Sunday, August 28, 2016
گلگت سے سوست
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو پچانوے
اگست انیس، دو ہزار سولہ
گلگت سے سوست
درہ خنجراب سے
پہلے پاکستان کی حدود میں موجود آخری بڑے گائوں کا نام سوست ہے۔ پاکستان سے چین جانے والوں کے پاسپورٹ
سوست میں جانچے جاتے ہیں اور یہیں کسٹم بھی ہوتا ہے۔
گلگت سے سوست پہنچنے پہ ہم
اونچے اونچے پہاڑوں کی پناہ میں تھے۔ اب آبادی دور دور نظر آتی تھی۔ وہاں ہر گھر
کی چھت پہ پیلی خوبانیاں سوکھتی نظر آئیں۔ سوست سے کچھ
اوپر افغانستان کی وخان پٹی ہے۔ یہ افغانستان کا وہ علاقہ ہے جو تاجکستان کو
پاکستان سے جدا کرتا ہے۔ سوست میں ایک آدمی نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ ایسے پہاڑی
راستے سے واقف تھا جس پہ چلتے ہوئے آپ سوست سے تاجکستان پہنچ سکتے تھے۔
اپنے ماحول سے محبت کرنے والوں پہ اکثر یہ الزام لگایا جاتا
ہے کہ وہ ترقی کے خلاف ہیں، وہ سڑکیں اور عمارتیں بنتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ سوست کے
آس پاس موجود کھلی جگہ دیکھ کر میں بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل تھا جو زور سے کہیں کہ سوست بہت خوب صورت ہے، اس کو ایسا ہی
رہنے دو۔ یہاں تک آنے کے لیے چوڑی چوڑی سڑکیں بنا کر اس جگہ کی معصومیت اس سے نہ
چھینو۔ جب یہاں ٹریفک بڑھے گی تو کون بچائے گا اس خوب صورت ماحول کو، یہاں رہنے
والی جنگلی حیات کو؟
دراصل ایک ملک میں رہتے ہوئے کم آبادی والے علاقے اکثر و
بیشتر بڑی آبادی والے علاقوں کے رحم و کرم پہ ہوتے ہیں۔ اقلیت ایسے سماجی نظام کا حصہ ہوتی ہے جس میں
چار و ناچار وہ دوسروں کے فیصلے کے حساب سے چلتی ہے۔ دوسرے فیصلہ کرتے ہیں کہ ترقی کے کیا معنی ہیں
اور اقلیت کے علاقے میں کس ڈھب سے ترقی کی جائے گی۔
پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان میں سوجھ بوجھ زیادہ ہے۔
ہندوستان کے قومی وقار کے زور میں اقلیتوں کے علاقوں میں جس قسم کے ترقیاتی کام
ہورہے ہیں ان کی مخالفت ہورہی ہے اور بہت سے باشعور لوگ ادیواسیوں کے حق میں کھڑے
ہوگئے ہیں۔ مگر پاکستان میں ایسا کم نظر آتا ہے۔
باشعور لوگ سمجھتے ہیں کہ ہرعلاقے کے لوگوں کو اپنے علاقے
میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے فیصلوں میں شریک ہونا چاہیے۔ اور سب سے بہتر تو یہ
ہو کہ اقلیتی آبادی کے علاقے میں تعلیم عام ہو تاکہ وہ لوگ سوچ سمجھ کر ان
ترقیاتی کاموں کو منظور کریں جن سے اس علاقے کے لوگوں کو واقعی فائدہ ہو۔ باالفاظ
دیگر، سڑکیں بعد میں لائو، پہلے تعلیم لائو۔ ایسا کرنے سے اکثریت کی نیک نیتی ظاہر
ہوگی۔ مقامی آبادی تعلیم یافتہ ہوگی تو وہ دانا فیصلے کرے گی۔ لوگوں کو معلوم
ہوگا کہ ان کے پاس کیا دولت ہے، اور وہ سوچ بوجھ سے فیصلہ کریں گے کہ نئی دور کی
زندگی کے کھلونے حاصل کرنے کے لیے وہ کیا قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔
سوست میں ہم جس ہاسٹل میں ٹہرے اس کا مینیجر ایک پڑھا لکھا آدمی تھا۔ وہ
