Sunday, September 11, 2016

 

تاشقرغان





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو ستانوے

 ستمبر چار، دو ہزار سولہ

تاشقرغان

علی حسن سمندطور

پاکستان اور چین کی باہمی سرحد پار کرنے کے بعد چین کے کافی اندر جانے پہ ایک چھوٹا قصبہ تاش قر غان نام کا آتا ہے۔ اسی قصبے میں چین کی سرحدی چیک پوسٹ ہے اور پاکستان سے چین جانے والوں کی امیگریشن  یہیں ہوتی ہے۔  اگر کبھی وخان پٹی کے سرے پہ موجود افغانسان اور چین کی باہمی سرحد عام ٹریفک کے لیے کھلی تو تاشقرغان ہی میں افغانسان آنے جانے والوں کے امیگریشن انتظامات بھی ہوں گے۔
درہ خنجراب سے تاشقرغان جاتے ہوئے ہمیں ایک سرکاری عمارت پہ  شمسی بجلی پینل [فوٹووولٹیک پینل] لگے نظرآئے۔ بیس سال پہلے اس بیاباں میں شمسی بجلی پینل کا یہ نظارہ چین کا جدید دور میں داخلے کا ایک زوردار اعلان تھا۔
اگر آج آپ مجھ سے بیس سال پرانی بات یاد کرنے کو کہیں اور پوچھیں کہ تاشقرغان کے بارے میں مجھے کیا کچھ یاد ہے تو میں جانوروں کے بال جلنے کی بو اور سڑک کے ساتھ لگے کھمبوں پہ اسپیکر یاد کروں گا۔ وہاں جانوروں کے بال جلنے کی بو اس لیے تھی کیونکہ اس چھوٹے سے گائوں میں سڑک کے ساتھ کئی جگہ انگھیٹیوں پہ دنبے کے سر اور پیر جلا کر ان کے بال صاف کیے جارہے تھے۔ سری اور پائے کا کون سا خاص کھاجا بنانے کی تیاری تھی، اس بارے میں مجھے کچھ خبر نہیں۔ اس کے ساتھ کھمبوں پہ لگے اسپیکر پہ خاص ہدایات دی جارہی تھیں۔ بہت تجسس کے باوجود یہ معلوم نہ ہوپایا کہ وہ ہدایات کس متعلق تھیں۔  
تاشقرغان پہنچ کر اندازہ ہوا کہ ہم مانوس جگہوں سے دور آگئے تھے۔ تاشقرغان بہت سے سرحدی قصبوں کی طرح ایسی جگہ تھی جو یورپ سے درآمد شدہ خیالات کے تحت ایک قوم ریاست [نیشن اسٹیٹ] کے خانے میں فٹ نہیں ہوتے۔ ایسی جگہ جو آس پاس کے رنگا رنگ مختلف مضبوط کلچر کے اثر سے بالکل منفرد ہو۔
پرانے وقتوں میں جب شہر اور چھوٹے علاقے آزاد ہوتے تھے، ایسی آزاد جگہیں وقفے وقفے سے کسی بڑی بادشاہت کا حصہ بن جاتی تھیں۔ موجودہ شنجیانگ کے قصبے بھی اسی طرح کبھی کسی مشرقی سلطنت اور کبھی کسی مغربی سلطنت کا حصہ بن جاتے۔
غنیمت تھا کہ چین نے تاشقرغان کو ایک آزاد علاقہ قرار دیا تھا۔ تاشقرغان کی تاجکستان سے قربت کی وجہ سے یہاں تاجک زبان سے ملتی جلتی سرقولی زبان بولی جاتی ہے۔

تاشغرغان بہت چھوٹا ہے مگر اس کو دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ یہاں سے چین شروع ہوچکا ہے۔ چین میں داخل ہوتے ہی آپ کو جدید چینی عمارت سازی کے نمونے نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسی عمارتیں جن میں سرخ اینٹوں کے اوپر اندرونی سطحوں پہ پلاسٹر کیا جاتا ہے اور بیرونی سطح پہ سفید یا پیلے ٹائلز لگائے جاتے ہیں۔ آپ کو جگہ جگہ ایسی عمارتیں نظر آئیں گی۔

چین وسیع رقبے پہ پھیلا ہوا ہے مگر وہاں صرف ایک وقت یعنی بے جنگ اسٹینڈرڈ ٹائم رائج ہے جو پاکستان کے وقت سے تین گھنٹے آگے ہے۔ چین کا صوبہ شنچیانگ اس قدر مغرب میں ہے کہ اس صوبے کا بے جنگ ٹائم پہ چلنا مضحکہ خیز معلوم دیتا ہے مگر یہ پھر بھی چینی معیاری وقت پہ چل رہا ہے۔ جب بے جنگ میں صبح کے آٹھ بجے ہوتے ہیں تو شنجیانگ فجر سے پہلے کے اندھرے میں ڈوبا ہوتا ہے مگر پھر بھی سرکاری دفاتر میں یہاں بے جنگ کے وقت کے مطابق کام شروع ہوجاتا ہے۔

تاشقرغان پہنچتے ہی ہم نے پاس موجود پاکستانی روپوں کو چینی یوان میں تبدیل کروایا۔ ہمیں قریبا چار روپے کا ایک یوان ملا۔

یکے بعد دیگرے کئی لمبے سفر کے بعد ہم تھک گئے تھے اور اسی لیے ہم نے تاشقرغان میں دو راتیں بسر کیں۔ تاشقرغان پہنچتے ہی ہوٹل خنجراب میں قیام کیا مگر اگلے دن اسی قیمت میں نسبتا بہتر ہوٹل پامیر دریافت کرنے پہ وہاں منتقل ہوگئے۔

بلندی پہ واقع ہونے کی وجہ سے تاشقرغان میں سارا دن مطلع صاف ہونے کے باوجود موسم خنک رہتا تھا۔ شام سرد ہوا چلتی تھی جو موسم کو بالکل ٹھنڈا کردیتی۔

تاشقرغان میں ہمیں کوئی مغربی سیاح نظر نہیں آیا۔ ہمارے ساتھ آنے والے بیشتر پاکستانی تاجر بھی اگلے دن وہاں سے روانہ ہوگئے تھے۔


Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?