Thursday, October 13, 2016
اونچ نیچ سے پاک اشتراکی معاشرہ
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار تین
سو دو
اکتوبر نو، دو ہزار سولہ
اونچ نیچ سے پاک اشتراکی معاشرہ
ستمبر آٹھ کی میری ڈائری میں جو کچھ لکھا ہے اس سے میری اس وقت کی پریشانی کا
اندازہ ہوتا ہے۔ لکھا ہے کہ خدایا میں کیا کروں؟ کاش کوئی میرے لیے یہ فیصلے
کردیتا اور میں آنکھ بند کر کے پیچھے چل پڑتا۔ دراصل میری پریشانی ٹرین کے ٹکٹ کی
خریداری سے متعلق تھی۔ پہلے تمہید۔ سرمایہ دارانہ نظام سے چلنے والے ممالک اپنے علاقوں
میں چلنے والی ٹرینوں میں فرسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس، اور تھرڈ کلاس کی تفریق کرتے ہیں
مگر ظاہر ہے کہ اشتراکی نظام سے چلنے والا چین ایسی کوئی طبقاتی تفریق ظاہر نہیں
کر سکتا تھا۔ طبقاتی تفریق نہ روا رکھتے ہوئے ریلوے کا نظام بھی چلانا تھا اور
لوگوں سے ان کی مالی اسطاعت کے حساب سے رقم
بھی وصول کرنی تھی۔ چنانچہ فرسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس، وغیرہ کی جگہ چینی
ٹرینوں میں درجہ بندی نشستوں کی ساخت کے حساب سے تھی۔ سخت نشست، نرم نشست، سخت
بستر اور نرم بستر۔ ہماری مالی حیثیت تو سخت نشست یا سرمایہ کاری نظام کی اصطلاح
میں تھرڈ کلاس والی تھی مگر فاصلے زیادہ تھے اس لیے خواہش تھی کہ کسی طرح کم قیمت
میں سخت بستر مل جائے تو لکڑی کے بستر پہ کپڑے بچھا کراسے خود ہی نرم بستر بنا لیں
گے۔ سخت بستر کے ٹکٹ کی قیمت معلوم کی تو ہوش ٹھکانے آگئے۔ بہت دیر شش و پنج میں
رہنے کے بعد اپنے آپ کو سمجھایا کہ آخر چینی ٹرین کی سخت نشست استعمال کرکے
دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ چنانچہ تلفان سے لیویوآن اور پھر لیویوآن سے دھن ہوانگ
کے ٹکٹ سخت نشست والے خرید لیے۔ تلفان سے لیویوآن کا چند گھنٹوں کا سفر تو سخت
نشست پہ کسی نہ کسی طرح گزار دیا مگر لیویوآن سے دھن ہوانگ کے پوری رات کے سفر نے
ہمیں سخت نشست سے متنفر کردیا۔ کرایہ ہوش ربا اور آرام ندارد۔ سخت نشست کی لکڑی کچھ ایسی تھی کہ نشست کو آرام
دہ بنانے کی ہماری ہر کوشش ناکام رہی۔ اس سفر میں ہم ایسے لوگوں کے درمیان تھے جن
سے کوئی بات چیت ممکن نہ تھی؛ نہ وہ ہماری سمجھتے تھے اور نہ ہم ان کی۔ زیادہ تر
مسافر بد حال تھے۔ انہوں نے اپنا سامان رسیوں سے باندھا ہوا تھا۔ ٹرین کا وہ ڈبہ
جیل خانہ معلوم دیتا تھا۔ بنیانوں میں ملبوس کمزور جسمانی ساخت کے مرد چوبی نشستوں
کے درمیان سے آڑھے ترچھے جھانکتے نظر آتے اور اتحادیوں کے جرمنی فتح کرنے پہ کسی
جبری کیمپ کے مفلوک الحال قیدیوں کی تصویر پیش کرتے تھے۔ ڈبے کے سارے مسافر بے