کراچی میں رہ چکا تھا۔ اس نے اپنی سی پوری کوشش کی کہ ہم اس چھوٹے سے ہاسٹل کا وہ مہنگا کمرہ لیں
جو اوپری منزل پہ تھا اور جس میں قالین بچھا تھا مگر ہم نے نسبتا ارزاں نیچے والا
وہ کمرہ لیا جو سیڑھیوں کے ساتھ تھا۔ اس کمرے کا غسلخانہ صاف ستھرا تھا مگر وہاں
صرف ٹھنڈا پانی آتا تھا۔
دوپہر کو ہم نے چین جانے کےبارے میں مکمل معلومات کر لی تھی اور پاسپورٹ دکھا
کر اپنا نام اگلے دن کی سواریوں میں لکھا دیا تھا۔ ہم جن مقامی لوگوں سے بات کر
رہے تھے وہ بہت اچھے لوگ تھے۔ وہ ہماری مدد کی خواہش میں بچھے جاتے تھے۔ وہ سب
کراچی سے بخوبی واقف تھے۔ ایک شخص کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں کوئی بھی شخص جو
کچھ بھی ہے وہ کراچی کی بدولت ہی ہے، وہ کراچی ہی سے بنا ہے، اس نے کراچی ہی سے
سیکھا ہے۔ ہماری طرح وہ بھی کراچی کے بچے تھے۔
ہم سطح سمندر سے بہت بلندی پہ تھے۔ وہاں سورج ذرا نیچے جاتا تو پہاڑ کی اوٹ لے
لیتا اور سردی بڑھنا شروع ہوجاتی۔ سوست کی زندگی میں اس وقت جان پڑ جاتی جب شاہراہ ریشم پہ
چلتی ہوئی کوئی نئی گاڑی گائوں میں داخل ہوتی۔ مگر شام تک شاہراہ ریشم سے متعلق
تمام ہلچل ختم ہوچکی تھی۔ ہم شام کو سڑک پہ ٹہلتے ہوئے
دور دریا تک گئے اور دریا کے کنارے مختلف طرز کے پتھروں کو دیکھتے رہے۔ اگلے دن
اسی سڑک پہ چلتے ہوئے ہمیں درہ خنجراب جانا تھا۔ درہ خنجراب کیوں کہ اس راستے پہ اونچا ترین
مقام ہے اس لیے اس درے سے اس طرف تمام دریا پاکستان کی طرف بہتے ہیں اور اس طرف کے
دریا چین کی طرف۔
ہم رات کے کھانے کے بعد ایک دفعہ پھر ٹہلنے کے لیے نکلے۔ اب کی بار ہمارا
استقبال ایک دوسرے گراں قدر قدرتی تحفے سے کیا گیا۔ ایک ایسا آسمان جو چھوٹے بڑے
تاروں سے اٹا ہوا تھا۔ ہم نے بہت کوشش کی آسمان کی اس روشن چھتری میں کوئی تاریک
گوشہ تلاش کریں مگر ہمیں ایسی کوئی تاریکی نظر نہ آئی۔ ہم اس خوب صورت تحفے کو
اپنے دل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کرتے ہوئے واپس ہوٹل کی طرف پلٹ گئے کہ اگلے روز
ہمیں سرحد پار کر کے چین میں داخل ہونا تھا۔
Labels: Afghanistan, Gilgit to Sost, Karakoram, Karakoram Highway, Shahra e Raisham, Silk Road, Tajikistan, Wakhan Corridor
Monday, August 22, 2016
گلگت
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو چورانوے
اگست چودہ، دو ہزار سولہ
گلگت
گلگت جس وادی میں واقع ہے اس وادی کی لمبائی میں پھیلان کی وجہ ہی سے یہاں ایک
ہوائی اڈہ بنانا ممکن ہوپایا۔ ایک زمانے میں اس پورے علاقے میں بدھ مت کے ماننے والوں
کی اکثریت تھی۔ اس دور کے آثار اب بھی
بدھ کی مورتیوں کی صورت میں یہاں ملتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں بدھ مت کے پیرورکار ان
ہی مورتیوں کو دیکھنے کے لیے جگہ جگہ جاتے تھے۔ اس سیاحت میں عبادت کا عنصر شامل
ہوتا تھا۔ مورتیاں جس علاقے میں ہوتیں وہاں رہنے والے لوگ سیاحتی آمدنی سے مستفید
