Monday, October 17, 2016

 

سید رفعت محمود کی یاد میں

سید رفعت محمود کی یاد میں


رفعت محمود صاحب کو میں ایک ایسے نفیس شخص کے طور پہ جانتا ہوں جو مجھ سے جب ملے نہایت شفقت سے ملے۔

تین اگست کے دن سید رفعت محمود صاحب کی موت نے مجھے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کیا۔ میں نے ان کی موت میں اپنی زندگی کا مقصد تلاش کرنے کی کوشش کی۔
بہت سال پہلے میں ایک دوسرا انسان تھا۔ وہ شخص جو اپنے محبت کرنے والوں کی موت پہ ہفتوں دل گرفتہ رہتا۔ مگر پھر ایک دن مجھے خیال ہوا کہ قریب کے گزرجانے والوں کی موت کا گہرا سوگ دراصل وہ لوگ مناتے ہیں جنہوں نے خود اپنی عنقریب آنے والی موت کو ذہنی طور پہ قبول نہیں کیا ہوتا۔ جو اس بات کو نہیں سمجھتے کہ انسان کو ہر دن جو مل رہا ہے بس ایک تحفہ ہے جس پہ اس کا کوئی حق نہ تھا، جو محض ایک احسان ہے۔ کہ بظاہر کائنات کی ہلچل دائمی ہے۔ کہ سورج چڑھتا ہے اور سورج غروب ہوتا ہے، دن اور رات مستقل آنکھ مچولی کھیلتے ہیں، اور اسی گرتی اٹھتی موسیقی کی لو میں دل بھی دھڑکتا ہے اور سانس بھی چلتی ہے۔ مگر یہ سب عارضی ہے۔ موت زندگی کے چلتے پہیے میں ایک چھڑی ہے جس سے زندگی کا پہیہ ایک دم کڑکڑا کر رک جاتا ہے۔

سید رفعت محمود شاید زندگی کی اس حقیقت کو دوسروں سے زیادہ گہرائی سے سمجھتے تھے۔

یہاں موجود بہت سے لوگوں کی طرح رفعت محمود صاحب بھی اس ملک میں ہجرت کر کے آئے تھے۔  تیسری دنیا سے مغربی دنیا کا رخ کرنے والے لوگ ڈرتے ڈرتے اس نظام کا معاشی حصہ بننے پہ ہی فخر کرتے ہیں۔ وہ گرین کارڈ، شہریت، اور نوکری کے روگ ہی سے کبھی آگے نہیں بڑھ پاتے۔ ایسے میں رفعت محمود صاحب نے ہمیں راستہ دکھایا کہ ہم روزانہ کی جس سماجی اور معاشی زندگی سے نبردآزما ہیں وہ دراصل ایک بڑے سیاسی نظام کی مرہون منت ہے۔ اور ہمیں اس سیاسی نظام میں اپنی رائے دینی ہے۔ اس سیاسی نظام کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کرنی ہے۔

رفعت محمود صاحب امریکہ میں جس اقلیتی گروہ کا حصہ تھے اس کے اکثر لوگ اپنی خواہشات کے پنجرے میں بند نظر آتے ہیں۔ ان پنجروں میں معاشی مصروفیت کے وہ چرخے ہیں جن پہ، یہ مقید لوگ دن رات دوڑتے رہتے ہیں اور خواہشات کی اسیری سے وفاداری پہ انہیں مستقل انعامات سے نوازا جاتا ہے: بڑا گھر، چمکدار گاڑی، اور ایک ایسی کل کی مالی تیاری میں دھن کے انبار جس کل کی کوئی خبر نہیں۔

ایسے میں ہر وہ شخص جو اپنی ذات سے بلند ہوکر دوسروں کی پرواہ کرے، کمزوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے، لوگوں کو اکھٹا کرے، پورے معاشرے کی بات کرے، وہ ایک عظیم آدمی ہے۔

رفعت محمود صاحب ایک ایسے ہی عظیم انسان تھے۔


Syed Rifat Mahmood

یہ مضمون اگست اٹھائیس کو چاندنی ریستوراں، نو ارک، کیلی فورنیا میں سید رفعت محمود صاحب کی یاد میں منعقد ہونے والی ایک محفل میں پڑھا گیا۔ ’

Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?