Thursday, September 15, 2016
کاشغر
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو اٹھانوے
ستمبر گیارہ، دو ہزار سولہ
کاشغر
بلخ، بخارا، اور سمرقند کی طرح کاشغر بھی ایک
ایسا نام ہے جو تاریخ کے دھندلکوں میں ایک گم گشتہ عظمت کا نشان معلوم دیتا ہے۔ ہم
تاشقرغان سے جس بس میں سوار ہوئے اس نے آٹھ گھنٹے بعد ہمیں کاشغر کے تاریخی شہر
پہنچا دیا۔ کاشی یا کاشغر میں جدید اور قدیم کے دوران وہی تگ و دو جاری تھی جو
دنیا کے دوسرے تاریخی شہروں میں نظر آتی ہے۔ کاشغر کے پرانے علاقے لاہور سمیت
برصغیر کے دوسرے تاریخی شہروں کے پرانے علاقوں جیسے تھے، تنگ بل کھاتی گلیاں اور
سرخ اینٹوں کے گھر۔
تاریخی طور پہ کاشغر کی اہمیت ریشم راستوں کی
وجہ سے تھی۔ شاہراہ ریشم کے بجائے ریشم راستے زیادہ مناسب اصطلاح ہے کیونکہ چین سے
نکلنے والی ریشم قدیم دنیا کے کئی متمول علاقوں میں مختلف راستوں سےجاتی تھی۔
کاشغر کے ایک طرف چین تھا تو دوسری طرف افغانستان اور ترک سلطنتیں۔ قریب کی بڑی
سلطنت طاقتور ہوتی تو وہ کاشغر کو اپنے قبضے میں کرلیتی۔ بڑی سلطنت کمزور پڑتی تو
کاشغر آزاد ہو کر کسی مقامی رئیس کے زیر اثر آجاتا۔
واضح رہے کہ ممالک کی نپی تلی سرحدیں ہونا ایک
نسبتا نیا معاملہ ہے۔ اس طرح کی واضح سراحد کا تعلق جدید سروے انگ آلات سے ہے۔ ان
آلات میں تھیوڈولائٹ خاص آلہ ہے۔ یہ آلات رفتہ رفتہ رائج ہوئے ہیں اور ان سے
ناپی جانے والی سرحدیں کاغذ کے نقشوں پہ رفتہ رفتہ پختہ سے پختہ ہوتی گئیں۔ مثلا
انیس سو باسٹھ کی ہند چینی جنگ کو ہی لے لیجیے۔ اگر سروے انگ کے آلات اس قدر اچھے
نہ ہوتے اور سراحد اس طرح وضاحت سے نہ ناپی جاتیں تو شاید ہندوستان اور چین کے
درمیان سنہ باسٹھ کی وہ جنگ بھی نہ ہوتی۔
جنوب سے چین میں داخل ہونے پہ کاشغر اور اس سے
آگے آپ کو صحیح معنوں میں ہان چینی نسل کے لوگ نظر آنا شروع ہوتے ہیں؛ یہ وہ
لوگ جنہیں بیرونی دنیا حقیقی معنوں میں چینی سمجھتی ہے۔ ہان اس علاقے میں جدیدیت
کے علمبردار ہیں۔ ہم کاشغر کے جس ہوٹل میں ٹہرے وہاں ہمیں چین میں داخلے کے بعد
پہلی بار کارڈ چابی والے دروازے ملے۔
پاکستان سے چین پہنچنے پہ ہم محفوظ محسوس کررہے تھے اور اس طرح چین ایک مہذب
ملک نظر آتا تھا۔ ریاست کا اولین فرض ہر شہری کے جان و مال کی حفاظت کرنا ہے۔ جو
ریاست اس فرض میں جس قدر ناکام ہے وہ ریاست دراصل خود ایک ناکام ریاست ہے اور اپنی
بقا کا حق کھو بیٹھی ہے۔ چین میں مائو کے انقلاب کے بعد تعلیم اور صحت عامہ کی طرف
خاص توجہ دی گئی اور اس لحاظ سے بھی چین ایک مہذب ملک نظر آتا تھا۔ مگر چین تہذیب
کے ایک اور پیمانے پہ پورا نہیں اترتا تھا۔ چین میں نلوں سے آنے والا پانی پینے
