Thursday, July 21, 2016

 

سووا سے راکی راکی










ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو نوے

جولائی سولہ، دو ہزار سولہ

سووا سے راکی راکی
 
سووا میں تجارتی سرگرمی کا مرکز شہر کے وسط میں بنے دو بڑے جدید طرز کے مال تھے۔ مگر یہ تجارتی مراکز صرف خریدوفروخت کے لیے نہیں تھے بلکہ یہ فیشن کے مراکز بھی تھے جہاں فجی کا اشرافیہ اپنی دولت کی نمائش کرتا تھا۔
انگریز کی آمد سے پہلے جزائر فجی نام کا کوئی ملک نہ تھا۔ ترقی پذیر دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح جزائر فجی نامی ملک بھی نوآبادیاتی آقا کی انتظامی سہولت کے حساب سے وجود میں آیا ہے۔ یورپی تسلط سے پہلے ہر جزیرہ اپنا انتظام خود کرتا تھا اور بڑے جزائر پہ کئی قبائل رہتے تھے جو اپنا اپنا انتظام چلاتے تھے۔ کیا اب جزائر فجی کے ایک ملک ہونے اور سووا کے دارالحکومت ہونے کی وجہ سے دوسرے جزائر پہ رہنے والے امرا سووا میں اپنی ایک متبادل رہائش رکھتے ہیں؟ کیا مختلف جزائر کے لوگ اپنی اپنی جدا پہچان رکھتے ہیں اور ایک جزیرے کے لوگ دوسرے جزیرے پہ جا کر خود کو اجنبی محسوس کرتے ہیں؟
فجی میں اندرون خانہ کچھ بھی کھچڑی پک رہی ہو فجی کے سیاحتی مقام ہونے کی حقیقت رفتہ رفتہ ہم پہ واضح ہوتی جارہی تھی۔ خط استوا کے شمال میں ہوں یا جنوب میں، یہ سارے استوائی علاقے پیٹ بھروں کے کھیل کے میدان ہیں۔ یہ ان امرا کا کھیل ہے جو خط استوا سے بہت دور ایک یا دوسرے قطب کے پاس رہتے ہیں۔ کینکون ہو یا ورجن جزائر، مالدیپ ہو یا جزائر فجی، ان جگہوں پہ دو مختلف قسم کی معیشت چلتی ہے۔ ایک معیشت مقامی لوگوں کے لیے، مقامی زبان میں، مقامی سکے میں؛ دوسری معیشت امیر خارجیوں کے لیے، انگریزی میں، امریکی ڈالر میں۔ نندی کے دنیرائو نامی فیشن ایبل علاقے میں ہمیں ان ہی دونوں معیشت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ وہاں پہلے خارجیوں کے لیے بولا بس آئی جس کی چھت کھجور کے پتوں سے بنی تھی۔ اس بس میں سیاح خوب کھل کھل کر بیٹھے۔ سیاح وہاں سے چلے گئے تو کچھ دیر میں پیلی رنگ کی ایک بس مقامی لوگوں کے لیے آئی۔ اس سستی بس میں لوگ زیادہ ٹھس کر بیٹھے تھے۔
ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایسی سیاحتی جگہ پہنچ کر مقامی لوگوں کی معیشت میں حرکت کریں، مگر سیاح ہونے کے ناتے ہمیں بار بار خارجیوں کی معیشت میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
ہم سووا سے راکی راکی جانے والی جس بس میں سوار ہوئے اس میں ایک سفید فام جوڑا دو چھوٹے بچوں کے ساتھ موجود تھا۔ آگے ایک اور جگہ سے دو جوان سیاح خواتین بس میں سوار ہوئیں مگر پھر یہ سارے غیرملکی ایک ساتھ ایک گائوں پہ اتر گئے۔ ہم حیران تھے کہ یہ سارے لوگ کس خاص جگہ پہ اترے تھے جس کی خاصیت کے بارے میں ہمیں ذرا علم نہ تھا۔
