Thursday, July 14, 2016

 

سووا





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو نواسی

جولائی دس، دو ہزار سولہ

سووا



 
سووا میں دوسرا دن
کل جب مرکز شہر سے ہوٹل کے لیے چلے تو بارش شروع ہوچکی تھی۔ مگر اس بارش میں ٹہرائو تھا۔ لیکن جب رات سونے کے لیے لیٹے تو خوب زوردار بارش ہوئی۔  بارش کیسی عمدہ برکت ہے۔ من و سلوی ہے جو آسمان سے برستا ہے؛ مٹی اس پانی میں گوندھی جاتی ہے؛ زندگی اسی گندھی مٹی سے جنم لیتی ہے اور سورج کی روشنی میں کھانا تیار ہوتا ہے۔
سووا موٹر ان نامی اس ہوٹل میں قید تنہائی کا احساس ہے۔ اور یہ احساس انٹرنیٹ تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ انٹرنیٹ کا ساتھ ہو تو لگتا ہے کہ سارے محبت کرنے والے، سارے رشتہ دار، سارے دوست سامنے بیٹھے ہیں۔ انٹرنیٹ چھین لیا جائے تو لگتا ہے کہ ہمیں کال کوٹھری میں ڈال دیا گیا ہے۔

فجی میں تمدنی ٹکرائو
شکر ہے کہ انسان کی زندگی اتنی مختصر ہے کہ وہ بڑی بڑی ارضی تبدیلیوں کا مشاہدہ نہیں کرسکتا۔ یہ وہ تبدیلیاں ہیں جن میں دریا رخ بدلتے ہیں، پہاڑ ٹوٹتے ہیں یا کھڑے ہوجاتے ہیں، اور زمین کے خطے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔
ارضی تبدیلیاں ہمارے مشاہدے میں نہ آئیں مگر لوگوں کے رہن سہن میں تبدیلی کا مشاہدہ ہم کرسکتے ہیں۔
انگریزی میں قبل از تاریخ، پری ہسٹورک، کی اصطلاح عام ہے۔ قبل از تاریخ سے مراد وہ وقت ہے جو انسان نے لکھائی ایجاد ہونے سے پہلے دنیا میں گزارا۔
لکھائی ایجاد اور عام ہونے سے پہلے آنے والی سماجی تبدیلیوں کی ہلچل ہمارے علم میں نہیں ہے کیونکہ ایسی تبدیلیوں کو ریکارڈ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔
مثلا انسان کی اول تاریخ کے بارے میں غور کیجیے جب انسان شکار کی تلاش میں، اور قابل خوردنی پھل اور پودے ڈھونڈنے کے لیے مستقل حرکت میں رہتا تھا۔ پھر نہ جانے کس طرح اتفاق سے بیج سے پودا نکلنے کا مشاہدہ ہوا اور زراعت ایجاد ہوئی۔ ایسا عین ممکن ہے کہ جس گروہ نے چند پودے کھانے کے لیے اگائے ہوں وہ اس درمیان شکار میں بھی مصروف رہتا ہو۔ پھر یقینا ایسا بھی ہوا ہوگا کہ جس گروہ نے مکمل طور پہ زراعت پہ تکیہ کرلیا ہوگا اس کی مڈبھیڑ اس گروہ سے ہوئی ہوگی جو اب تک شکار اور پودے جمع کرنے میں وقت لگاتا ہوگا۔ پھر اس پہلے گروہ کو دوسرے گروہ کے لوگ کس قدر برے لگتے ہوں گے جو پہلے گروہ کے لگائے پودوں پہ جھپٹ پڑنا چاہتے ہوں۔ ایک جانور کا شکار کرنے کے بعد اس کے گوشت پہ چھینا جھپٹی تو پہلے بھی ہوتی ہوگی مگر اب زراعتی گروہ کو دوسرے گروہ کا اپنے کھانے پہ ہلہ بولنا اور بھی برا لگتا ہوگا۔ قصہ مختصر، دو گروہوں کے جدا اقدار کی یہ جنگ بہت دیر چلی ہوگی۔ مگر کوئی ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اقدار کی اس جنگ کا حال ہمیں معلوم نہیں۔
جزائر فجی میں بھی اقدار کی ایک جنگ ہوئی جو غالبا اب تک جاری ہے اور یہ وہ جنگ ہے جو یورپ اور جنوبی ایشیا کے لوگوں کے یہاں آنے کے بعد شروع ہوئی۔ فجی جزائر پہ جو قبائل رہتے تھے ان میں آدم خوری عام تھی؛ وقت کے ساتھ آدم خوری مذہبی رسومات کا حصہ بن گئی تھی۔ مگر نئے لوگوں کے آنے کے بعد نوواردوں کی اقدار مقامی لوگوں کی اقدار پہ چھا گئیں اور آدم خوری غیرقانونی قرار دی گئی۔ مگر آج  چند انسانی حقوق کے علمبرداروں کا خیال ہے کہ جس طرح مہذب معاشرے ہرفرد کو اس بات کی آزادی دیتے ہیں کہ وہ جو عقیدرہ رکھنا چاہے رکھے اور اپنی مرضی سے جو مذہبی رسومات ادا کرنا چاہے کرے، اسی طرح جزائر فجی کے لوگوں کو بھی یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ آدم خوری سے متعلق مذہبی رسومات آزادی سے انجام دے سکیں۔