چینی سے گرم پانی کا انتظار کرتے جو ہر چند گھنٹے میں ریلوے کی طرف سے مفت تقسیم
کیا جاتا تھا۔
اسی سفر میں ہماری بات چیت ایک جاپانی لڑکی سے ہوگئی۔ ہم جاپانی اور چینی شکلوں کے درمیان فرق کرنے
میں مہارت نہیں رکھتے مگر اس لڑکی کے نفیس کپڑوں کی وجہ سے پہچان گئے کہ وہ مقامی
نہیں تھی بلکہ سیاح تھی۔ جاپانی سیاح لڑکی نے صلح دی کہ کسی طرح ٹکٹ کلٹر سے بات
کر کے معلوم کریں کہ آیا اس ٹرین میں سیاحوں کے لیے کوئی آسانی تھی جس کا فائدہ
اٹھایا جاسکتا تھا۔ کچھ وقت ٹکٹ کلکٹر کو ڈھونڈنے میں اور کچھ وقت اس کو اپنی بات
سمجھانے میں لگا مگر اس تگ و دو کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا اور ہم واپس اپنی
سخت نشست پہ پلٹ آئے۔ بیس گھنٹے کے اس تکلیف دہ سفر کے بعد جب ہم دھن ہوانگ پہنچے
اور وہاں ہمیں تاریخی موگوائو بدھ غار دیکھنے کے لیے اسی یوآن داخلہ ٹکٹ خریدنا
پڑا تو ہماری چیخ نکل گئی۔ چین سیاحوں کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا تھا۔
دھن ہوانگ کے سفر سے پہلے، لیو یوآن میں ہم ریلوے اسٹیشن کی انتظارگاہ ہی میں
سو گئے تھے۔ وہیں ہم بہت دیر تک ایک اسرائیلی جوڑے کو ایک انگلستانی عورت سے باتیں
کرتے دیکھتے رہے اور آخر میں ہماری بات چیت بھی ان تینوں سے ہوگئی۔ اسرائیلی جوڑا
کافی عرصے سے چین میں سفر کررہا تھا۔ ہم کیونکہ پاکستان سے چین پہنچے تھے اس لیے
ایک واضح مشاہدے کی طرف ہمارا دھیان نہیں گیا تھا۔ اس طرف اسرائیلی مرد نے ہمیں
توجہ دلائی۔ وہ بات چینیوں کی نظم و ضبط سے متعلق تھی۔ مائو اور بعد میں آنے والے
چینی قائدین نے عام خواندگی اور صحت عامہ کی طرف تو توجہ کی تھی مگر عوام کو تمیز
سکھانے کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔ اس غفلت کی وجہ سے اب تک چینیوں کو قطار بنانے کا
سلیقہ نہیں آیا تھا۔ ٹرین اسٹیشن پہ پہنچتی تو چینی ہجوم کی صورت میں گاڑی کے
مختلف دروازوں کی طرف لپکتے اور گاڑی میں داخل ہونے کی کوشش میں خوب دھینگا مشتی
ہوتی۔ نظم و ضبط رکھنا، سلیقے سے بات کرنا، صاف ستھرے رہنا اور اپنے آس پاس صفائی
کا خیال رکھنا، عام خواندگی سے اگلی منزل ہے جس کی طرف چینی قیادت کا دھیان نہیں
گیا تھا۔ بہت سالوں بعد جب بے جنگ میں اولمپکس ہوئے تو چینیوں کو مختلف پیمفلٹ کے
ذریعے بتایا گیا کہ انہیں غیرملکیوں کے سامنے کیسے اچھا برتائو کرنا تھا۔ ان سلیقے
کی باتوں میں مردوں کے لیے ایک خاص تاکید یہ تھی کہ وہ پیشاب گاہ استعمال کرنے کے
بعد اچھی طرح اطمینان کرلیں کہ ان کی پتلون کی زپ بند ہے۔
Labels: Dunhuang, Luiyuan, Magao Caves