ہم نے بس کے اس لمبے سفر میں اپنے برابر بیٹھی ادھیڑ عمر مقامی عورت سے بات کرنا شروع کردی۔ وہ راستے میں آنے والے ایک بڑے قصبے سے بس میں چڑھی تھی۔ اس عورت نے بتایا کہ وہ اپنے گائوں میں ایک دکان چلاتی تھی۔ وہ آسٹریلیا جا چکی تھی جہاں اس کی بہن رہا کرتی تھی۔ اب وہ بہن دنیا سے گزر چکی تھی۔ جب یہ عورت محض چودہ سال کی تھی تو اس کے باپ کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس عورت کے چار بچے تھے۔ لڑکی پڑھاتی تھی، ایک لڑکا سووا میں رہتا تھا اور دو لڑکے گائوں میں۔ ہم نے اس کے سامان کا جائزہ لیا۔ اس کے پاس واشنگ پائوڈر، مچھر بھگانے کے کوائل، اور دودھ کے ڈبے تھے۔ اس نے بتایا کہ وہ ہفتے میں دو دن قریبی قصبے کے چکر لگاتی ہے۔ وہاں سے سامان خرید کرلاتی ہے اور گائوں میں اپنی دکان چلاتی ہے۔
ہم نے اس سے پوچھا کہ وہ اپنا سامان سووا سے کیوں نہیں خریدتی۔ اس نے بتایا کہ ہاں سووا میں یقینا اس کو سامان سستا مل سکتا تھا مگر وہاں تک جانے کا کرایہ زیادہ تھا اور اٖضافی کرائے کی رقم، خریدی جانے والی اشیا کی کم رقم کے ساتھ وارا نہیں کھاتی تھی۔ کچھ دیر بعد اس کا گائوں آگیا اور وہ سامان سے لدی پھندی وہاں اتر گئی۔ اس کے جانے کے بعد ہم سوچتے رہے کہ  وہ عورت اپنی زندگی میں کس قدر مصروف تھی۔ وہ شاید اپنی دکان چلانے اور اپنا پیٹ پالنے میں اس قدر زیادہ مصروف تھی کہ اس نے شاید کبھی زندگی کے بارے میں سوچا ہی نہ ہو۔ زندگی کے بارے میں سوچنے اور دنیا میں اپنے وجود کا مقصد تلاش کرنے کے لیے مالی آسودگی کے ساتھ وقت بھی چاہیے۔
راکی راکی میں ہمارا ہوٹل قصبے سے کچھ پہلے تھا۔ بس نے ہمیں ہمارے ہوٹل کے بالکل سامنے اتاردیا۔ ہوٹل بڑے رقبے پہ پھیلا ہوا تھا مگر کچھ ہی دیر میں ہم نے اس جگہ کے سارے بھید جان لیے۔ ہم ٹیکسی پکڑ کر راکی راکی مرکز شہر پہنچ گئے۔ وہ جگہ بھی کوئی خاص بڑی نہیں تھی۔ ہم نے ٹیکسی والے سے صلاح لی تھی کہ راکی راکی میں کھانا کہاں کھائیں۔ اس نوجوان نے غفور ریستوراں کی بہت تعریف کی تھی۔ مگر جب تک ہم وہاں پہنچے غفور ریستوراں میں کھانا ختم ہوچکا تھا۔ وہاں موجود حجابی خاتون نے ہمیں اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پھر پیشکش کی وہ تازہ کھانا بنا سکتی تھی۔ ہمیں خیال ہوا کہ وہ ہمیں فجی کی معیشت شمار دوئم میں دھکیلنا چاہ رہی تھی۔ ہم نے اسے کھانا بنانے کی زحمت سے بچایا اور برابر میں ایک دوسرے ریستوراں میں گھس گئے جہاں تیار کھانا موجود تھا۔


Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?