ہوتے تھے۔ فی زمانہ ان مورتیوں کو دیکھنے والے سیاح شاید ہی دل میں عبادت کا کوئی
جذبہ رکھتے ہوں۔ اس کے باوجود کچھ لوگوں کی آنکھوں میں یہ مورتیاں کھٹکتی ہیں اور
وہ اپنے گمراہ خیالات کے زور میں ان آثار قدیمہ کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ کاش
کوئی ان گمراہ جہادیوں سے پوچھے کہ وہ علاقے کے لوگوں کی روزی پہ کیوں لات مارنا
چاہتے ہیں۔
گلگت شہر سے کچھ فاصلے پہ ایک چٹان پہ ایک بدھ مورت کنداں ہے۔ اس جگہ کو
کارگاہ بدھ کہا جاتا ہے۔ ہم جس سوزوکی سے کارگاہ بدھ پہنچے اس کا ڈرائیور بہت
باتونی تھا۔ اس نے ہمیں وہاں ایک سال پہلے ہونے والے شیعہ سنی فسادات کے بارے میں
بتایا۔ اس کا کہنا تھا کہ فسادات کی وجہ سے پورا علاقہ بند ہوگیا تھا۔ بہت سے
غیرملکی یہاں پھنس گئے تھے۔ ان کو کھانے پینے کو بھی کچھ نہ ملتا تھا۔ ڈرائیور کا
کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد سے یہاں غیرملکیوں کا آنا کم ہوگیا تھا۔
ہم بہت دیر تک اس صورتحال پہ غور کرتے رہے۔ سنہ سینتالیس میں انگریز کی اس
خطےسےروانگی کے وقت سیاسی تقسیم کے فیصلے مذہبی شناخت کی بنیاد پہ کیے گئے۔ اس اہم
فیصلے کے ثمرات اس وقت تک سامنے آرہے ہیں۔
اگر کچھ لوگ ہمیشہ ہرے رنگ کے کپڑے پہنتے ہوں اور دوسرے لوگ ہمیشہ زرد رنگ کے
کپڑے پہنتے ہوں تو ہرے کپڑے والے اپنی یہ جدا شناخت بنا سکتے ہیں کہ وہ ہرے کپڑے
والے ہیں جب کہ دوسرے زرد کپڑے والے۔ لیکن اگر اس شناخت کی مدد سے ایک الگ ملک
بنایا جائے جہاں ہرے کپڑے والے بڑی اکثریت میں ہوں اور زرد کپڑے والے نظر نہ آتے
ہوں تو کچھ عرصے میں شناخت کی بنیاد پہ کیا جانے والا اصل فیصلہ ذہن سے محو ہوجائے
گا کہ اس فیصلے کا محرک، زرد کپڑا، سامنے بچا نہ ہوگا۔ مگر لوگوں کا ذہن شناخت کی
اسی کسوٹی کے رخ پہ چل نکلے گا۔ پھر لوگ اپنی شناخت اس طرح کریں گے کہ کس کے کپڑے
زیادہ ہرے ہیں اور کس کے کم ہرے۔
ساٹھ کی دہائی میں امریکہ میں ویت
نام جنگ کی مخالفت جاری تھی۔ لوگوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کیا جارہا تھا۔ جنگ
کی مخالفت رفتہ رفتہ ایک منفرد سماجی تحریک بن گئی۔ جن لوگوں نے سرکاری لب ولہجہ
قبول کرنے سے انکار کیا وہ ہپی کہلائے۔ ہپی تحریک کے نوجوان جنگ کے ساتھ اس جدید
دنیا ہی سے مایوس تھے۔ دیکھتے دیکھتے یہ تحریک انگریزی زبان کے رشتے سے دوسرے
مغربی ممالک پہنچ گئی۔ اس تحریک کے عروج پہ مغرب سے نکلنے والے لڑکے لڑکیاں ایسی
جگہیں تلاش کرتے تھے جو اس دنیا سے دور ہوں جس سے وہ مانوس تھے۔ گلگت بھی ایسی ہی
ایک جگہ تھی۔ غریب مغربی سیاح جوق در جوق یہاں آتے اور انتہائی کم خرچے پہ اپنا
گزارہ کرتے ہوئے یہاں مہینوں پڑے رہتے۔ مگر اب گلگت بدل چکا تھا۔ اب وہاں غیرملکی
اکا دکا ہی نظر آتے تھے۔ وہی ذہن جو آثار قدیمہ کے خلاف ہے، دوسری طرح کے فساد
مچانے میں بھی مصروف ہے۔
بیچ دوپہر میں زور کی بھوک لگنے پہ
ہم اپنی سفری کتاب سے رجوع کرکے ایک ریستوراں پہنچے۔ ہال میں کوئی موجود نہ تھا۔
