زبان
میں چینی کیڑے مکوڑے نظر آئیں گے۔ مثلا اگر آپ ایک ایسے ہوٹل میں ٹہرے ہیں جس کا
نام با یی ین گوان ہے تو آپ کو اس کے چینی نام میں چار کیڑے مکوڑے بنے نظر آئیں
گے۔
کسی نئی زبان
کو سیکھنے کی آزمودہ ترکیب یہ ہے کہ آپ بلا تکلف اس زبان میں کود پڑیں۔ اہل زبان
جس طرح اور جس تلفظ سے الفاظ ادا کررہے ہیں آپ بھی اسی طرح ان الفاظ کو کہیں۔ مگر
ہم جن زبانوں سے کسی حد تک واقف تھے، چینی زبان ان سے اس قدر مختلف ہےکہ ہمیں چینی
زبان کو پکڑنے کا سرا نہیں مل رہا تھا۔ ہماری سفری کتاب میں چند بنیادی چینی جملے
مع تلفظ کے اشاروں کے موجود تھے مگر ہم نے جب کبھی اس تلفظ کی مدد سے کوئی لفظ
اپنے تئیں چینی زبان میں کہا تو دوسرے کو ذرا پلے نہ پڑا۔ اس صورت میں ٹرین میں
ہمارے ساتھ لانجھو سے ہوہوہات جانے والی ایک چینی لڑکی ہمارے بہت کام آئی۔ اس نے
ہمیں بنیادی چینی الفاظ کے صحیح تلفظ سکھانے کے علاوہ گنتی بھی سکھائی۔ اب ہم چینی
زبان میں چیزوں کی مول تول کے لیے تیار ہو رہے تھے۔
Labels: alphabet vs syllable based languages, China travelogue, Chinese vs other languages, Difficulties in learning the Chinese language