مگر اس استدلال میں ایک جھول ہے اور اسے غور سے دیکھنا ضروری ہے۔ کسی شخص کا بھجن گانا یا اپنی مذہبی کتاب کو بلند آواز سے پڑھنا، یا خاص قسم کا حلیہ بنانا ایک بہت ذاتی فعل ہے۔ آدم خوری کی مذہبی رسم ادا کرنا ایسا ذاتی فعل نہیں ہے۔
آپ کو یہ آزادی حاصل ہے کہ آپ ہوا میں زور زور سے مکے لہرائیں مگر ایک بھری ہوئی بس میں آپ کو ایسا کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے کیونکہ وہاں دوسرے موجود ہیں اور ان کا چہرہ یا جسم آپ کے مکے کی زد میں آسکتا ہے۔
فرد کی اس آزادی کو جس سے دوسرے متاثر ہوں ہمیشہ غور سے دیکھنا ہوگا۔
رسم آدم خوری تو یقینا بہت ہی بڑی بات ہے کیونکہ یہاں دوسرے شخص کی آزادی ہی ختم نہیں ہورہی بلکہ دوسرا شخص ہی ختم ہورہا ہے۔
مگر پھر دوسری طرف سے حجت ہے کہ ہلاک ہونے والا شخص بالرضا ہلاک ہونے کے لیے تیار ہے۔ وہ شخص اس مذہبی رسم کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے جس میں پہلے اس کو منشیات کے ذریعے دنیا مافیا سے غافل کیا جائے گا، پھر اسے ہلاک کیا جائے گا، اور آخر میں قبیلے کے خاص لوگ اس شخص کا گوشت کھائیں گے۔ آپ کو آدم خوری ناپسند ہو تو ہوا کرے وہاں تو یہ مذہبی رسم سب کی مرضی سے ادا کی جارہی ہے۔
مثلا، رائے ونڈ میں اگر ایک مندر بنایا جائے جہاں صبح و شام گھنٹیاں بجیں تو یہ آواز علاقے میں رہنے والوں کو بری لگے گی اور وہ اس شور پہ شدید احتجاج کریں گے۔ لیکن رائے ونڈ کی مساجد سے بلند ہونے والی اذان بستی کے رہائشیوں کو پسند ہے کیونکہ یہ اذان ان کی اقدار کے حساب سے ہے۔
مگر آدم خوری سے متعلق مذہبی رسم ایک دوسرا معاملہ ہے۔ اس رسم کی ادائیگی میں دو جرائم کا ارتکاب ہورہا ہے۔ مردہ انسان کا گوشت کھانا یقینا دوسرا جرم ہے۔ پہلا جرم اس سے زیادہ سنگین ہے اور وہ ہے خودکشی؛ دوسروں کی مدد سے اپنی ہلاکت کا سامان کرنا۔ گو انسان کا اپنی جان کے بارے میں فیصلہ کرنا ایک بہت ذاتی معاملہ نظر آتا ہے، مہذب معاشروں میں خودکشی ایک جرم ہے کیونکہ معاشرے کا ہر فرد معاشرے کا سرمایہ ہے۔ ہر شخص کی زندگی سے دوسرے بہت سے لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ ایک شخص اپنی مرضی سے اپنے آپ کو ختم نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی اس حرکت سے پورا معاشرہ متاثر ہوگا۔
فجی میں اقدار کی جو جنگ جاری ہے اس سے کہیں بڑی جنگ پوری دنیا میں بپا ہے۔ ہزاروں سال پرانے مذہبی اعتقادات کی سائنس سے جنگ زوروں پہ ہے۔ جہاں اعتقادات میں تکبر ہے وہیں سائنس میں عاجزی ہے۔ اعتقادات بغیر ثبوت کے آپ کو بتاتے ہیں کہ ماضی میں یوں ہوا تھا۔ دوسری طرف سائنس فوسل ریکارڈ کا جم غفیر آپ کے سامنے لگا کر ہاتھ باندھ کر کہتی ہے کہ اس ثبوت کی روشنی میں ہمارا خیال ہے کہ ایسا ہوا تھا لیکن اگر آپ کے پاس اس سے بہتر کوئی تھیوری ہے تو وہ پیش کردیجیے۔

==



Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?