Thursday, September 01, 2016

 

سوست سے تاشقرغان










ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چھیانوے

 اگست اٹھائیس، دو ہزار سولہ

سوست سے تاشقرغان

 
جب ہمیں کراچی میں چین کا سیاحتی ویزا ملا تھا تو ویزا ملنے کے بعد دل میں ایک ڈر تھا، اور وہ یہ کہ کہیں بہت سے ملکوں میں سیاحت کے لیے رائج ایک کلیے کے حساب سے وہ ویزا صرف ہوائی سفر کے لیے محدود نہ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم پاکستان اور چین کی باہمی سرحد پہ پہنچیں تو چینی ہمیں یہ کہہ کر واپس کر دیں کہ آپ زمینی راستے سے چین میں داخل نہیں ہوسکتے، واپس اسلام آباد یا کراچی جائیے اور پھر وہاں سے ہوائی جہاز سے بے جنگ پہنچیے۔ مگر اس روز سوست سے چین روانگی کے وقت اس اندیشے سے بڑا ایک مرحلہ درپیش تھا۔ پاکستانی حکام ہمارا پاسپورٹ بار بار دیکھ رہے تھے اور جانچنے کی کوشش کررہے تھے کہ آیا ہمارا ویزا اصلی تھا۔ پاسپورٹ کیونکہ کراچی میں جاری ہوا تھا اس لیے ہمیں اور بھی شک کی نظر سے دیکھا جارہا تھا۔ یہ خیال کیا جارہا تھا کہ شاید ہم کراچی میں جاری فوجی آپریشن  سے فرار ہو کر چین جارہے تھے۔ بار بار مطلوبہ افراد کی فہرستیں دیکھی جارہی تھیں اور ہمارا نام ان فہرستوں میں تلاش کیا جارہا تھا۔ مگر ہم نوکرشاہی سے نمٹنے کا خوب تجربہ رکھتے تھے۔ نوکرشاہی کے گرگے لاکھ آپ کو ٹیڑھی نظروں سے دیکھیں، آپ چہرے پہ مستقل ایک مسکراہٹ قائم رکھیے اور ان کے سوالات کے انتہائی مختصر جوابات دیجیے۔
بالاخر ہمارے پاسپورٹ میں پاکستانی خروج کی مہر لگا دی گئی۔ ہمیں امید بندھی کہ اب ہمیں چین میں داخلہ بھی مل جائے گا؛ اگر اس سلسلے میں ذرا بھی شک ہوتا تو پاکستانی حکام ہمیں وہیں سوست میں روک لیتے۔
چین جانے والی بس ایک مردانہ بس تھی۔ اس بس میں صرف تین خواتین تھیں۔ بس جوان اور پکی عمر کے مردوں سے بھری ہوئی تھی۔ سوست سے روانگی کے وقت ان لوگوں کی پاکستانی حکام سے گفتگو سے معلوم ہوا تھا کہ یہ لوگ چین تجارت کی نیت سے جارہے تھے۔ ہماری بس کا ڈرائیور چینی تھا جو تھوڑی بہت اردو جانتا تھا۔ بس سوست سے چلی تو اس نے کچھ دیر تو چینی گانے لگائے مگر پھر پبلک کے پرزور اصرار پہ ہندی فلموں کے ہٹم ہٹ گانے چلا دیے۔
بس نہ صرف یہ کہ مردانہ تھی بلکہ انتہائی پست درجے کی مردانہ تھی۔ ایک اجڈ پاکستان کا جو تصور بہت سے ملکوں میں پایا جاتا ہے، اس بس کے اکثر لوگ اس تصور پہ پورا اترتے تھے۔ بس نے ابھی درہ خنجراب پار ہی کیا تھا کہ اچانک اندر سے ایک شور اٹھا۔ یہ شور وہاں سے اٹھا تھا جہاں دو سفید فام سیاح خواتین مردوں کے درمیان گھری بیٹھی تھیں۔ نہ جانے ان کے ساتھ کیا بدتمیزی کی گئی تھی کہ وہ چیخ و پکار کررہی تھیں؛ وہ اپنے آس پاس موجود لوگوں سے سخت نالاں نظر آتی تھیں۔ بس رک گئی۔ وہ خواتین وہاں راستے میں اترنا چاہتی تھیں۔ وہاں بیچ سڑک پہ اتر کر وہ کہاں جائیں گی؟ وہاں دور دور تک کسی آبادی کا نام و نشان نہیں تھا۔ مگر ان خواتین کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ اس بس سے اور اپنے آس پاس موجود بدتمیز لوگوں سے نجات حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ اپنے بیک پاک لے کر وہاں سڑک پہ اتر گئیں۔ بس پھر چل پڑی۔ کچھ دیر بس میں سکوت رہا مگر پھر ڈرائیور نے دوبارہ زور زور سے گانے لگا دیے۔
تاشقرغان سے پہلے بس ایک جگہ ضرورت وقفے [باتھ روم بریک] کے لیے رکی۔ وہ جگہ بے جنگ سے ہزاروں میل دور تھی مگر یہاں بھی چین نے اتنا انتظام کیا تھا کہ ایک چوبی ضرورت گاہ سڑک کے ساتھ یوں موجود تھی کہ کمرے میں موجود سوراخ سے سینکڑوں فٹ گہری کھائی نظر آتی تھی۔ آپ کا کیا دھرا اسی سوراخ سے ہوتا نیچے کھائی میں جا پہنچتا تھا۔ وہیں ضرورت گاہ سے کچھ فاصلے پہ ایک چھوٹی سی دکان تھی جہاں سگریٹ اور بسکٹ کے علاوہ مقامی شراب بھی دستیاب تھی۔ شراب دیکھ کر ہمارے ہمسفر مرد پاگل ہی ہوگئے۔ ایک شخص نے سرعت سے شراب کی ایک بوتل خریدی۔ بوتل خریدنے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ اس کے پاس بوتل کھولنے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ مختلف تراکیب سے بوتل کا ڈھکن کھولنے کی کوشش کی گئی۔ جب کوئی ترکیب کارگر نہ ہوئی تو بوتل کے منہ کو ایک پتھر پہ مارا گیا۔ یہ ترکیب کامیاب ہوئی۔ ڈھکن اتر گیا مگر ساتھ ہی ایک طرف سے بوتل کا منہ بھی ٹوٹ گیا۔ اب جلدی جلدی دوسری طرف سے منہ لگا کر شراب پی گئی۔ ہم ان پیاسے لوگوں کو اور ان کی ان حرکتوں کو حیرت سے دیکھ رہے تھے اور ڈر رہے تھے کہ شراب کے لیے اس ندیدگی میں کسی کا منہ ٹوٹی بوتل سے نہ کٹ جائے۔


Labels: , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?