ہمارے آواز دینے پہ باورچی خانے سے ایک شخص نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھری
تھی۔ اس نے ماتھے پہ آنے والا پسینہ چھری
کے چوبی دستے سے پونچھتے ہوئے بتایا کہ کھانا گھنٹے بھر میں تیار ہوگا۔ ظاہر ہے کہ
ایک گھنٹے بعد ہم واپس اس ریستوراں نہیں گئے۔ ہمیں ایک ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں
باورچی، صارفین سے چھپ کر چھری کے پچھلے حصے سے ماتھے پہ آنے والا پسینہ پونچھتا
ہو۔
گلگت کے بازار میں قطار سے ایسی
دکانیں تھیں جہاں علاقے کی سوغات دستیاب تھیں۔ ایک دکان میں داخل ہوئے تو ایک غیرملکی
لڑکی کھڑی نظر آئی۔ اس کے سنہری بال اس کے سر پہ پڑی چادر کے نیچے سے نمایاں تھے۔
وہ پلٹی تو دیکھا کہ جمائمہ تھی۔ وہ بیس
سالہ برطانوی لڑکی بیالیس سالہ مرد سے شادی کے بعد پاکستان میں رہتے ہوئے اپنی
زندگی کا مقصد تلاش کررہی تھی۔ شاید اسی زمانے میں جمائما نے پاکستان سے کپڑے
برآمد کرنے کا کاروبار شروع کیا تھا۔
Labels: Buddha, Buddhist sites of Northern Pakistan, Gilgit, Kargah Budh
Sunday, August 14, 2016
پنڈی سے گلگت
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو ترانوے
اگست چھ، دو ہزار سولہ
اب جنوب سے چین کی طرف جاتے
ہوئے کروڑہا سال پہلے بننے والا جغرافیہ
ہمارے سامنے تھا۔ قریبا پینتیس کروڑ سال پہلے جنوبی ایشیائی پلیٹ یوروشیائی پلیٹ
سے ٹکرائی تھی جس کے نتیجے میں ہمالیہ، قراقرم، اور ہندو کش پہاڑی سلسلے وجود میں
آئے۔ یہ بہت پرانی بات ہے۔ اس وقت دنیا میں انسان کا وجود نہ تھا۔ انسان کو اپنی
موجودہ شکل میں آنے کے بعد افریقہ چھوڑے بمشکل ایک کروڑ سال ہوئے ہیں۔ مگر عظیم
الجثہ ڈائنوسار ان دو ارضیاتی پلیٹوں کے ٹکرانے سے بھی پرانی بات ہے۔ جس وقت یہ دو
پلیٹیں آپس میں ٹکرائیں اس وقت تک ڈائنوسار کو دنیا سے ختم ہوئے ساڑھ کروڑ سال سے
اوپر کا عرصہ گزر چکا تھا۔
اتنی پرانی باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ہم وقت کو
اس پیمانے پہ دیکھ رہے ہیں جس کو باآسانی ذہنی گرفت میں نہیں لایا جاسکتا۔ کارل
سیگن نے وقت کے اس محیرالعقل پھیلائو کو عام آدمی کو سمجھانے کے لیے ایک ترکیب
نکالی تھی۔ وہ کروڑہا سال پہ پھیلے اس وقت کو ایک سال اور اس میں موجود مہینوں اور
دنوں میں سمو دیتے تھے۔ کارل سیگن کے اسی تمثیلی انداز کو اپناتے ہوئے کہا جا سکتا
ہے کہ اگر جنوبی ایشیائی پلیٹ یوروشیائی پلیٹ سے رات بارہ بجے ٹکرائی تھی تو پورا
دن گزرنے کے بعد رات ساڑھے گیارہ بجے کے بعد انسان اس دنیا میں نمودار ہوا۔
جنوبی ایشیا کے شمال میں موجود
پہاڑی سلسلوں میں کئی جگہ پہاڑ یوں نیچے آتے ہیں کہ پہاڑوں کے درمیان ایک قدرتی
راستہ بن جاتا ہے۔ شمال سے آنے والے تجارتی قافلے اور فاتحین ان ہی دروں سے گزر
کر جنوبی ایشیا میں داخل ہوتے تھے۔ درہ خنجراب بھی ایسا ہی ایک قدرتی راستہ ہے۔
پاکستان نے چین کی مدد سے اس راستے کو پختہ کر کے شاہراہ قراقرم بنائی ہے۔ اب پنڈی
