Sunday, August 14, 2016
پنڈی سے گلگت
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو ترانوے
اگست چھ، دو ہزار سولہ
اب جنوب سے چین کی طرف جاتے
ہوئے کروڑہا سال پہلے بننے والا جغرافیہ
ہمارے سامنے تھا۔ قریبا پینتیس کروڑ سال پہلے جنوبی ایشیائی پلیٹ یوروشیائی پلیٹ
سے ٹکرائی تھی جس کے نتیجے میں ہمالیہ، قراقرم، اور ہندو کش پہاڑی سلسلے وجود میں
آئے۔ یہ بہت پرانی بات ہے۔ اس وقت دنیا میں انسان کا وجود نہ تھا۔ انسان کو اپنی
موجودہ شکل میں آنے کے بعد افریقہ چھوڑے بمشکل ایک کروڑ سال ہوئے ہیں۔ مگر عظیم
الجثہ ڈائنوسار ان دو ارضیاتی پلیٹوں کے ٹکرانے سے بھی پرانی بات ہے۔ جس وقت یہ دو
پلیٹیں آپس میں ٹکرائیں اس وقت تک ڈائنوسار کو دنیا سے ختم ہوئے ساڑھ کروڑ سال سے
اوپر کا عرصہ گزر چکا تھا۔
اتنی پرانی باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ہم وقت کو
اس پیمانے پہ دیکھ رہے ہیں جس کو باآسانی ذہنی گرفت میں نہیں لایا جاسکتا۔ کارل
سیگن نے وقت کے اس محیرالعقل پھیلائو کو عام آدمی کو سمجھانے کے لیے ایک ترکیب
نکالی تھی۔ وہ کروڑہا سال پہ پھیلے اس وقت کو ایک سال اور اس میں موجود مہینوں اور
دنوں میں سمو دیتے تھے۔ کارل سیگن کے اسی تمثیلی انداز کو اپناتے ہوئے کہا جا سکتا
ہے کہ اگر جنوبی ایشیائی پلیٹ یوروشیائی پلیٹ سے رات بارہ بجے ٹکرائی تھی تو پورا
دن گزرنے کے بعد رات ساڑھے گیارہ بجے کے بعد انسان اس دنیا میں نمودار ہوا۔
جنوبی ایشیا کے شمال میں موجود
پہاڑی سلسلوں میں کئی جگہ پہاڑ یوں نیچے آتے ہیں کہ پہاڑوں کے درمیان ایک قدرتی
راستہ بن جاتا ہے۔ شمال سے آنے والے تجارتی قافلے اور فاتحین ان ہی دروں سے گزر
کر جنوبی ایشیا میں داخل ہوتے تھے۔ درہ خنجراب بھی ایسا ہی ایک قدرتی راستہ ہے۔
پاکستان نے چین کی مدد سے اس راستے کو پختہ کر کے شاہراہ قراقرم بنائی ہے۔ اب پنڈی
سے خنجراب تک ہمیں اسی شاہراہ پہ سفر کرنا تھا۔
راولپنڈی سے اسلام آباد جاتے ہوئے
سڑک کے درمیان قطار در قطار گلاب لگے نظر آتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک اپنے تئیں
اپنے دارالحکومت کو جاذب نظر بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ یہ دراصل اپنے
دارالحکومت میں آنے والے غیرملکیوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہوتی ہے کہ خارجیوں
کو یہ خیال ہو کہ جیسا خوب صورت دارالحکومت نظر آرہا ہے، شاید پورا ملک ایسا ہی
ہے۔
ایک زمانے میں پاکستان کے شمالی
علاقوں کو دیکھنے کے شوقین سیاح یہاں جوق در جوق آتے تھے۔ پاکستان جیسے جیسے
افراتفری کا شکار ہوتا گیا، ان سیاحوں کی تعداد میں کمی آتی گئی۔ پیرودھائی کے بس
اڈے پہ گلگت کا ٹکٹ لیتے ہوئے ہمیں صرف ایک غیرملکی نظرآیا۔
پیر ودھائی چھوڑنے سے پہلے ہماری
بس میں ایک نوجوان داخل ہوا۔ پتلون قمیض پہنے اس نوجوان نے آواز لگا کر تمام
مسافروں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ کراچی اور سندھ کے خراب
حالات کی وجہ سے ہجرت کر کے پنڈی آیا تھا۔
یہاں میری بہنیں بیٹھیں ہیں اس لیے
یہ بات کہتے ہوئے مجھے شرم آرہی ہے۔
اس کی یہ بات سن کر ہمارا ماتھا
ٹھنکا۔ ہمیں خیال ہوا کہ شاید وہ مردانہ کمزوری کا شرطیہ علاج بتائے گا اور کسی
قسم کی گولیاں فروخت کرے گا مگر وہ بھکاری نکلا۔ وہ صرف بھیک چاہتا تھا۔ ہمیں یہ
بات سمجھ میں نہ آئی کہ آخر بہنوں کے سامنے بھیک مانگتے ہوئے اسے شرم کیوں آرہی
تھی۔ کیا اس بات کے پیچھے یہ بیمار سوچ موجود تھی کہ ایک مرد، معاشرے کے کمزور
ترین رکن یعنی عورت کے سامنے، اپنی مالی
کمزوری کس منہ سے دکھائے؟
پنڈی سے گلگت جانے والی ہزارہ ٹورز
کی بس خم دار پہاڑی راستوں پہ ساری رات چلی اور ساری رات بس میں زور زور سے گانے
چلتے رہے۔ شاید یہ بلند آواز موسیقی ڈرائیور کو بیدار رکھنے کے لیے تھی۔
مانسہرہ سے آگے نکلے تو ٹھنڈی ہوا
کے جھونکے چلے اور بس جنگلات کی خوشبو سے بھر گئی۔ بہت اچھا لگا۔ مگر ساتھ ہی
بدلتی ہوئی حقیقت بھی واضح تھی۔ بس جس قصبے میں رکی وہاں سر ہی سر نظر آئے۔ ایبٹ
آباد سے مانسہرہ تک روڈ کے ساتھ مستقل آبادی نظر آئی۔ دس بارہ سال پہلے یہاں
ایسا نہ تھا۔ واضح تھا کہ آبادی کا یہ دبائو سارے جنگلات کا خاتمہ کردے گا۔ پھر
ٹھنڈی ہوا کے ساتھ جنگلات کی خوشبو بھی بند ہوجائے گی۔
اسی راستے پہ چلتے ایک اور مشاہدہ
یہ تھا کہ ان علاقوں میں اب مقامی عورتیں نظر نہیں آتیں۔ لگتا ہے کہ یہاں صرف مرد
بستے ہیں۔ اب ہر قصبہ مردان ہے۔
گلگت سے پہلے ایک چٹان پہ نعرہ
لکھا نظر آیا۔
روکھی سوکھی کھائیں گے۔ قراقرم
صوبہ بنائیں گے۔
خیال ہوا کہ یہ الگ صوبہ بنانے کی
لہر شاید کراچی سے شروع ہوئی ہے۔ انگریز کے جانے کے بعد جنوبی ایشیا کے مختلف گروہ
ایک دوسرے سے آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں۔
Labels: China travelogue, Pindi to Gilgit