Friday, July 08, 2016

 

سووا؛ جنوبی ایشیائی لوگوں کا اپنے خطے سے باہر امن سے ساتھ رہنا





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اٹھاسی

جولائی تین، دو ہزار سولہ

سووا؛ جنوبی ایشیائی لوگوں کا اپنے خطے سے باہر امن سے ساتھ رہنا



 
سووا کے لیے روانہ ہونے سے پہلے ہم نے ہوٹل کے استقبالیہ پہ موجود عورت سے پوچھا کہ آیا ہمیں سووا کی بس میں سوار ہونے کے لیے مرکز شہر جانا ہوگا۔ اس کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمیں ذیلی سڑک پہ چل کر ہائی وے تک پہنچنا چاہیے اور وہیں سووا جانے والے کسی بس کو ہاتھ دے کر اس بس میں جگہ تلاش کرنی چاہیے۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ اس وقت تک صبح کا رش ختم ہوچکا تھا اس لیے ہمیں سووا جانے والی اگلی بس میں آرام سے جگہ مل گئی۔ موسم ابرآلود تھا۔ بس ساحل کے ساتھ چلی جارہی تھی۔ سمندر اور ہریالی کا خوب صورت ساتھ تھا۔
سووا جزائر فجی کا دارالحکومت ہے۔ اسی مناسبت سے بس کے شہر میں داخل ہونے سے پہلے شہر کی گہماگہمی شروع ہوگئی۔ وقفے وقفے سے کئی جانے پہچانے بین الاقوامی ناموں والی فیکٹریوں سڑک کے دونوں طرف نظر آئیں۔
گو کہ ہمارا ہوٹل بس اڈے سے کسی قدر فاصلے پہ تھا مگر ہم سووا سے جلد از جلد شناسائی حاصل کرنے کی نیت سے ہوٹل تک پیدل جانا چاہتے تھے۔ ہم سڑک پہ موجود طرح طرح کے چہرے دیکھتے ہوئے اپنی منزل کی طرف چلتے رہے۔ زیادہ تر لوگوں کا تعلق جنوبی ایشیا سے نظر آتا تھا؛ بیچ بیچ میں سیاہ فام لوگ اور مخلوط نسل کے لوگ بھی نظر آتے تھے۔ جزائر فجی میں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے مختلف مذاہب کے لوگ امن سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ فجی میں دو قومی نظریہ کام کرتا نظر نہیں آتا۔
سنہ نواسی سے سنہ ترانوے کے درمیان دنیا میں بہت سی سیاسی تبدیلیاں آئیں۔ زیادہ تر سیاسی تبدیلیوں کا تعلق اشتراکی نظام کی واضح ناکامی سے تھا۔ سوویت یونین ٹوٹا تو جہاں وسطی ایشیا اور بالٹک کے وہ خطے جو زبردستی بڑی اشتراکی ریاست کا حصہ بنے تھے آزاد ہوئے، وہیں وہ ممالک جو اشتراکیت اور سرمایہ داری نظاموں کی کشمکش سے تقسیم ہوئے تھے، دوبارہ ایک ہوگئے۔ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی مل گئے اور جنوبی یمن شمالی یمن سے یکجا ہوگیا۔
اس موقع پہ دنیا والوں نے دو اور خطوں کی طرف امید سے دیکھا جہاں دوسری جنگ عظیم کے بعد مصنوعی تقاسیم ہوئی تھیں۔ پہلا خطہ چوسن اور دوسرا جنوبی ایشیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ چوسن میں شمالی کوریا جنوبی کوریا سے جا ملے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا کیونکہ شمالی کوریا اشتراکیت کی راہ پہ ہونے کے باوجود سوویت یونین کے مرکز سے دور تھا اور چین سے نزدیک تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے چین پہ بہت زیادہ اثر نہیں ہوا تھا۔ چین اپنے ادھ بچے اشتراکی نظام کے ساتھ چلتا رہا تو شمالی کوریا بھی اپنے مطلعق العنان اشتراکی نظام کے ساتھ چلتا رہا۔
دنیا والوں نے اتحاد کی ایسی ہی امید کے ساتھ جنوبی ایشیا کی طرف بھی دیکھا۔ شاید خیال یہ تھا کہ اب پاکستان، بنگلہ دیش، اور بھارت بھی ایک ہوجائیں گے۔ ایسا سوچنے والے لوگ نادان تھے کیونکہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ سنہ سینتالیس میں مذہب کی بنیاد پہ ہونے والی تقسیم بہت گہری ہے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود جنوبی ایشیا کے لوگ اب بھی مذہب سے اپنی شناخت کرتے ہیں اور ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
تو پھر ایسا کیوں ہے کہ جنوبی ایشیا سے باہر جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی مختلف قومیتوں کے لوگ امن و سکون کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں؟ مشرق وسطی یا مشرق بعید چلے جائیے، یورپ میں دیکھیے، یا شمالی امریکہ میں، آپ کو بھارت اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہندو، سکھ، مسلمان، بہاری، پنجابی، گجراتی، پٹھان، وغیرہ ہنسی خوشی ساتھ رہتے نظر آئیں گے۔ شاید یہ مشاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے لوگ کسی غیر کی حکومت میں نیچے ایک سطح پہ ہوں تو امن و سکون سے ساتھ رہتے ہیں، مگر ان کے درمیان اس قسم کا عدم اعتماد ہے کہ اگر آپ ایک گروہ کے لوگوں کو اقتدار سونپیں تو دوسرے گروہ کے لوگ خوفزدہ ہوں گے کہ اب اصحاب اقتدار اپنی قوم کے لوگوں کو خاص مراعات دیں گے اور دوسری قوم کے لوگوں کو تنگ کریں گے۔ اسی عدم اعتماد کا دوسرا نام دو قومی نظریہ ہے۔
شاید جنوبی ایشیا کا ایک پرامن مستقبل اسی وقت ممکن ہے جب لوگوں کی پہچان ان کے مذہب سے کمزور پڑجائے۔


Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?