Monday, August 22, 2016

 

گلگت



ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چورانوے

 اگست چودہ،  دو ہزار سولہ

گلگت


گلگت جس وادی میں واقع ہے اس وادی کی لمبائی میں پھیلان کی وجہ ہی سے یہاں ایک ہوائی اڈہ بنانا ممکن ہوپایا۔ ایک زمانے میں اس پورے علاقے میں بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت تھی۔  اس دور کے آثار اب بھی بدھ کی مورتیوں کی صورت میں یہاں ملتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں بدھ مت کے پیرورکار ان ہی مورتیوں کو دیکھنے کے لیے جگہ جگہ جاتے تھے۔ اس سیاحت میں عبادت کا عنصر شامل ہوتا تھا۔ مورتیاں جس علاقے میں ہوتیں وہاں رہنے والے لوگ سیاحتی آمدنی سے مستفید ہوتے تھے۔ فی زمانہ ان مورتیوں کو دیکھنے والے سیاح شاید ہی دل میں عبادت کا کوئی جذبہ رکھتے ہوں۔ اس کے باوجود کچھ لوگوں کی آنکھوں میں یہ مورتیاں کھٹکتی ہیں اور وہ اپنے گمراہ خیالات کے زور میں ان آثار قدیمہ کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ کاش کوئی ان گمراہ جہادیوں سے پوچھے کہ وہ علاقے کے لوگوں کی روزی پہ کیوں لات مارنا چاہتے ہیں۔

گلگت شہر سے کچھ فاصلے پہ ایک چٹان پہ ایک بدھ مورت کنداں ہے۔ اس جگہ کو کارگاہ بدھ کہا جاتا ہے۔ ہم جس سوزوکی سے کارگاہ بدھ پہنچے اس کا ڈرائیور بہت باتونی تھا۔ اس نے ہمیں وہاں ایک سال پہلے ہونے والے شیعہ سنی فسادات کے بارے میں بتایا۔ اس کا کہنا تھا کہ فسادات کی وجہ سے پورا علاقہ بند ہوگیا تھا۔ بہت سے غیرملکی یہاں پھنس گئے تھے۔ ان کو کھانے پینے کو بھی کچھ نہ ملتا تھا۔ ڈرائیور کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد سے یہاں غیرملکیوں کا آنا کم ہوگیا تھا۔
ہم بہت دیر تک اس صورتحال پہ غور کرتے رہے۔ سنہ سینتالیس میں انگریز کی اس خطےسےروانگی کے وقت سیاسی تقسیم کے فیصلے مذہبی شناخت کی بنیاد پہ کیے گئے۔ اس اہم فیصلے کے ثمرات اس وقت تک سامنے آرہے ہیں۔
اگر کچھ لوگ ہمیشہ ہرے رنگ کے کپڑے پہنتے ہوں اور دوسرے لوگ ہمیشہ زرد رنگ کے کپڑے پہنتے ہوں تو ہرے کپڑے والے اپنی یہ جدا شناخت بنا سکتے ہیں کہ وہ ہرے کپڑے والے ہیں جب کہ دوسرے زرد کپڑے والے۔ لیکن اگر اس شناخت کی مدد سے ایک الگ ملک بنایا جائے جہاں ہرے کپڑے والے بڑی اکثریت میں ہوں اور زرد کپڑے والے نظر نہ آتے ہوں تو کچھ عرصے میں شناخت کی بنیاد پہ کیا جانے والا اصل فیصلہ ذہن سے محو ہوجائے گا کہ اس فیصلے کا محرک، زرد کپڑا، سامنے بچا نہ ہوگا۔ مگر لوگوں کا ذہن شناخت کی اسی کسوٹی کے رخ پہ چل نکلے گا۔ پھر لوگ اپنی شناخت اس طرح کریں گے کہ کس کے کپڑے زیادہ ہرے ہیں اور کس کے کم ہرے۔

ساٹھ کی دہائی میں امریکہ میں ویت نام جنگ کی مخالفت جاری تھی۔ لوگوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کیا جارہا تھا۔ جنگ کی مخالفت رفتہ رفتہ ایک منفرد سماجی تحریک بن گئی۔ جن لوگوں نے سرکاری لب ولہجہ قبول کرنے سے انکار کیا وہ ہپی کہلائے۔ ہپی تحریک کے نوجوان جنگ کے ساتھ اس جدید دنیا ہی سے مایوس تھے۔ دیکھتے دیکھتے یہ تحریک انگریزی زبان کے رشتے سے دوسرے مغربی ممالک پہنچ گئی۔ اس تحریک کے عروج پہ مغرب سے نکلنے والے لڑکے لڑکیاں ایسی جگہیں تلاش کرتے تھے جو اس دنیا سے دور ہوں جس سے وہ مانوس تھے۔ گلگت بھی ایسی ہی ایک جگہ تھی۔ غریب مغربی سیاح جوق در جوق یہاں آتے اور انتہائی کم خرچے پہ اپنا گزارہ کرتے ہوئے یہاں مہینوں پڑے رہتے۔ مگر اب گلگت بدل چکا تھا۔ اب وہاں غیرملکی اکا دکا ہی نظر آتے تھے۔ وہی ذہن جو آثار قدیمہ کے خلاف ہے، دوسری طرح کے فساد مچانے میں بھی مصروف ہے۔
بیچ دوپہر میں زور کی بھوک لگنے پہ ہم اپنی سفری کتاب سے رجوع کرکے ایک ریستوراں پہنچے۔ ہال میں کوئی موجود نہ تھا۔ ہمارے آواز دینے پہ باورچی خانے سے ایک شخص نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھری تھی۔  اس نے ماتھے پہ آنے والا پسینہ چھری کے چوبی دستے سے پونچھتے ہوئے بتایا کہ کھانا گھنٹے بھر میں تیار ہوگا۔ ظاہر ہے کہ ایک گھنٹے بعد ہم واپس اس ریستوراں نہیں گئے۔ ہمیں ایک ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں باورچی، صارفین سے چھپ کر چھری کے پچھلے حصے سے ماتھے پہ آنے والا پسینہ پونچھتا ہو۔
گلگت کے بازار میں قطار سے ایسی دکانیں تھیں جہاں علاقے کی سوغات دستیاب تھیں۔ ایک دکان میں داخل ہوئے تو ایک غیرملکی لڑکی کھڑی نظر آئی۔ اس کے سنہری بال اس کے سر پہ پڑی چادر کے نیچے سے نمایاں تھے۔ وہ پلٹی تو دیکھا کہ جمائمہ تھی۔  وہ بیس سالہ برطانوی لڑکی بیالیس سالہ مرد سے شادی کے بعد پاکستان میں رہتے ہوئے اپنی زندگی کا مقصد تلاش کررہی تھی۔ شاید اسی زمانے میں جمائما نے پاکستان سے کپڑے برآمد کرنے کا کاروبار شروع کیا تھا۔

Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?