سے خنجراب تک ہمیں اسی شاہراہ پہ سفر کرنا تھا۔
راولپنڈی سے اسلام آباد جاتے ہوئے
سڑک کے درمیان قطار در قطار گلاب لگے نظر آتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک اپنے تئیں
اپنے دارالحکومت کو جاذب نظر بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ یہ دراصل اپنے
دارالحکومت میں آنے والے غیرملکیوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہوتی ہے کہ خارجیوں
کو یہ خیال ہو کہ جیسا خوب صورت دارالحکومت نظر آرہا ہے، شاید پورا ملک ایسا ہی
ہے۔
ایک زمانے میں پاکستان کے شمالی
علاقوں کو دیکھنے کے شوقین سیاح یہاں جوق در جوق آتے تھے۔ پاکستان جیسے جیسے
افراتفری کا شکار ہوتا گیا، ان سیاحوں کی تعداد میں کمی آتی گئی۔ پیرودھائی کے بس
اڈے پہ گلگت کا ٹکٹ لیتے ہوئے ہمیں صرف ایک غیرملکی نظرآیا۔
پیر ودھائی چھوڑنے سے پہلے ہماری
بس میں ایک نوجوان داخل ہوا۔ پتلون قمیض پہنے اس نوجوان نے آواز لگا کر تمام
مسافروں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ کراچی اور سندھ کے خراب
حالات کی وجہ سے ہجرت کر کے پنڈی آیا تھا۔
یہاں میری بہنیں بیٹھیں ہیں اس لیے
یہ بات کہتے ہوئے مجھے شرم آرہی ہے۔
اس کی یہ بات سن کر ہمارا ماتھا
ٹھنکا۔ ہمیں خیال ہوا کہ شاید وہ مردانہ کمزوری کا شرطیہ علاج بتائے گا اور کسی
قسم کی گولیاں فروخت کرے گا مگر وہ بھکاری نکلا۔ وہ صرف بھیک چاہتا تھا۔ ہمیں یہ
بات سمجھ میں نہ آئی کہ آخر بہنوں کے سامنے بھیک مانگتے ہوئے اسے شرم کیوں آرہی
تھی۔ کیا اس بات کے پیچھے یہ بیمار سوچ موجود تھی کہ ایک مرد، معاشرے کے کمزور
ترین رکن یعنی عورت کے سامنے، اپنی مالی
کمزوری کس منہ سے دکھائے؟
پنڈی سے گلگت جانے والی ہزارہ ٹورز
کی بس خم دار پہاڑی راستوں پہ ساری رات چلی اور ساری رات بس میں زور زور سے گانے
چلتے رہے۔ شاید یہ بلند آواز موسیقی ڈرائیور کو بیدار رکھنے کے لیے تھی۔
مانسہرہ سے آگے نکلے تو ٹھنڈی ہوا
کے جھونکے چلے اور بس جنگلات کی خوشبو سے بھر گئی۔ بہت اچھا لگا۔ مگر ساتھ ہی
بدلتی ہوئی حقیقت بھی واضح تھی۔ بس جس قصبے میں رکی وہاں سر ہی سر نظر آئے۔ ایبٹ
آباد سے مانسہرہ تک روڈ کے ساتھ مستقل آبادی نظر آئی۔ دس بارہ سال پہلے یہاں
ایسا نہ تھا۔ واضح تھا کہ آبادی کا یہ دبائو سارے جنگلات کا خاتمہ کردے گا۔ پھر
ٹھنڈی ہوا کے ساتھ جنگلات کی خوشبو بھی بند ہوجائے گی۔
اسی راستے پہ چلتے ایک اور مشاہدہ
یہ تھا کہ ان علاقوں میں اب مقامی عورتیں نظر نہیں آتیں۔ لگتا ہے کہ یہاں صرف مرد
بستے ہیں۔ اب ہر قصبہ مردان ہے۔
گلگت سے پہلے ایک چٹان پہ نعرہ
لکھا نظر آیا۔
روکھی سوکھی کھائیں گے۔ قراقرم
صوبہ بنائیں گے۔
خیال ہوا کہ یہ الگ صوبہ بنانے کی
لہر شاید کراچی سے شروع ہوئی ہے۔ انگریز کے جانے کے بعد جنوبی ایشیا کے مختلف گروہ
ایک دوسرے سے آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں۔
Labels: China travelogue, Pindi to Gilgit