کے قابل نہ تھا۔ ہمیں پینے کا پانی بوتلوں میں خریدنا پڑتا تھا۔
پھر ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ چین میں دودھ اس شکل میں دستیاب نہ تھا کہ ہم اسے
اپنے ساتھ رکھ سکیں اور جب چاہیں استعمال کریں۔ ہم نے حل یہ نکالا کہ دہی خریدتے
تھے اور اسے مائع شکل میں پی کر دودھ کی کمی پوری کرتے تھے۔
کاشی میں ہوائی اڈہ ہونے کی وجہ سے یہاں مغربی سیاح بڑی تعداد میں نظر آرہے
تھے۔ اگر یہاں ہوائی اڈہ نہ ہوتا اور بے جنگ سے براہ راست پروازیں کاشغر نہ آرہی
ہوتیں تو شاید بہت سے سیاح زمینی راستے سے کاشغر تک سفر کو مشکل جان کر یہاں کا رخ
نہ کرتے۔
کاشغر پہنچنے تک ہم چین میں بغیر کسی سفری کتاب کے سفر کررہے تھے۔ اس وقت تک
انٹرنیٹ مقبول نہیں ہوا تھا اس لیے سفری معلومات حاصل کرنا آسان نہ تھا۔ ہم کاشغر
میں جس ہوٹل میں ٹہرے وہاں مغربی سیاح نظر آرہے تھے۔ ہم نے ہوٹل کے نوٹس بورڈ پہ
اشتہار لگا دیا کہ اگر کوئی چین کی لونلی پلانٹ نامی سفری کتاب بیچنا چاہے تو ہم
سے رجوع کرے۔
نوٹس بورڈ پہ اعلان لگانے کے کچھ ہی گھنٹوں میں ہمارے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا
گیا۔ ایک خاتون جو چین میں سفر ختم کر کے پاکستان جارہی تھیں اپنی کتاب بیچنا
چاہتی تھیں۔ ہم نے جھٹ وہ کتاب ان سے خرید لی۔ پھر اس سفری کتاب کی تیزی سے ورق
گردانی کی اور آگے سفر کی منازل طے کیں۔
کاشغر میں ہمارے قیام کے دوران ہر دن دھوپ نکلی۔ دن میں گرمی ہوجاتی مگر ہوا
خشک ہونے کی وجہ سے پسینہ نہ بہتا تھا۔ یہ ایسی جگہ تھی جہاں بخاراتی ائیر کنڈیشنر
[ایواپوریٹو کولرز] کارآمد ثابت ہوسکتے تھے۔
کاشغر میں قیام کے دوران ہم ہفتہ وار لگنے والی اس مارکیٹ میں گئے جہاں اتوار
کی رات پوری سڑک کھانے پینے کے ٹھیلوں سے بھر جاتی تھی۔ جگہ جگہ سے دھواں اٹھ رہا
تھا اور فضا طرح طرح کے کھانوں کی خوشبو سے بھری ہوئی تھی۔ ہم نے ندیدگی سے ایک
ٹھیلے سے پراٹھے اور مچھلی لے کر کھائی۔
کاشغر میں پاکستانی اتنی تعداد میں آتے تھے کہ مقامی لوگ ہر کھڑی ناک والے
غیرملکی سیاح کو پاکستانی کہہ کر پکارتے تھے۔ مغربی سیاح یقینا اس طرح پاکستان سے تعلق
ملائے جانے پہ خوش نہ تھے۔
کاشغر میں قیام کے آخری روز ہمیں دیسی کھانے کی تلاش ہوئی۔ تھوڑی سی پوچھ گچھ
سے ایک جگہ کے بارے میں معلوم ہوگیا۔ اس جگہ بیٹھنے کا انتظام نہیں تھا۔ آپ صرف
کھانا لے کر وہاں سے جاسکتے تھے۔ ہم نے بھی ایسا ہی کیا۔ معلوم ہوا کہ پاکستان سے
آنے والے تاجر عموما بے جنگ سمیت چین کے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں مگر چند ادھر
کاشغر میں بھی ٹک گئے ہیں۔
Labels: China travelogue, Kashgar, Kashi, Xinjiang